افغانستان میں امریکہ نے اڈے قائم کرنے کے بعد وہ مقصد حاصل کرلیا ہے جس کے لئے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اپنے جدید ہتھ آزمائے اور لاکھوں بے گناہ افغانیوں کو مارا، افغان قوم کی تعمیرنو کا ارادہ ظاہر کیا مگر اب وہ اُس سے منحرف ہوگئے ہیں، 9 جدید اڈے قائم ہوچکے ہی جن کے ذریعے وہ پاکستان، ایران، چین، روس اور دیگر سینٹرل ایشیا کے ممالک پر نظر اور سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے، امریکہ کے گیارہ ہزار سے ذرا اوپر مسلح افواج ان اڈوں میں اپنے مطلوبہ کام کرنے کے لئے کافی ہیں، امریکہ نے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے اپنی افغان پالیسی کے تحت بھارت کا کردار متعین کردیا ہے، افغانستان میں مزید سرمایہ کاری کے لئے وہ بھارت کو مجبور کررہا ہے، بھارت کو بھی شوق ہے کہ وہ پاکستان پر دو طرف سے دباؤ ڈال کر اس کو دبوچ لے۔ اس کے وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے 12 دسمبر 2017ء کو افغانستان کے دورے کے موقع پر کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی ختم نہ کرائی تو دہشت گرد اسلام آباد پر بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ پاکستان سے جواب آیا کہ ہم اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں، اس کے بعد 15 دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سینیٹ میں ایک دستاویز جمع کرائی کہ اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کررہا ہے، اگر اس نے تعاون نہ کیا تو اس کے خلاف مناسب اقدامات اٹھا سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں، پاکستان اُن کو ختم کرے اور اُن کے ساتھ تعاون بند کرے جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ ہم نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی ہے اور کسی بھی دہشت گرد گروپ کے خفیہ ٹھکانے یا محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود نہیں ہیں، اس کے بعد امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا کہ امریکی صدر نے پاکستان کو نوٹس دے رکھا ہے، پاکستان کو امریکہ سے تعاون کرنے پر بہت کچھ مل سکتا ہے اور تعاون نہ کرنے پر بہت کچھ کھو سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک طرزعمل ہے، ٹرمپ نے فروری 2017ء میں ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ برق رفتاری کے ساتھ اپنی تربیت یافتہ اسپیشل فورسز کے ذریعے کسی بھی ملک میں سرجیکل اسٹرائیک کرسکتے ہیں اور اس طرح کرسکتے ہیں کہ میڈیا کو اس وقت پتہ چلے گا جب ہماری فورسز واپس لوٹ چکی ہوں گی، اس کے علاوہ پنٹاگون کی ایک رپورٹ لیک کی تھی کہ وہ بھارت اور افغانستان سے زمینی حملہ ہوسکتا ہے اور امریکی وہ اسپیشل فورسز جنہیں جوائنٹ اسپیشل آپریشنل کمانڈ (جےایس اوسی) کہا جاتا ہے اور جو پاکستان کے علاقوں میں حملہ کی پچھلے چار سالوں سے مشق کرتی رہی ہیں، وہ آ کر پاکستان کے ایٹمی اثاثہ اٹھا لے جائیں گی، اُن کے پاس ایٹمی لہروں کو پتہ چلانے والے آلات ہوں گے اور اس کے بعد پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو افغانستان میں موجود امریکی اڈوں سے میزائل مار کر تباہ کردیا جائے گا۔ بظاہر یہ دیوانے کی بڑ نظر آتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی اڈے زمین دوز اور ایٹمی حملہ سے محفوظ بنائے گئے ہیں اور خود پاکستان میں اُن کے سفارتخانے خصوصاً اسلام آباد کا سفارت خانہ اور کراچی کا قونصل خانہ اس صلاحیت کا حامل ہے کہ وہ ایٹمی حملہ کی صورت میں محفوظ رہیں۔ اگرچہ اس پر پاکستان نے امریکہ کو کڑا جواب دیا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کا حمایتی کہنے والے داعش کی حمایت کررہے ہیں۔ پاکستان نے اپنی تنقید میں کہا ہے کہ شام و عراق سے شکست کھا کر یا حالت ایمرجنسی میں امریکہ نے داعش کو وہاں سے نکالا اور افغانستان میں لا جمع کیا تاکہ وہ سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کر نا شروع کرے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور پاکستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے شدید تنقید کی کہ جو ملک ایسا کہے اُس کو خود اپنے گریبان میں جھانگنا چاہئے، پاکستان کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور نہ ہی کسی کی بالادستی قبول کرے گا۔ بظاہر امریکہ نے افغانستان میں فوجی اڈے بنا کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس نے وہاں پولینڈ جیسا دفاعی نظام بنالیا ہے کیونکہ اُس کی بالادستی کو چین، روس اور سی پیک سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اگرچہ سی پیک چین کے چھ ایسے منصوبوں میں سے ایک ہے تاہم اگر یہ بن جاتا ہے تو اُس کی بالادستی ختم ہوجائے گی، چین تجارتی طور پر آگے بڑھ جائے گا اور امریکہ جو چین کے گرد گھیرا ڈال رہا ہے جنوبی بحر چین میں اپنی بحری فوج جمع کی ہوئی ہے اور بحر جنوبی چین کے ممالک کو چین کے خلاف اکسا رہا ہے، حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورۂ مشرق بعید کے ممالک کے دورے کے موقع پر امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان سیٹو قسم کا اتحاد بنانے کی کوشش کی مگر چین تو اِس علاقے سے ہٹ کر پاکستان کے راستے دنیا کی منڈی میں پہنچنے میں لگا ہوا ہے، اس لئے وہ بھارت کے ساتھ مل کر چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے منصوبہ کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کو وہ ننھا ملک قرار دیتا ہے، اُس کی دھمکیوں سے پریشان ہے مگر روس نے شمالی کوریا کو امریکہ سے مذاکرات کے لئے راضی کرنے کی کوشش شروع کردی ہے جبکہ چین کی معیشت جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور اس نے امریکی نظام کے مقابلے میں ایک نیا نظام بنا لیا ہے، ایک برکس ممالک کی شکل میں جس میں برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کا متبادل ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ ورلڈ بینک کے مقابلے میں چین نے ایشیائی ترقیاتی بینک طرز کا بینک بنا لیا ہے، اس لئے امریکہ اس کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے، اس کے خیال میں 1945ء میں بنائے گئے نظام میں جس کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان بالادستی پر سرد جنگ ہوئی، 1989ء میں روس کی پسپائی کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا اور اب روس کو یوکرائن کے ذریعے دباؤ میں رکھے ہوئے ہے، اس کے علاوہ امریکہ کو یہ بھی ڈر ہے کہ اُس کی ڈالر کرنسی کے مقابلے میں دوسری کرنسیوں میں لین دین شروع ہوگیا ہے، جیسے ونیزویلا، ترکی، روس، چین، ایران اور دیگر ممالک اس کوشش میں ہیں کہ ڈالر سے جان چھوٹے، جاپان کی بھی اندرونی خواہش یہی ہے۔ اس طرح امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ چین کے بڑھتے قدم پاکستان کے اندر ہی روک لے جبکہ افغانستان میں وہ خود بیٹھا ہے اور بھارت دلی طور پر پاکستان کا بدخواہ ہے، اس کے سلامتی امور کے مشیر اجیب ڈول یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نہیں بننے دیں گے چاہے اس کے لئے انہیں داعش کو ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔ اسی وجہ سے وہ داعش کو افغانستان میں جمع کر چکے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے پے درپے پاکستان پر دباؤ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، پاکستان پر چوتھی اور پانچویں نسل کی جنگ مسلط کی ہوئی ہے، کوشش میں ہیں کہ عوام اور مسلح افواج میں تصادم ہو، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے عوام متحد ہوکر دشمن کی چال کو ناکام بنادیں گے۔ پانچویں نسل کی جنگ ڈرون حملے پاکستان میں ہورہے ہیں اور امریکہ اس کو مزید استعمال کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان پر امریکہ کا دباؤ، دھمکیاں اور عملی اقدامات کے خدشات بہت بڑھ گئے ہیں مگر ہمیں ثابت قدمی اور قومی یکجہتی سے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے، سوشل میڈیا کا استعمال بھی پاکستان کے حق میں کرنا چاہئے ورنہ پورا ملک نقصانات کی زد میں آجائے گا۔