گلشن سے گھر میں لا کے مجھے رکھ دیا گیا
گلدان میں سجا کے مجھے رکھ دیا گیا
پہلے تو التفات کی بارش رہی، بہت
ہر طاق پر اُٹھا کے مجھے رکھ دیا گیا
سورج کے انتظار میں جلنے کو رات بھر
دہلیز پر جلا کے مجھے رکھ دیا گیا
دربار کے مزاج سے واقف نہ تھی زباں
دیوار سے لگا کے مجھے رکھ دیا گیا
بیم و رجا کے پیچ میں الجھا ہوا ہوں میں
خط دور سے دکھا کے مجھے رکھ دیا گیا
اس گھر میں ایک ذات مری ناگوار تھی
سب سے الگ ہٹا کے مجھے رکھ دیا گیا
اس خوش جمال سنگ بدستوں کے شہر میں
اک آئینہ بنا کے مجھے رکھ دیا گیا
صدیوں سے خود کو ڈھونڈ رہا ہوں، اِدھر، اُدھر
جانے کہاں چھپا کے مجھے رکھ دیا گیا
میں تھا بیاضِ دہر کی اک چمپئی غزل
کچھ دیر گنگنا کے مجھے رکھ دیا گیا
جیسے کوئی پتنگ ہو کاوشؔ ، کٹی ہوئی
یوں دوش پر ہوا کے مجھے رکھ دیا گی
————–
کاوشؔ عمر