Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ماں کا دل

روحی طاہر

صدیوں سے ماں کا دل ایک ایسے آئینہ کی مانند تصور کیا جاتا ہے جہاں ہر بشر اپنی مرضی کی تصویر دیکھ لیتا ہے۔ میں آج ایک پوسٹ پڑھ رہی تھی جس میں پچھلی صدی کی ماں کا خاکہ بیان کیا گیا تھا۔ گھرداری ہر دور میں ماں کا وصف رہا ہے۔ اس سے انکار نہیں پرانی مائیں جان توڑ کر کام کیا کرتی تھیں۔ آتی سردیاں لحاف بنانے، گندم پھٹکے، چاول سنبھالے، گرمیوں سردیوں کے کپڑوں کو دھوپ لگوانے جیسے ہزاروں کام تھے جو اس زمانے میں گھردار عورت کے ذمہ تھے۔ اس زمانے میں عورت کے بغیر گھر کا تصور ناممکن تھا۔ گھرداری عورت کے بغیر چلتی ہی نہیں تھی۔ جس کسی کی بیوی مر جاتی تھی وہ مجبوراً دوسری شادی کرتا تھا کیونکہ ہر گھر کا کام تو عورت کے ذمہ ہوتا تھا۔ بچوں کے لئے ماں اور دیوی ایک ہی شکل کے دو نام تھے۔ اس زمانے میں مشقت کے کام دیکھ کر بچے ماں کے وجود سے لامحالہ متاثر ہوتے تھے کیونکہ کھانا ماں سے، پہننا ماں سے، سونا ماں کے ساتھ اور اخلاقی ذہنی تربیت بھی ماں کے ہاتھوں سے، گاؤں کے بچے تو پھر کھیتوں میں آدمیوں کے ساتھ کام کرتے تھے مگر شہروں میں خاص کر امراء کے بچوں کو کافی حد تک زنان خانوں میں ہی رکھا جاتا تھا اور وہ زنان خانے کی عورتوں، دادی نانی اور والدہ کے زیراثر رہتے تھے اور اکثر یہ خواتین ان کے مزاج میں دخیل تھیں جن کی وجہ سے اس دور کی سیاست پر بھی خواتین کا اثر پڑا اور مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں تو سیاست کی لڑائی محلوں میں لڑی جاتی رہی ہے۔ آدمی کی ترتیب اور تعلیم میں عورت کا ہاتھ نہ ہو تو مرد کی شخصیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ بچیوں کی تربیت تو عورت کرتی ہی ہے مگر مرد میں انسانیت، محبت، خلوص اور نرم محبت، گرمی جذبات، سب اچھی خصوصیات میں عورت یا ماں کا ہاتھ ہوتا ہے اور ماں کو یہ سکھاتا کوئی نہیں کیونکہ جس طرح چڑیا بچے کو اڑنا سکھاتی ہے اس میں فطرت نے یہ چیز ڈالی ہوتی ہے۔ میں نے بہت سی کتابوں میں، نظموں میں شاعر یا ادیب کی سادہ سی ماں کے بارے میں پڑھا۔ سادہ سی عورت ہاتھ سے آٹا پیستی ہوئی، توا پر روٹی پکاتی ہوئی، لکڑیوں سے آگ جلاتی ہوئی اور اپنی پرانی سلائی مشین سے اپنے سیدھے سادھے بچوں کے کپڑے سیتی ہوئی، تو آج کی ماں کیا کرتی ہوگی۔ آٹا تھیلے کا، آگ سوئی گیس اور کپڑے ریڈی میڈ تو آج کی ماں کو تو کوئی کام ہی نہیں۔ سارا دن بس فیس بک اور ٹی وی ریموٹ، آج کل کی ماں کے تو مزے ہیں۔ مگر ایسی بات نہیں آج کی ماں پر دہری ذمہ داری عائد ہے۔ آج کے بچے کی تربیت آسان کام نہیں آج دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ دنیا سمٹ کر آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ آج کی ماں نے بچے کو ان چیلنجوں کا مقابلہ کروانا ہے جو پوری دنیا کو درپیش ہیں۔ پرانی ماں کی حد گاؤں کا اسکول یا پھر شہر کا ایف اے، بی اے تک کا کالج ہوتا تھا۔ ایک ہی یونیفارم پہنا دیا اور پراٹھہ پکا دیا، اللہ اللہ خیر سلا۔ آج کی ماں کو کیلوریز نیوٹریش ویلیو دیکھنے کے علاوہ بچے کو آج کے ناخالص دور میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بچہ جو کھا رہا ہے وہ صحتمند بھی ہے کہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا بچہ سبزی پہ پلتا، پھر چکن پہ آیا، اب شور ہے کہ چکن کھانا صحت مند نہیں تو بچہ کیا کھائے۔ بچوں کو عادت ہے کہ وہ صرف چکن کھاتے ہیں۔ اب ان کو گوشت پر لانا اور گوشت سے سبزی پر لانا ماں کے لئے نیا عذاب ہے۔ بچے کی کھانے کی عادت بدلنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ کھانے کی جو عادت بچوں کو بچپن میں پڑتی ہے وہ مشکل سے ختم ہوتی ہے۔ پھر ایک نیا مسئلہ فاسٹ فوڈ کا ہے۔ ہمارے بچے جو صحت مند کھانے کھاتے روٹی ملائی پراٹھے سب ختم کر کے ان کو فاسٹ فوڈ کی طرف لگا دیا گیا۔ اس وقت تو کسی نے ان بُرائیوں کے بارے میں نہیں بتایا کہ بچے خطرناک کھانا کھا کر بے ہنگم ہوگئے، اب خبر آئی کہ یہ کھانے بچوں میں موٹاپا اور ذہنی پسماندگی پیدا کرتے ہیں۔ اب پھر ماں کی مجبوری، مشکل سے ساس سے لڑ لڑ کر ان کھانوں کی عادت ڈالی تھی۔ اب چھڑوانی پڑ گئی اور گھر کے کھانے ماں کو پکانے پھر سیکھنے پڑ گئے اور آج کی ماں کا یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ بچے کی صحت کے حوالے سے۔ اگر اس دور کی ماں کو کم خوراکی کا مسئلہ تھا تو آج کی ماں کو غیرصحت مند کھانے کا مسئلہ ہے۔ پتہ نہیں بچے جو خوراک کھا رہے ہیں یا ملاوٹ ہے اور بچے کی صحت آج کی ماں کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے اور سب سے بڑا چیلنج کیونکہ آج کل بچوں میں وہ سادہ بیماریاں نہیں بلکہ اسکول جانے والے بچے شوگر اور دل جیسے امراض میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ پھر موٹاپا اور جوڑوں کے درد کی بیماریاں اپر کلاس کے بچوں میں عام ہیں۔
دوسرا بڑا چیلنج بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ہے۔ پرانی ماں کا آسمان اس کا گاؤں یا شہر تھا مگر آج کل کی ماں پوری دنیا اپنی مٹھی میں لئے پھرتی ہے۔ آج کل کی ماں اپنے بچے کا مقابلہ یورپ، امریکہ اور چین کے بچوں سے کرتی ہے۔ بچے سے زیادہ اس کی ماں اپ ڈیٹ رہتی ہے۔ پرانی ماں تو اُردو انگریزی کے قاعدے بستے میں رکھ کے خوش ہوتی تھی، آج کی ماں تو خود میتھ، کمپیوٹر اور معلومات عامہ میں ایکسپرٹ ہوتی ہے کیونکہ پڑھتے ہوئے بچوں کے سوالوں کے جواب کون دے! اس کے علاوہ آج کی ماں صرف سیپارہ پڑھا کر دین کی تعلیمات سے فارغ نہیں ہوتی اسے حضرت آدمؑ پر بھی ریسرچ کرنی ہوتی ہے اور حضرت نوحؑ کی کشتی کے بارے میں بھی پڑھنا ہوتا ہے کیونکہ آج کا بچہ جن اور پری کی کہانی سے نہیں بہلتا۔ اس کو جن کی کہانی سنانے کے لئے اصلی جن تخلیق کرنا پڑتا ہے اور سب سے مشکل اسکول چھوڑنے اور لانے کی ذمہ داری۔ اس دور میں گلی کے مدرسے اور محلہ اسکول کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ آج کل کی مائیں تانگہ والے اور وین والے پر بچہ کو نہیں چھوڑ سکتیں خود بچوں کو لانا اور لے جانا، اور اگر ماں نوکری کر رہی ہے تو یہ ایک الگ مسئلہ۔ اگر باس سے چھٹی لو تو آپ کے کان میں ایک لفظ پڑ جائے گا کہ بی بی آپ نوکری چھوڑ دیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ نوکری چھوڑنے سے بچے کی تعلیم خودبخود چھٹ جائے گی کیونکہ آج کل ہوشربا مہنگائی کے دور میں ایک انسان کے بس کی بات ہی نہیں بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکے۔
تو یہ بات تو طے ہے کہ پہلی ماؤں کی محبت اگر جذبات سے لبریز تھی تو آج کی ماں کی محبت بہت سے عملی پہلو لئے ہوئے ہوتی ہے۔ ماں آج بھی محبت کرے گی کل بھی کرتی تھی اور آنے والے دنوں میں بھی۔ جب ہم بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل پر قابو پا لیں گے شاید آئندہ کسی اور شکل میں ظاہر ہوں کیونکہ کائنات کا خوبصورت اور سچا رشتہ ماں اور بچے کا ہی ہے۔ ان ماؤں کو بھی سلام جو بچوں کو مٹی کے چولہے کے گرد بٹھا کر کھلاتی تھیں اور آج کی ماں کو بھی سلام جو بچے کو جو بھی کھلاتی ہیں اس کی غذائیت سے آگاہ ہوتی ہیں اور ان آنے والی ماں کو بھی سلام جو آنے والے وقتوں میں بچوں کو جانے کیا کھلائیں گی کہ بچوں کو اس دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ بس ایک بات سوچنے اور فکر کرنے کی ہے کہ کیا بچے آج کل کی ماؤں کی وہ عزت کرتے ہیں جو پچھلے دور کی ماؤں کی تھی اور آنے والے دور کے بچے ماں سے ویسی محبت کریں گے جو ماؤں کا حق ہے اور ماں مانگتی کیا ہے صرف ایک محبت۔ آج ہم اپنی ماؤں کو اہمیت دیں گے، ان کو وقت دیں گے، ان سے پیار کریں گے تو کل یہ سب بھی ہمیں ملے گا۔ ماں کے پیار کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ یہ بہت زیادہ اور لامحدود اور اپنے سب بچوں کے لئے ہونا ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل