ضمیر آفاقی
ہمارے ہاں جب بچوں کو ان کے اچھے بُرے کے بارے تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہے، تو معاشرے کی اکثریت سیخ پا ہو کر اسے ہنود و یہود کا ایجنڈا اور سازش قرار دے کر کہنے والے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتی ہے، حالانکہ معصوم بچوں کو ان کا اچھا بْرا بتانا انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کے ہر مہذّب ملک میں بچّوں کو لائف اسکلز سکھائے جاتے ہیں، ان کو اچھے اور بْرے برتاؤ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ جنسی تشدد سے بچاؤ کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے طریقے، صحت مند رہنے کے اصول، عمر کے ساتھ ہونے والی جسمانی تبدیلیوں اور جنسی اعضا کے افعال، کھیل کود، جسمانی ورزش، حفظانِِ صحت کے اصول، فرسٹ ایڈ، کسی حادثے، تشدد یا جنسی حملے کی صورت میں حفاظتی طریقوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اندھا بہرا گونگا کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ وہاں یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ بچہ کسی کی ’’ملکیت‘‘ نہیں ہوتا نہ ’’پیداوار‘‘، جبکہ بچے کو انسان سمجھتے ہوئے اسے ریاست کا بچہ کہا جاتا ہے جو اس کے تمام حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔
جس کی چند ایک مثالیں جو ہمارے بیرون ملک رہنے والے دوستوں نے شیئر کی ہیں، ان کے مطابق ڈاکیے نے گھر کی بیل دی۔ دس سال کے بچے نے دروازہ کھولا۔ ڈاکیے نے بچے سے کہا اپنے امی ابو میں سے کسی کو بلواؤ، ڈاک دے کر دستخط کرانا ہیں۔ بچے نے کہا وہ گھر میں اکیلا ہے۔ ڈاکیے نے فون کر کے پولیس بلوا لی۔ والدین پر مقدمہ درج ہوگیا اور بچے کو سوشل ڈیپارٹمنٹ والے لے گئے، کیونکہ والدین نے بچے کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر اس کی حفاظت اور زندگی کو غیریقینی بنا دیا تھا۔ برطانیہ میں 12 سال سے کم عمر بچوں کو اکیلا چھوڑنا غیرقانونی ہے۔ 14 سال سے کم عمر بچوں کو تادیر تنہا چھوڑنا قابل گرفت جرم ہے اور 16 سال تک کے بچوں کو رات میں اکیلا چھوڑنا غیرقانونی ہے۔ ایک گھر میں چولہے کو آگ لگ گئی، پھر ایک بوائلر بھڑک اٹھا۔ فائر بریگیڈ والوں نے رپورٹ لکھی۔ اس گھر میں ایک چھوٹا بچہ ہے ایسے واقعات سے اس کی زندگی کو خطرہ ہے اور یہ واقعات والدین کی غیر ذمے داری کا ثبوت ہیں۔ 4 سال تک وہ بچہ اپنے والدین سے دور کردیا گیا۔ اس دوران اگر دوسرا بچہ بھی جنم لیتا تو وہ اسے بھی لے جاتے۔ ایک بچے نے پولیس کو فون کیا کہ اس کے والدین آپس میں لڑ رہے ہیں اور حسبِ توفیق ایک دوسرے کو پھینٹی لگا رہے ہیں۔ پولیس والدین کو پکڑ کر لے گئی، ان پر مقدمہ درج ہوگیا۔ بعد میں والدین نے صلح کرلی لیکن ان کے چار بچے سوشل ڈیپارٹمنٹ والے لے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ جھگڑالو والدین کی وجہ سے بچوں کی مناسب تربیت ممکن نہیں۔ برطانیہ میں بچے ریاست کی ذمے داری ہیں۔ یہاں کی ریاست ماں جیسی ہے یہ ریاست بچوں کو مفت تعلیم دیتی ہے، کھانا دیتی ہے، جیب خرچ دیتی ہے، مفت کتابیں دیتی ہے، مفت علاج کراتی ہے اور ان کی حفاظت اور ویلفیئر کی ذمے دار ہے۔ ہمارے ہاں بھی سوشل ویلفیئر اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو نامی ادارے موجود ہیں لیکن کیا یہ ادارے پاکستانی بچوں کو ریاست کا بچہ سمجھتے ہوئے اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں؟ مغربی سوسائٹی نے پہلے یہ تسلیم کیا کہ کچھ لوگوں میں پیڈوفیلیا کی بیماری ہے یعنی وہ بچوں کی طرف جنسی رجحان رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہاں کی سوسائٹی نے تسلیم کیا کہ قریبی رشتوں میں انسیسٹ یعنی جنسی رجحانات کا مسئلہ ہے جس میں بچے اپنے قریبی رشتہ داروں کی جنسیت کا شکار ہوتے ہیں اور پھر اس سوسائٹی نے ان مسائل کا فکری، تعلیمی اور عدالتی حل تلاش کیا اور بچوں کی نرسری سے ہی تربیت شروع کردی۔
مجرموں کے ساتھ رعایتی برتاؤ نہیں برتا جاتا۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ میں جنسی مجرموں کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے، ان کو قانون کے مطابق اپنے جرم کی سزائیں ملتی ہیں۔ عورتوں اور بچوں کو ایسے مجرموں سے بچانے کے لئے ان مجرمین کے ساتھ ڈیوائسس ٹریکنگ منسلک کی جاتی ہیں، ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ہمدردی نہیں کی جاتی، چوکنّا رہا جاتا ہے، معاشرے کو ان کے آزار سے بچانے کے لئے ہرممکن جتن کیے جاتے ہیں۔ جب تک مجرموں کو ان کے جرم کی سزائیں نہیں ملیں گی ان کی سزائیں معاشرے پر تقسیم ہوتی رہیں گے۔ پورا معاشرہ جرائم سے بوجھل ہوجائے گا۔ معصوم کلیوں کو مسلنے والے تو دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ دوہری سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ پہلے یہ معصوم بچّوں کے ساتھ درندگی کرتے ہیں ان کی شخصیت تباہ کرتے ہیں پھر انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ انہیں سزا ضرور ملنی چاہئے۔ سزا کا تعین ریاست کرتی ہے۔ پوری دنیا کا نظامِ انصاف پنشمنٹ آف اماؤنٹ ایکول کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ سزاؤں کا تعیّن اس ہی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مہذّب معاشرے فلاحی ریاست کے نظام پر قائم ہوتے ہیں۔ فلاحی ریاستیں مجرموں کی نفسیاتی تحلیل اور ری ھیبی لیشن کرتی ہیں، مگر پہلے مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتی ہیں۔ سزا پوری کرنے کے بعد ہی اس مجرم کی معاشرے میں بحالی اور تربیت کا کام شروع ہوتا ہے۔ جرم کی سزا لازمی عنصر ہے اور عوام کا یہی مطالبہ ہے کہ مجرم کو سزا دی جائے۔
اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے جہاں ریاست ذمے دار ہے، وہیں والدین بھی اتنے ہی نہیں بلکہ زیادہ ذمہ دار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے بُرے کے بارے میں ناصرف جانیں بلکہ بچوں میں بھی شعوری آگاہی پیدا کریں۔ والدین کو کرنا کیا چاہئے؟ پارکس، شاپنگ مالز، مقامی بازاروں اور کسی عوامی جگہ پر ہوں، تو اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جگہ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں کس سے رابطہ کرنا چاہئے اور کہاں جانا چاہئے، مثلاً شاپنگ مالز میں استقبالیہ یا پارکس کے سیکورٹی گارڈز۔ بچوں کو بتائیں کہ ان مقامات پر کون سی ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ آپ کے ساتھ اور آپ کے بغیر جا سکتے ہیں۔ عوامی مقامات پر ٹوائلٹس اکثر دور دراز کونوں میں ہوتے ہیں جو فاصلے سے نظر نہیں آتے۔ اگر آپ کے بچے کو ٹوائلٹ جانا ہو تو اس کے ساتھ جائیں۔ اگر آپ کے ساتھ کافی سارے بچے ہوں تو آنہیں اکیلا پیچھے چھوڑنے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر جائیں۔ آپ کا بچہ بڑا ہے اور آپ اس کے ساتھ ٹوائلٹ کے اندر نہیں جاتے، تو دروازے کے عین باہر کھڑے رہیں۔ کھانے پینے کے اسٹالز اور ٹھیلوں وغیرہ کے آس پاس محتاط رہیں۔ اِس بات پر راسخ رہیں کہ بچے کیا چیز کس سے لے کر کھا سکتے ہیں۔ بہتر رہے گا کہ بچے کو خود کھانے پینے کی چیزیں دلانے لے جایا جائے۔ اگر آپ کا بچہ وین کے ذریعے اسکول جاتا ہے تو آپ کے پاس ڈرائیور اور گاڑی کی تفصیلات ضرور ہونی چاہئیں بلکہ اسکول کے پاس بھی اس کی معلومات ہونی چاہئیں۔ اگر آپ کا بچہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جاتا ہے، تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آیا آپ کا بچہ مخصوص جگہ پر ہی اتارا جاتا ہے یا اسے وہاں تک خود جانا پڑتا ہے۔ والدین یا سرپرست کے طور پر آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ اس کے ساتھ تعلیمی نصاب کے تبدیل کرنے اور سماجی تربیتی مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے۔