جس کو سمجھے بیٹھے تھے ہم مکان شیشے کا
وہ مگر ہوا ثابت اک جہان شیشے کا
پتھروں کی بستی میں ڈھونڈنے میں نکلا ہوں
ہم نشین شیشے کے ہم زبان شیشے کا
کیا عجب کہ ہم جاگیں خواب سے تو پھر دیکھیں
یہ زمین پتھر کی آسمان شیشے کا
امن کے لبادے میں ظالموں کی بستی سے
گھر سے لے کے نکلا ہے وہ کمان شیشے کا
کارگاہِ ہستی کے اس نگار خانے میں
ہے یقیں بھی شیشے کا اور گمان شیشے کا
منعکس شعاعوں سے اک سراب کی مانند
دور سے لگا مجھ کو بادبان شیشے کا
عمر بھر کی کاوش کا ماحصل یہی ٹھہرا
دھوپ دوپہر کی ہے سائبان شیشے کا
————- یاور امان —————-
———————–
وہ جو ہر رنگ میں اک جلوۂ زیبائی ہے
میری اس شخص سے برسوں کی شناسائی ہے
وہ چلے دھوپ میں تو ابر بہاراں چھائے
سرو میں قامتِ زیبا کی پذیرائی ہے
اس کی آنکھوں کے تلاطم پہ سمندر قرباں
جن کا اعجاز بھی اعجازِ مسیحائی ہے
زہروِ عشق ذرا معرکۂ عشق میں تھم
محشر عشق میں یہ وقتِ جبیں سائی ہے
اک ترے ہونے نہ ہونے سے بڑا فرق پڑا
بن ترے میری ہر اک شب شب تنہائی ہے
میں بھی اظہار محبت کی نہیں ہوں قائل
کیا کروں عشق کی یہ حوصلہ افزائی ہے
لوگ رودادِ محبت کو کہاں سمجھے نورؔ
اب تو جو کچھ بھی ہے وہ حاشیہ آرائی ہے
————- نورِ شمع نورؔ —————-
———————–
اگر اس کو خود آرائی ملی ہے
مجھے بھی ناشکیبائی ملی ہے
مری فطرت میں شامل ہے تَلّون
طبیعت اس کو ہرجائی ملی ہے
کریں وہ تیری چوکھٹ کی تمنا
جنہیں خوئے جبیں سائی ملی ہے
تجھے میں بند آنکھوں دیکھتا ہوں
مجھے مخصوص بینائی ملی ہے
کہاں تک خیر توبہ کی مناؤں
سُرور انگیز پروائی ملی ہے
قلم، کاغذ، کتابیں، چائے، سگریٹ
بڑی دلچسپ تنہائی ملی ہے
خدا رکھے سدا کاوشؔ کہ اس کو
قیامت خیز برنائی ملی ہے
————- کاوشؔ عمر —————-
———————–
حریمِ جاں کی طرح دل ہے اک مکان بھی کیا؟
مکیں ہوا ہے کبھی کوئی مہربان بھی کیا؟
زمیں تو بانٹ لی آپس میں بادشاہوں نے
اب اس کے بعد وہ باٹیں گے آسمان بھی کیا؟
کہ دشمنی تو مری ذات سے تھی موجوں کو
بہا کے لے گیا دریا مرا مکان بھی کیا؟
پلٹ کے دیکھتا رہتا ہے جانبِ ساحل
کسی کے دل کی دعا ہے یہ بادبان بھی کیا؟
میں کیسے خواب جزیروں کو روشنی دیتا
فلک نما ہے چراغوں کا سائبان بھی کیا؟
وہ بن پڑھے ہی سیاست میں نام کر بیٹھا
کہ اک مذاق ہے دنیا میں امتحان بھی کیا؟
کہاں جلاؤں فریدیؔ چراغِ دردِ دل
مٹا گیا وہ مزارات کے نشان بھی کیا؟
————- اسلم فریدیؔ —————-
———————–