Monday, July 14, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

زخمِ حیرانی

افسانہ
شفیق احمد شفیق

’’بابا تمہارا دیا کھاتا ہوں‘‘
’’مجھ پر رحم کرو‘‘
’’میری مدد کرو‘‘
’’تمہارا بھلا ہوگا‘‘
حسب معمول آج بھی وہ بوڑھا فقیر رقّت آمیز صدا لگاتا ہوا بس میں داخل ہوا۔ وہ روزانہ بس اسٹاپ کے پاس دھوپ میں فٹ پاتھ پر ٹاٹ کا پھٹا ہوا ٹکڑا بچھا کر بیٹھا رہتا۔ دن بھر جتنی بسیں اس اسٹاپ پر آکر رکتیں وہ ان پر سوار ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا اور گڑ گڑا کر اپنی ضعیفی اور غربت کا واسطہ دیتا۔ یہ فقیر ہمیشہ ایک میلی شلوار قمیض میں نظر آتا۔ کپڑوں میں جگہ جگہ پیوند بھی لگے ہوئے تھے جو اس کی بدحالی اور مفلسی کی منہ بولتی تصویر تھے۔ بوسیدہ قمیض کی طوالت گھٹنے سے نیچے ختم ہوتی تھی۔ سر پر کپڑے کی ایک زرد ٹوپی بھی جمی رہتی۔ چہرہ بالکل سوکھا ہوا بے آب و رنگ دکھائی دیتا۔ اس پر جھریوں کا تانا بانا اس طرح بنا ہوا تھا جیسے یہ جھریاں نہ ہوں زندگی کے سفر کے حاصل شدہ تجربات ہوں۔ جنہیں بوڑھے نے اپنے بے رنگ چہرے پر سجا لیا ہو۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جن میں صبح کے وقت ڈوبتے ہوئے ستاروں کی سی جھلملاہٹ تھی۔ جھلملاتی ہوئی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے تھے، چہرے پر سفید داڑھی کا ملگجا رنگ کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے بھیگی ہوئی لکڑی کو سلگا کر اس کا دھواں داڑھی میں لگایا گیا ہو۔ پچکے ہوئے گالوں کے ساتھ طوطے کی چونچ کی طرح ناک لمبی ہو کر ہونٹوں پر جھک گئی تھی۔ سنتے ہیں کہ اس قسم کی ناک اسی کی ہوتی ہے جو بڑا خوش نصیب اور دولت مند ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ فقیر اپنی زندگی کی لاش کو لیے غربت و افلاس کے سمندر میں غوطہ زن ہے۔ مگر ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود اسے اب تک ساحل کی آسودگی نصیب نہیں ہوئی تھی۔
ضعیفی کے سیلاب نے دانتوں کی دیواریں بھی ڈھا دی تھیں۔ اس کے بائیں کندھے پر کپڑے کا ایک تھیلا بھی لٹکا رہتا تھا، جس کے اندر تام چینی کے ایک برتن اور المونیم کے ایک گلاس میں ہر وقت چشمک ہوتی رہتی۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک بھدا سا عصا بھی رہتا تھا۔ وہ اسے شاید اپنی ضعیفی کا سہارا بنائے ہوئے تھا۔ حالانکہ ضعیفی کا سہارا تو اولاد ہوتی ہے۔ قدرت نے شاید اسے اس دولت سے بھی محروم رکھا تھا۔ ورنہ کون اپنی مرضی سے دھکے کھاتا ہے اور اذیّت کی زندگی گزارتا ہے۔
وہ بس میں داخل ہو کر یوں صدا لگاتا جیسے اس کی سانس اکھڑی جا رہی ہو۔ اس کے جسم میں ہلکی سی کپکپاہٹ بھی تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس کے جسم کے درخت کو دھرتی نے چھوڑ دیا ہے۔ یہ بے آب و رنگ درخت کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتا ہے۔
جہاں مجھے اس بوڑھے فقیر کی ضعیفی اور غربت پر ترس آتا وہاں اس کی سخت جانی پر بھی حیرت ہوتی۔ معلوم نہیں دھوپ کی شدید تمازت میں وہ صبح سے شام تک کیسے اس بس اسٹاپ پر بیٹھا رہتا۔ معلوم نہیں یہ بوڑھا جوانی میں کیسا دم خم اور کس کس بل کا مالک ہوگا؟ ویسے بوڑھے کے جسم کے کھنڈرات یہ ضرور بتاتے ہیں کہ یہ عمارت کبھی بہت مضبوط اور شاندار تھی۔ میرے دل کو اس خیال سے بھی افسوس ہوتا کہ شاید جوانی میں محنت کرنے کے باوجود اسے پیسہ کمانے کا موقع نہ مل سکا جس سے وہ اپنی ضعیفی کے وقت ایک ایسے سائے کا انتظام کرسکتا جو اسے زندگی کی چلچلاتی دھوپ سے محفوظ رکھ سکتا۔
آج بھی حسب معمول جب میں اپنے مخصوص روٹ کی بس پر دفتر سے گھر لوٹ رہا تھا تو بس اپنے پروگرام کے مطابق اسی بس اسٹاپ پر رکی۔ اور وہ بوڑھا فقیر جس سے میرا ایک انجانا سا رشتہ ہوگیا تھا، خون کا نہیں درد کا رشتہ اور جس کا دکھ مجھے اپنا دکھ لگتا تھا، لڑکھڑاتا ہوا بس میں داخل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ آج وہ بس کے مسافروں کو اپنا پیٹ کھول کر دکھا رہا ہے جس پر لکڑی بندھی ہوئی تھی۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا۔ گویا یہ نحیف و نزار بوڑھا ابھی تک بھوکا ہے؟ بھوک کی شدت اور تکلیف سے بچنے کے لئے اس نے پیٹ پر لکڑی باندھ رکھی ہے۔ کیا دن بھر دھوپ میں جلنے کے بعد بھی اسے دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوئی؟ کیا دنیا والے اتنے بے رحم ہیں؟ دن بھر میں کتنی ہی بسیں اس بس اسٹاپ پر آکر رکی ہوں گی اور ان پر نہ جانے کیسے کیسے لوگ سوار ہوں گے۔ مگر کسی کو بھی اس پر ترس نہیں آیا۔
اس دن کے بعد سے اکثر اس کے پیٹ پر لکڑی بندھی ہوتی۔ اور وہ تقریباً رو رو کر لوگوں سے بھیک مانگتا۔ بوڑھے کی اس حالت کو دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ ترقی کی جتنی راہیں نکل رہی ہیں اس سے زیادہ سوچ اور فکر کے دروازے کھل رہے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی پر طاری یہ مہیب و سیاہ رات کب ختم ہوگی۔ خوشی کا تابناک سورج کب طلوع ہوگا؟
ایک دن جب میں دفتر جارہا تھا حسب معمول اسی بس اسٹاپ پر بس آکر رکی جہاں وہ مظلوم فقیر بسوں کا انتظار کیا کرتا تھا۔ یہ تو میں بتانا بھول گیا کہ اس بس اسٹاپ پر تقریباً چھ سات منٹ تک بس رکتی ہے۔ جب اسی روٹ کی دوسری بس پیچھے سے آجاتی ہے تو پہلی والی بس چل پڑتی ہے۔ یہی وجہ کہ وہ فقیر بڑے اطمینان سے بس پر چڑھتا اور بھیک مانگ کر آہستہ آہستہ بس سے اتر جایا کرتا۔ میری متجسسانہ نگاہیں بس کے دروازے پر لگی رہیں۔ مگر پانچ منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ فقیر کی صدا آئی اور نہ وہ بس میں داخل ہوا۔ مجھے کچھ عجیب بے چینی سی محسوس ہوئی۔ میں اپنی سیٹ چھوڑ کر بس کے دروازے پر آگیا اور جھانک کر فٹ پاتھ کی اس مخصوص جگہ کو دیکھنے لگا جہاں وہ فقیر ٹاٹ کا ایک پھٹا ہوا ٹکڑا بچھا کر بیٹھا کرتا تھا۔ مگر وہاں نہ ٹاٹ کا پھٹا ہوا ٹکڑا تھا اور نہ وہ بوڑھا فقیر۔ وہاں تو سناٹا تھا، دھوپ تھی اور گردوغبار تھا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اور یوں لگا جیسے میری کوئی قیمتی چیز کھو گئی ہے جو مجھے بہت عزیز تھی۔ میں بے نیل مرام اپنی سیٹ پر لوٹ آیا۔ ایک ڈیڑھ سال سے وہ فقیر روزانہ اپنے معمول کے مطابق اس بس اسٹاپ پر آتا تھا۔ کبھی بھی اس کے معمول میں فرق نہیں آیا۔ اس کی اس پابندی اور تسلسل نے مجھے خدشے میں ڈال دیا تھا۔ معاً میرے ذہن میں یہ خیال بجلی کی طرح کوندا کہ خدانخواستہ۔۔۔۔۔۔ کہیں بوڑھا فقیر دنیا ہی سے تو نہیں چل بسا۔۔۔۔۔۔! ۔۔۔۔۔۔ لیکن فوراً ہی میرے دل نے اس خیال کی تردید کی کہ وہ نہیں مرا ہوگا۔ بیمار پڑ گیا ہوگا۔ غرض میں اسی کشمکش میں الجھا رہا۔ بوڑھے فقیر کا خیال میرے دل میں خلش بن کر رہ گیا۔
اتفاق سے انہیں دنوں بینک میں کچھ ہنگامی کام کا دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ مجھے خلاف معمول گھر سے دفتر کے لئے علی الصبح نکلنا پڑتا۔ بینک کا کام بھی عجیب ہے۔ پیسوں سے کھیلو مگر بے فیض رہو۔ بینک کی اس ہنگامی مصروفیت کے سبب مجھے آٹو رکشا سے دفتر جانا پڑتا تھا۔ جس کا کرایہ دفتر ہی ادا کرتا تھا۔ واپسی بھی رات کے ساڑھے 9 یا 10 بجے تک ہوتی۔ کام کے اس دباؤ اور افراتفری کی وجہ سے میں نہ اس بس اسٹاپ کی طرف جا سکا اور نہ ہی اس بوڑھے فقیر کو دیکھ سکا۔ مگر کام کے دوران میں بھی وہ مجھے یاد آتا رہا، اس کا مسکین اور قابل رحم چہرہ میری نگاہوں میں پھر جاتا اور دل میں کسک سی پیدا ہونے لگتی۔
آج مصروفیت کا تیسرا دن تھا۔ لوگ تیزی سے سو سو کے نوٹ بینک میں جمع کرا رہے تھے۔ کیوں کہ سو روپے کے نوٹ کے (دیمونیتیساشن) کا حکومت کی طرف سے اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس کے لئے آخری تاریخ بھی مقرر کردی گئی تھی۔ بینک میں بے تحاشا بھیڑ تھی۔ لوگ قطار کی صورت میں دو دو اور تین تین آدمیوں کی ٹولی کی شکل میں بینک کے اندر داخل ہورہے تھے۔ بقیہ لوگ بینک کے باہر راستے پر قطار بنائے دھوپ میں کھڑے تھے۔ مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس تھا۔ حالانکہ اس کام کے لئے کئی کاؤنٹر کھول دیئے گئے تھے۔ مگر لوگوں کا سیلاب تھمتا ہی نہ تھا۔ میں بھی ایک کاؤنٹر پر نوٹ وصول کررہا تھا اور رسید بنا کر دیتا جارہا تھا۔ میں انتہائی تیز رفتاری اور انہماک کے ساتھ کام میں لگا ہوا تھا۔ لوگوں کے چہرے تک دیکھنے کی مہلت نہیں تھی۔ صرف نوٹوں کو ہاتھ بڑھا کر لیتا اور ہوشیاری سے گن کر رسید بنا دیتا۔
اچانک میری طرف ایک ہاتھ بڑھا جس میں سو سو کے نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔ میں نے نوٹ لے لئے اور انہیں گننے کے بعد رسید بنائی اور سر نیچے کئے ہوئے ہی سامنے کھڑے ہوئے آدمی کی طرف بڑھا دی۔ اس شخص نے بڑی کرخت آواز میں مجھ سے کہا کہ ’’پورے تیس ہزار کی رسید بنائی ہے نا!‘‘
میں اس کی آواز پر چونک پڑا!!
نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں کرسی سمیت ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ میری آنکھیں اس آدمی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور ذہن اس بس اسٹاپ پر بھٹک رہا تھا جہاں ایک ضعیف آدمی پیٹ پر لکڑی باندھے بھیک مانگتا ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل