خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
——————————
سچ سننا ہے اے دوستو! سچ کہنا ہے
سچوں کو جو دُکھ ملتا ہے وہ سہنا ہے
ہر جھوٹ سے ہر گام جَدَل کرتے رہو
آزاد فضاؤں میں اگر رہنا ہے
تو نفس کی خواہش میں، اگر دُھلتا رہا
خواہش کا دیا تجھ میں اگر جلتا رہا
ہوجائے گی رسوائی سَرِبزمِ جہاں
تو نفس کی خواہش پہ اگر چلتا رہا
امروز میں فردا کا رہے تجھ کو خیال
امروز میں فردا سے رہے تیرا وصال
امروز میں فردا کا تو منصوبہ بنا
تا کہ تجھے مجھ سے نہ ہو پھر کوئی مَلال
ہر ایک کی تصویر بناتا ہے تو
ہر ایک کا کردار دکھاتا ہے تو
تصویر کبھی اپنی بنا کر بھی دکھا
کیوں اپنی حقیقت کو چھپاتا ہے تو
اُلفت سے کوئی بات اگر کرتا ہے
وب سب سے بڑا کارِ ہُنر کرتا ہے
جو شخص محبت کو بناتا ہے شعار
وہ دل میں نہیں روح میں گھر کرتا ہے
سب لوگ کہاں دل میں سما پاتے ہیں
بس چند ہی انسان پسند آتے ہیں
تا عمر بھلا سکتا نہیں ان کو کبھی
وہ روح کی خلوت میں اُتر جاتے ہیں
دعویٰ تھا جنہیں علم کا باطل نکلے
بنتے تھے سمندر جو، وہ ساحل نکلے
جب علم کی میزان میں تولا اُن کو
وہ لکھے پڑھے لوگ بھی جاہل نکلے
اے شخص! کبھی ذات کے باہر بھی دیکھ
اپنے کبھی دن رات کے باہر بھی دیکھ
ایک ایک نفس قید ہے جس میں تیرا
اُس دامِ طلسمات کے باہر بھی دیکھ
تنکا ہو، اگر جھاڑ بنا دیتے ہیں
پودا ہو، اگر تاڑ بنا دیتے ہیں
کچھ لوگ تو رائی کا بناتے ہیں پہاڑ