Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پنجرے

افسانہ
بابامقدم/ نیئر مسعود

پنجروں کا عجائب خانہ اس شہر کی قابل دید جگہوں میں سے تھا۔ وسیع میدان میں ایک پہاڑی پر بنی ہوئی اس کی مخروطی چھت والی عمارت دور ہی سے نظر آنے لگی ہے۔
موٹریں تماشائیوں کو ایک لہراتی ہوئی سڑک سے جس کے دونوں طرف شہتوت کے درخت لگے ہوئے تھے، عمارت کے سامنے والے میدان مین اتارتی تھیں۔ اگر کوئی پہاڑی پر پیدل جانا چاہتا تو اس کے لئے ایک تنگ راستہ تھا جس پر سو سے زیادہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، پیدل جانے والا دو تین بار بیچ بیچ میں بنے ہوئے چبوتروں پر بیٹھ کر سستانے کے بعد بھی آگے بڑھ سکتا تھا۔
اوپر سے نیچے تک پوری پہاڑی تھانوں میں ترتیب کے ساتھ لگائی ہوئی انگور کے بیلوں اور سماق کی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ایسے بنجر میدان میں جہاں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگتا تھا، اس ہری بھری پہاڑی کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا اور ہر شخص کا جی چاہتا تھا کہ ان سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور اس سبز پہاڑی پر سے میدان اور اطراف کے نشیب و فراز کا سماں دیکھے۔
باہر سے عجائب خانے کی شکل ایک چوڑے ستون کی سی تھی جس کی چھت بند نما تھی۔ اس دیوار بندی زمین سے اٹھ کر گنبد کے سرے پر ایک حلقہ تھا اور اس میں لگا ہوا ایک بڑا سا آنکڑا اوپر فضا میں اٹھتا چلا گیا تھا۔
عمارت کا فرش دور پر بنے ہوئے پایوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس طرح دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا پنجرہ آسمان سے لٹکا ہوا ہے۔
اگر کوئی پنجروں کے عجائب خانے کی سیر کرنا چاہے تو اسے عمارت کے سامنے میدان سے شروع ہونے والی کچھ اور سیڑھیاں چڑھ کر اس بڑے پنجرے کے دروازے تک جانا ہوگا، وہاں پنجرے ہی کی شکل کے ایک حجرے میں عجائب خانے کے تنہا محافظ سے معلوماتی کتابچہ لے کر وہ عمارت کے اندر داخل ہوگا۔
عمارت کے اندر تین منزلیں ہیں اور اس کے مرکز میں بنا ہوا ہے اور پیچ دار زینہ ان تینوں منزلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔
یہ عمارت پنجروں سے بھری پڑی ہے۔ چھوٹے اور بڑے پنجرے لکڑی کے پنجرے لوہے کے تار کے بنے ہوئے پنجرے سونے اور چاندی کے پنجرے اور یہ پنجرے طرح طرح کی شکلوں کے ہیں۔ اس میں سے بعض جو دور دست سرزمینوں کے نیم وحشی قبیلوں اور پہناور سمندروں کے جزیروں سے حاصل کئے گئے ہیں۔ ایسی ایسی وضعوں کے ہیں کہ تماشائی انہیں اچھی طرح دیکھنے کے لئے دیر دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے۔ ہر پنجرے کے پاس ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے کہاں بنایا گیا، کب خریدا گیا اور اس میں کس قسم کا جانور یا پرندہ رکھا جاتا تھا۔ ان پنجروں میں کوئی جانور نہیں ہے۔ سب خالی ہیں اور ان میں کھانے پینے کے برتن جوں کے توں رکھے ہوئے ہیں۔ سارے پنجروں میں جانوروں کے بیٹھنے اور سونے کے اڈے پڑیاں اور آشیانے بھی موجود ہیں۔
عجائب خانے کے اندر کی فضا بھی ایسی ہے کہ ذرا غور کرنے پر تماشائی خود کو اچانک ایک بڑے سے پنجرے میں بند محسوس کرتا ہے اور اس پر دہشت طاری ہوجاتی ہے۔
سب سے پہلا پنجرہ جس کا نمبر ایک ہے چھوٹا سا اور لکڑی کا بنا ہوا ہے اور اس میں پانی پینے کی کٹوری اور دانے کا برتن رکھا ہوا ہے۔ معلوماتی کتابچہ دیکھنے پر تماشائی کو اس کی صراحت ملتی ہے۔
میں نے پہلے قفس کو ایک لڑکے کے پاس دیکھا تھا جس نے اس میں ایک گوریا کا بچہ بند کر رکھا تھا۔ یہ ننھا پرندہ پنجرے کے اندر سکڑا ہوا اونگھ رہا تھا۔
میں نے یہ پنجرہ پرندے سمیت لڑکے سے خرید لیا۔ پرندے کا پوٹا سوج گیا تھا اور وہ بالکل نڈھال ہورہا تھا، میں نے اسے رہا کردیا وہ جھجکتا ہوا پنجرے سے باہر نکلا اور اپنے کمزور پروں سے بہ مشکل اڑ کر ایک دیوار پر بیٹھ گیا پھر وہاں سے بھی اڑا اور ایک درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ میں خالی پنجرہ اپنے ساتھ لے آیا اور کئی دن تک اپنے کمرے میں رکھ کر اسے دیکھتا رہا۔
میں دیکھتا تھا کہ بہت سے لوگ طرح طرح کی چیزیں جمع کرتے ہیں اور اپنے اس شغل میں انہیں بڑا انہماک رہتا ہے۔ لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں، ماچس کی ڈبیاں قفل پرانے پیالے اور قابیں ادھر ادھر سے تلاش کرکے اکٹھا کرتے ہیں۔ میں نے بھی ارادہ کرلیا کہ میں پنجرے جمع کروں گا، یہ خیال مجھے پسند آیا، مجھے اپنے ترکے میں بڑی جائیداد ملی تھی، میرے بیوی بچے بھی نہیں تھے، میرے ایسے تنہا آدمی کے لئے یہ بڑا اچھا مشغلہ تھا، لہٰذا میں اٹھ کھڑا ہوا، میں نے بازاروں اور محلوں میں گھومنا شروع کیا اور پنجرہ نمبر دو خریدا۔ اس پنجرے میں ایک طرفہ تھا۔ گوریا سے کچھ بڑا مٹیالے رنگ کا یہ پرندہ پنجرے کے فرش پر مستقل اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔
میرے اپنے شہر میں بہت سے لوگ کوک پالتے تھے۔ یہ پرندہ درخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ میدانوں اور کھیتوں میں رہتا ہے اس کی رنگ خاکی اور جسامت کبوتر سے کم ہوتی ہے، یہ جنگلی جھاڑیوں اور گیہوں کے کھیتوں میں انڈے دیتا اور بچے پالتا ہے۔ اس کا شکار کرنے والے جس کھیت میں اس کی آواز سنتے ہیں اس کے قریب ہی جال بچھا دیتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کی مدد سے ایسے آواز پیدا کرتے ہیں جو اس کے آواز سے ملتی جلتی ہے۔ بے چارہ پرندہ آواز کی طرف بڑھتا ہے اور ناگہاں جال میں پھنس جاتا ہے، تب اس کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔ یہ اسیر پرندہ دن رات پنجرے کے درودیوار پر ٹکریں مارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے سر اور پروں سے خون بہنے لگتا ہے۔ لوگ اس کو تلف ہونے سے بچانے کے لئے پنجرے کی دیواریں سوت کی جالی سے بناتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں سویرے تڑکے جب دھندلکا چھایا ہوتا ہے اور صبح کی نرم ہوا چل رہی ہوتی ہے کوک بولتا ہے اس کی آواز میں تنمایاس اور التجا ہوتی ہے، میں نے کوک کا سا آزادی کا جویا کوئی پرندہ نہیں دیکھا۔ یہ کبھی پنجرے سے مانوس نہیں ہوتا ہمیشہ باہر کی سمت دیکھتا رہتا ہے اور ہمیشہ پنجرے کی جالیوں سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔
میں نے فیصلہ کرلیا کہ سب کوکوں کو آزاد کرکے رہوں گا۔ اپنی املاک سے میری یافت بہت تھی اور اس کی بدولت اپنے فیصلے پر عمل کرنا میرے لئے بہت آسان ہوگیا، اتنا کہ کچھ عرصے کے اندر اس شہر میں ایک بھی ایسا پنجرہ نظر نہیں آتا تھا جس میں کوئی پرندہ قید ہو۔ اب کسی کو پنجرے کے اندر سے بلبل کی آواز قنادی اور طرقے کی چہچہاہٹ، طوطے کی بولی سنائی نہیں دیتی تھی۔ اب صبح کی ٹھنڈی ہوا میں گھروں کے اندر سے آتی ہوئی کوک کی فریاد کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ ہم دیکھتے تھے کہ قمریاں چھتوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور طوطے شہر کے باغوں میں اونچے درختوں پر سے ایک دوسرے کو آوازیں دے رہے ہیں۔
جب میں اپنے گھر میں خالی پنجروں کو دیکھنا شروع کرتا تو مجھ پر ایک کیف و نشاط کا عالم طاری ہوجاتا لیکن میں جانتا تھا کہ دنیا میں اکیلا میرا ہی شہر نہیں ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اور میری عمر ختم نہیں ہوتی، میرا کام ابھی باقی ہے مجھے دور افتادہ قریوں اور شہروں زخسار سمندروں سے دور دست جزیروں تپتی ہوئی زمینوں سر بہ فلک برف آلود پہاڑوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پنجرے لانا ہیں۔ ذخیرے کو مکمل ہونا چاہئے اور اس میں ہر نمونہ موجود ہونا چاہئے۔ میرا ذخیرہ تو محض مقامی ہے اور اس کی میری نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
تو میں نے سفر کا سامان کیا اور دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لئے روانہ ہوا جس طرح شہر بہ شہر لوگوں کی زبان لہجے شکل و صورت رسم و رواج میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے اسی طرح الگ الگ شہروں میں پنجرے کی شناخت اور پرندوں کی قسموں میں بھی فرق آجاتا ہے جس چیز میں فرق نہیں آتا وہ انسان کا یہ شوق ہے کہ پنجرے بنائے اور حیوان سے اس کر پُر کرے۔ ہر جگہ طرح طرح کی شکلوں والے پنجروں کی کثرت تھی اور ان سب پنجروں سے رنگ رنگ کے پرندے بھانت بھانت کے جانور نظر آتے تھے کہ یا تو ایک کونے میں سمٹے ہوئے پڑے ہیں یا چیختے رہتے ہیں اور ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔
جس دن میں نے اسے دیکھا وہ چہچہا رہا تھا اور سیٹیاں بجا رہا تھا، وہ اپنے ہم جنسوں کو بلا رہا تھا، بیابانوں کا خواہاں تھا، کھلی فضا کا طالب تھا جس میں پر کھول کر اڑ سکے۔ آزادی کے لئے اس کی یہ کوشش اور فریاد کا اندازہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا، جیسے بھی بن سکا میں نے اس کے مالک کو جو ایک دکاندار تھا راضی کرکے اسے خرید لیا اور گھر لے آیا۔ یہ پرندہ میرے گھر میں سیٹیاں بجاتا اور زور زور سے چہچہاتا رہا، پنجرے کے اندر ایک آئینہ لگا ہوا تھا، پرندہ کبھی کبھی اس کے سامنے آ کر ٹھہر جاتا اور یہ سمجھ کر سامنے ایک اور طرقہ ہے اپنے حلقوم کو پھلا کر چہچہانے لگتا۔ اسی دن سہ پہر کے وقت میں اس کا پنجرہ اٹھا اور شہر کے باہر آگیا، ترکاریوں کے ایک کھیت میں جا کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور پرندے کو آزاد کردیا۔ ایک شخص جو وہیں پر موجود تھا کہتا رہا کہ اس پرندے کو شکرا جھپٹ کر لے جائے گا مگر اس کی باتوں پر کان دھرے بغیر دیکھ رہا تھا کہ پرندہ اڑا اور اڑتے اڑتے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
گھر لوٹ کر میں بہت خوش تھا کہ اب میرے پاس ایک اور پنجرہ ہوگیا، میں نے اسے جھاڑ پونچھ کر ایک کھونٹی سے لٹکا دیا، یہ مضبوط پنجرہ تھا جس کے کڑے تابنے کے تھے، غلاف سرخ کپڑے کا، پانی کی کٹوری پھول دار چینی کے دانے کی پیالی پر منبت کاری تھی اور پنجرے میں ایک چھوٹا سا آئینہ بھی تھا۔
پھر دو تین دن ایسے گزرے کہ میرے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا میں اس کو دور نہ کرسکا میں نے خود سے کہا۔
اے مرد! ہر شخص کسی نہ کسی راستے پر لگا ہوا ہے۔ یہ تیرا راستہ ہے پرندوں کو ان پنجروں سمیت خریدنا، پرندوں کو آزاد کرنا اور پنجروں کو جمع کرنا۔
کبھی کبھی میں یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک دن میں پنجروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہوجاؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے جب دنیا میں کوئی پنجرہ باقی نہ رہ جائے یا کم از کم وہ سرزمین جہاں میں رہتا ہوں پنجروں سے خالی ہوجائے۔
اسی فکر اور آرزو میں آخر میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے دو لڑکوں کو ملازم رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ بہت سے لوگ اپنے پنجرے بیچنے پر تیار نہ ہوتے، کہتے کہ یہ تو ہمارا مشغلہ ہے اور ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ میں نرمی کے ساتھ ان سے بحث کرتا اور آخر مجھ ہی کو کامیابی ہوتی کیونکہ ان سب کو پیسہ ہر چیز سے عزیز تھا۔
اس دن میں نے گیارہ پنجرے خریدے۔ ان پنجروں میں چار سہرے، دو گوریاں، ایک طرفہ، ایک توتا، دو قناریاں اور ایک بلبل تھی۔ دونوں ملازم لڑکوں کی مدد سے میں ان پنجرون کو شہر کے باہر ایک باغ میں لے گیا اور ان سب لوگوں کے سامنے جو ہمارے ساتھ ہو لئے تھے میں نے پرندوں کو چھوڑ دیا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ قناریاں بھوکی مر جائیں گی، گوریوں کو شکرا کھا جائے گا، توتا اس علاقے میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن میں ان کی باتوں پر دھیاں دیئے بغیر ان پرندوں کو آزاد کر کے خالی پنجرے گھر لے آیا۔
غیرملکوں اور اجنبی سرزمین کی سیاحت میں مجھے برسوں لگ گئے۔ بیس سال سے زیادہ عرصے تک میں ملکوں ملکوں شہروں شہروں سرگرداں رہا۔ پنجرے دیکھے ان میں مبحوس جانور اور پرندے دیکھے پنجرے خرید لئے جانوروں کو چھوڑ دیا۔ پرندوں کو اڑا دیا خالی پنجرے جتنے ساتھ لا سکا ساتھ لایا باقی کو توڑ ڈالا پانی میں ڈبو دیا آگ میں جلا دیا۔
آخر برسوں بعد جب میرے بال سفید ہوچکے تھے، امنگ جوانی زندگی کا ولولہ سب ختم ہوچکا تھا، ایک دن ہزار پنجروں کے ساتھ لدا پھندا میں اپنے شہر پہنچا، میں بہت خوش تھا کہ دنیا میں پنجروں کا سب سے بڑا ذخیرہ میرے پاس ہے۔
لیکن واپس آنے کے پہلے ہی دن مجھے ہر دکان پر اور ہر مکان میں پنجرے نظر آئے، ان پنجروں میں رنگارنگ پرندے گردن ڈالے اڈوں پر بیٹھے تھے، پرندے پنجروں کے درودیوار سے ٹکرا رہے تھے، کوک کی التجائیں، توتے کی چیخیں، قناری کی فریادیں، پہلے سے زیادہ تیز تھیں۔ پنجرے اور ان میں اسیر حیوان لوگوں کی دولت و ثروت کا نشان تھے۔ بہت سے ایسے تھے کہ انہی کے ذریعے روزی کماتے تھے، بہت سے ایسے تھے کہ خوب صورت پنجروں، نایاب پرندوں، گھنے پروں والی مضبوط قناریوں خوش آواز کوکوں اور پڑھائے ہوئے توتوں کے مالک ہونے پر فخر کرتے تھے۔
پھر اب میں کیا کرتا؟ نئے سرے سے سب کو خریدنا اور آزاد کرنا شروع کرتا؟ وقت گزر چکا تھا میری زندگی کے کتنے ہی برس اسی دھن میں نکل گئے اور اس تمام کوشش اور دوا دوش کے بعد میں دیکھ رہا تھا کہ پنجروں کی تعداد پہلے سے بھی بڑھی ہوئی ہے اور پرندوں کی فریاد پہلے سے بھی زیادہ دل خراش ہے، سکھائے ہوئے سہرے ایک شاہ دانے کی خاطر مجبور ہیں کہ چونچ سے لفافے کھولیں اور ان میں سے لوگوں کی تقدیر کے نوشتے باہر نکالیں۔ میں نے دیکھا کہ کوکوں کے سر لہولہان ہیں، مینائیں پنجروں کی دیواروں پر ٹکریں مار رہی ہیں، قناریوں کے پَر جھڑ رہے ہیں اور بلبلیں پنجرے کے گوشوں میں سر جھکائے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ طرقے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے جوڑے کی آرزو میں چیخ رہے ہیں اور اونگھتی ہوئی گوریاں ہر روز پنجرے کے در پر بھکاریوں کی طرح اپنے راتب کی منتظر ہیں۔
تماشائی! تو جو اس شہر سے یا کسی اور سے یہاں سیر کرنے آیا ہے۔ اس بڑے پنجروں میں ہزاروں پنجرے دیکھتا ہے اور اچانک سوچنے لگتا ہے کہ تو خود اس پنجرے کا قیدی ہے۔ تو ان خالی پنجروں کو دیکھتا ہے اور ان حیوانوں کا تصور کرتا ہے، جو ان میں رہ کر سختیاں اٹھا چکے ہیں، تو دروازے کی طرف جاتا ہے، تیرے دل میں ایک خوف ہے اگر دروازہ بند ہوا، اگر کٹہرے کی سلاخیں تنگ اور مضبوط ہوئیں تو، تو یہیں پھنس کر رہ جائے گا۔ چیخے گا مدد کے لئے پکارے گا مگر کوئی سننے والا نہیں، کوئی مدد کو پہنچنے والا نہیں، تو تنہا اور مجبور سلاخوں کے پیچھے سے پنجرے کے اندر سے باہر کا عالم دیکھ رہا ہے۔ آسمان پر بادل دوڑ رہے ہیں۔ دریاؤں اور ندیوں میں پانی جاری ہے۔ ہوائیں اور آندھیاں پہاڑیوں پر اور دشت میں چل رہی ہیں، گونج رہی ہیں چڑیاں آزادی کے ساتھ اڑ رہی ہیں۔ لوگ آ جارہے ہیں اور تو نامعلوم مدت کے لئے اس پنجرے میں اسیر ہے۔ تیرے چہرے پر پسینہ آ جاتا ہے، تیرے پیروں کی طاقت سلب ہوجاتی ہے اور تیرا دل بیٹھنے لگتا ہے، تو چاہتا ہے کہ سلاخوں کو گرفت میں لے کر آخری کوشش کر ڈالے۔
ایک شہر میں مجھے لومڑی کا ایک لاغر اور کمزور بچہ پنجرے میں نظر آیا اس کے بال جھڑ رہے تھے اور اس کی سوجی ہوئی سرخ کھال نیچے سے جھلک رہی تھی، اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا میں نے اسے پنجرے سمیت خرید لیا، اس کا فروخت کر لینا اس کے مالک کے لئے ایسی امید کے خلاف بات تھی، کہ وہ حیران تھا اور خوش تھا، میں نے پنجرہ صحرا میں لے جا کر لومڑی کے بچے کو ٹیلوں کے درمیان چھوڑ دیا، اس کا پنجرہ بہت بھاری غلیظ اور متعفن تھا۔ اس کا ساتھ لانا دشوار اور بے کار تھا اس لئے میں نے اسے وہیں توڑ کر جلا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ سارے پنجروں کو ساتھ لانا مجھ سے ممکن بھی نہ تھا لہٰذا میں ہر جگہ کے صرف دو ایک خاص پنجرے چھانٹ کر رکھ لیتا اور بقیہ ضائع کر دیتا، میں ایک مشہور آدمی ہو چکا تھا، وہ آدمی جو پرندوں کو آزاد کرتا ہے، پنجروں کو توڑ ڈالتا ہے یا ساتھ لے جاتا ہے۔ میری خوشی کا یہی واحد ذریعہ تھا کہ جہاں سے میں گزرتا تھا میرے پیچھے کوئی پنجرہ اور اس میں فریاد کرتا ہوا کوئی ناجور کوئی پرندہ نہیں رہتا تھا۔
تماشائی! تو اس عجائب خانے میں پنجرے دیکھ رہا ہے ان کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے۔ میں نے انہیں دور دور کے شہر و دیار سے لا کر جمع کیا ہے۔ اپنے امکان بھر میں ہر جگہ پہنچا اور زیادہ سے زیادہ پنجرے حاصل کرنے کی دھن میں ہر سرزمین کی سیر کی۔ تو اس عجائب گھر میں ایک پنجرے کے پاس پہنچے گا جو بہت شاندار اور خوش نما ہے۔ بہترین لکڑی سے بنایا گیا ہے۔ ایک چابک دست استاد کی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کو سیپ کے ٹکڑوں چاندی کی کیلوں اور سونے کے چھلوں سے منقش کیا گیا ہے، اس کے حلقوں اور خانوں پر کندہ کاری کی گئی ہے۔ اسے پھول پتیوں اور دل کش وضعوں سے آراستہ کیا گیا ہے، اک دن تھا اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی میں نے اسے یہاں سے بہت دور ایک جگہ دیکھا تھا، حسین مینا تھی سیاہ رنگ چونچ اور پنجے زرد اور سڈول وہ لگاتار پنجرے میں ادھر سے ادہر پھر رہی تھی، میں اسے بڑی منت سماجت کے بعد خرید پایا۔ اس کا مالک اتنے خوب صورت پرندے کو ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا تھا مگر آخر راضی ہوگیا۔ میں نے اس کے سامنے ہی پنجرے کا در کھول دیا۔ مینا پھڑ پھڑا کر نکلی اور پاس کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ اس کے دوسرے دن وہیں مجھے ایک اور مینا نظر آئی۔ اتنی ہی بڑی اور اسی وضع قطع کی، میں نے اسے بھی خریدا اور آزاد کردیا۔ تین دن میں تین دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ چوتھے دن مجھے شک ہوا کہ شاید میں اسی ایک پرندے کو چوتھی دفعہ خرید رہا ہوں اس لئے اب کی بار میں نے پنجرے اور مینا کو ساتھ لیا اور اس شہر سے روانہ ہوگیا۔
راستے میں ایک جنگل کے پاس رک کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا، مینا آہستہ سے پنجرے کے اڈے پر سے اتری۔ کچھ دیر تک دروازے پر رکی رہی اس کی نظر درختوں پر جمی ہوئی تھی، شاخوں پر چڑیا چہچہا رہی تھی۔ ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد اچانک مینا نے پر کھول دیئے اور جنگل میں غائب ہوگئی لیکن سلاخیں مضبوط ہیں اور تیرے بازو شل۔
تماشائی! ہراساں نہ ہو اس پنجرے کا دروازہ ہرگز بند ہوگا۔ تو جب چاہے بڑی آسانی کے ساتھ ان سلاخوں کے باہر جاسکتا ہے۔
تو اے تماشائی! بلاخطر پہلی اور دوسری منزل سے گزر کر اس پنجرے کی تیسری منزل پر چلا جا۔ یہاں بھی تجھے جگہ جگہ پنجرے نظر آئیں گے۔ لیکن اصلی پنجرہ چھت کے کڑے سے فانوس کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ یہ پنجرہ فن کا شاہکار ہے اور بہترین کاریگروں نے کئی سال تک مسلسل اس پر محنت کی ہے۔ اس کے نقش و نگار دیکھ اس کے بیل بوٹوں کے پیچ و خم دیکھ کر کس کمال کے ساتھ لوہے میں پیوست کئے گئے ہیں۔ سونے کے بنے ہوئے ان پرندوں کو دیکھ کر جو پنجرے کے باہر کی چھت اور سلاخوں پر بیٹھے ہیں۔
پھر پنجرے کے اندر دیکھ! تعجب نہ کرنا جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے ایک انسان کا پنجرہ ہے میرے لئے ممکن نہ تھا کہ خود کو کسی پنجرے میں قید کروں اور خود ہی اپنا تماشائی بنوں۔ اس لئے میں گیا اور سچ مچ کا انسانی پنجرہ لے آیا میں نہیں جانتا یہ کس کا پنجرہ ہے۔
میں نے وصیت کردی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے جسم کو جلا دیا جائے اور میری راکھ کسی برتن میں بھر کر اسی پنجرے میں رکھ دی جائے، اگر میری وصیت پر عمل کیا گیا تو تو اسے دیکھے گا۔
اور تماشائی جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتا ہے تو اس کو بڑا اور شاندار نقش و نگار سے آراستہ پنجرہ اونچی چھت سے لٹکا ہوا نظر آتا ہے، یہ پنجرہ کھڑکیوں سے آنے والی ہوا میں ہلتا رہتا ہے اور جو انسانی پنجرہ اس میں بند ہے اس کے ہاتھ پیر اور کمر میں رسیاں لگا کر اسے سلاخوں میں اس طرح باندھا گیا ہے کہ وہ پنجرے میں ادھر ادھر چکر لگاتا رہتا ہے اور تماشائی جب غور سے دیکھتا ہے تو اسے شیشے کا ایک مرتبان بھی نظر آتا ہے، جس میں کچھ راکھ اور جلی ہوئی ہڈیوں کے ٹکڑے بھرے ہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل