Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

 

ان کو کبھی دل کے لئے راحت نہ بنا
شرمندۂ تعبیر جو ہوسکتے نہیں

بہجت نہیں ہوسکتے وہ، بہجت نہ بَنا
اے آدمی! ان خوابوں کو عادت نہ بَنا

دائم بھرا رہتا ہے کہاں کوئی ایاغ
روشن تو جسے دیکھ رہا ہے اے شخص!
یہ بات نہیں سوچتا کیوں تیرا دماغ
بجھ جائے گا اک روز یہ ہستی کا چراغ

پَرکھوں، تری آواز یہ اپنا سونا
اے فاطر بے تاب کبھی مجھ کو پکار
گونجے مِری ہستی کا بھی کونا کونا
اچھا نہیں لگتا تِرا گونگا ہونا

اندر کا جو چہرہ ہے وہ چہرہ بھی دیکھ
اوروں کے سویرے کو بھی کہتا ہے بُرا
بے حس! تو کبھی اپنا تماشا بھی دیکھ
تو اپنے بھی باطن کا اندھیرا بھی دیکھ

وہ حُسن کہاں عالم اکبر میں ہے
دروازہ بصیرت کا کبھی کھول کے دیکھ
جو حُسن ترے عالم اصغر میں ہے
جو حُسن ترے گنبد بے دَر میں ہے

دل اپنا تو زنگار اَثر رکھتا ہے
ہے اندھی محبت میں گرفتار ابھی
بے عقل عقیدے کی نظر رکھتا ہے
اے شخص! تو اس خیر میں شر رکھتا ہے

دھارے میں خودی کے تو بہے گا کب تک
باہر کی فضا میں کبھی تو آ کے تو دیکھ
جو کاٹ ہے اس میں وہ سہے گا کب تک
اس ذات کے گنبد میں رہے گا کب تک

تا عمر میں دستک تجھے دیتا ہی رہا
تھک ہار کے آمادہ کیا جب دل کو
کانوں میں تِرے پہنچی کہاں میری صدا
دروازۂ دل، دل ہی کی دَستک سے کھلا

جو سب کے لئے خود کو نُمو کرتا ہے
دنیا میں وہی سب سے بڑا ہے محسنؔ
جو سب کے لئے خود کو سبو کرتا ہے
چاکِ دل انساں کا رَفو کرتا ہے

—————————————–
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل