Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بیادِ مشیر کاظمی (معروف فلمی گیت نگار)

شیخ لیاقت علی

اِک ٹیس جگر میں اُٹھتی ہے، اک درد سا دل میں ہوتا ہے ہم راتوں کو اُٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے

تین مارچ 1952ء کو نمائش پذیر ہونے والی قومی زبان کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ ریلیز کے اعتبار سے پاکستان کی 25 ویں اُردو فلم ہونے کا درجہ رکھتی ہے اور پہلی اُردو فلم کہ جس کے تمام تر گیت ملکہ ترنم نورجہاں کی دلکش اور مترنم آواز میں موسیقار فیروز نغامی نے گوائے۔ ’’دوپٹہ‘‘ سے قبل یہ جوڑی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ (ریلیز 29 مارچ 1951ء) میں بھی یکجا ہوئی اور اس فلم کے بھی تمام گیت نورجہاں ہی نے گائے تھے۔ 66 برس گزر جانے کے باوجود بھی ’’دوپٹہ‘‘ اور ’’چن وے‘‘ کے تمام گیت زبان زد خاص و عام ہیں۔ ’’چن وے‘‘ کے گیت نگار ایف ڈی شرف اور ’’دوپٹہ‘‘ کے 9 میں سے 6 گیتوں کے خالق مشیر کاظمی تھے۔ ’’دوپٹہ‘‘ بطور گیت نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم ہے اور اس فلم کی کامیابی سے وہ فلمی منظرنامے میں اُبھر کے سامنے آئے۔ ’’دوپٹہ‘‘ کے فلمساز و ہدایت کار سبطین فضلی، مصنف حکیم احمد شجاع، عکاس جعفر غازی اور کاسٹ میں نورجہاں، اجے کمار، سدھیر، ببو بیگم، غلام محمد، نفیس بیگم، آزاد، زرینہ ریشماں وغیرہ شامل تھے۔ دوپٹہ کے گیتوں نے برصغیر پاک و ہند میں دھوم سی مچا دی تھی۔ یہ فلم بھارت میں بھی نمائش پذیر ہوئی اور اس فلم کی مقبولیت اور بالخصوص موسیقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کلکتہ جیسے بڑے شہر میں ایک ساتھ 9 سینما گھروں میں ریلیز کیا گیا۔ فلمی مورخین کے بقول مشیر کاظمی نے نہ جانے کتنی مشکلات سہنے کے بعد دوپٹہ میں گیت نگار بننے کا چانس حاصل کیا۔ ایک رات وہ فاقہ مستی کے عالم میں بھوکے پیاسے لاہور کے مشہور زمانہ لکشمی چوک کے چوراہے میں گھاس پر لیٹے تھے کہ انہوں نے یہ شعر کہا کہ ؂
سب جگ سوئے ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں
چاندنی راتیں ہائے چاندنی راتیں
اگلے روز انہوں نے یہ شعر موسیقار فیروز نظامی کو سنایا تو انہوں نے اس کی دلکش دھن بنا کر سبطین فضلی کو سنائی اور یہ گیت فلم ’’دوپٹہ‘‘ کا سپر ہٹ گیت ثابت ہوا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ’’دوپٹہ‘‘ کے گیت آج بھی اُسی طرح دلوں کے تاروں کو چھیڑتے ہیں جیسا کہ اُس کی نمائش کے وقت چھیڑتے تھے۔ مشیر کاظمی نے ’’دوپٹہ‘‘ کے لئے یہ گیت رقم کئے:
اک ٹیس جگر میں اٹھتی ہے، اک درد سا دل میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارات عالم سوتا ہے
چاندنی راتیں او ہو او ہو چاندنی راتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروں سے کریں باتیں چاندنی راتیں
بات ہی بات میں، پہلی ملاقات میں چاندنی رات میں جیا مرا کھو گیا ہائے کسی کا ہوگیا پہلی ملاقات میں
میں بن پتنگ اُڑ جاؤں رے ہوا کے سنگ لہراؤں رے لہراؤں رے
میرے من کے راجا آ جا صورتیا دکھا جا تکوں نجریا تمہاری رے راجا ہو ہو
چھم چھما چھم ناچے جیا چھائی گھٹا آجا پیارے آجا، گائے ہوا
سانوریا تو ہے کوئی پکارے آجا سوئے چاند ستارے آجا رے آجا رے
مشیر کاظمی نے ’’دوپٹہ‘‘ کے بعد بھیگی پلکیں، برکھا، تڑپ، دیوار، جھیل کنارے، جلن، خزاں کے بعد، پون، وحشی، انجام، سیستان، آخری نشان، دربار، عالم آرا، مظلوم، ایک تھی ماں، بھابھی، کالا پانی، بمبئی والا (1961ء کی اس فلم کے مشیر کاظمی ہدایت کار بھی تھے)، منگول، بیٹا، میرا کیا قصور، مہتاب، بارات، خون کی پیاس، باغی خاندان، داماد، سمیرا، غزالہ، ماں کے آنسو، میں نے کیا جرم کیا، مسکراہٹ، نیلم، اندھی محبت، ایک دل دو دیوانے، باغی سپاہی، جمیلہ، خیبر پاس، دیوانہ، شکریہ، شطرنج، عورت کا پیار، مامتا، بہو بیگم، چھوٹی امی، رقاصہ، زمین، فریب، یہ جہاں والے، ناچے ناگن باجے بین، بھائی جان، عادل، گھر کا اُجالا، مادرِ وطن (اس فلم میں مشیر کاظمی کا یہ شہرۂ آفاق عسکری نغمہ شامل کیا گیا جسے نسیم بیگم نے نہایت ہی دلسوزی کے ساتھ گا کے امر کردیا۔ ’’اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں‘‘)، ٹیپو سلطان، وطن کا سپاہی، برما روڈ، بے رحم، دل دیوانہ، زندہ لاش، شام سویرا، نادرا، الف لیلیٰ، آوارہ، شہنشاہ جہانگیر، کمانڈر، لالہ رُخ، میں زندہ ہوں، دارا، دُور کی آواز، آخری چٹان، شاہی فقیر، یہ راستے ہیں پیار کے، دل لگی وغیرہ کے لئے خوبصورت گیت تحریر کئے۔ 1915ء میں بنوڑ ضلع انبالہ (بھارت) میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا انتقال 8 دسمبر 1975ء کو لاہور میں ہوا اور انہیں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا۔
تحریر کے آخری حصے میں اُن کے بعض دلکش گیتوں کو سماعت نذر کرتے ہیں:
چلے ہیں گھومنے آسمان کو چومنے بیٹھ کے پون کے ڈولے میں
(پون، کوثر پروین، نذیر جعفری)
ہم بھی آوارہ پنچھی اور تم بھی آوارہ اُڑیں ساتھ اک ساتھ
(آخری نشان، ناہید نیازی، رحمن ورما)
اللہ میاں نیچے آ دُنیا تو دیتی نہیں، تو ہی روتی دیتا جا (کالا پانی، پکھراج پپو، رحمن ورما)
بالم تم ہار گئے جیتا میرا پیار ہو مانو نہ مانو پیا تم اپنی ہار کو (باغی، زبیدہ خانم، رحمن ورما)
پیاری بھابھی، بھابھی نہیں تو میری ماں ہے
(میرا کیا قصور، آئرن پروین، تصدق حسین)
نہیں خبر کب ملی نظر اور دل دیوانہ ہوگیا
(مہتاب، نذیر بیگم/احمد رشدی، منظور اشرف)
حال کیسا ہے جناب کا، جواب دیجئے سوال کا
(خاندان، مالا/آئرن پروین/باتش، رحمن ورما)
اے شوخ اے حسینہ آیا ہے کیوں پسینہ اور حسین لگتا ہے چہرہ دیکھ ذرا آئینہ
(داماد، احمد رشدی، تصدق حسین)
سماں جب پیارا پیارا ہو پیار کا دل کو سہارا ہو کوئی ساتھی جی اجیارا ہو
(ماں کے آنسو، نذیر بیگم/ احمد رشدی، منظور اشرف)
نہ میں چور نہ میں چور کا بھائی میں ہوں اک البیلا راہی
(نیلم، احمد رشدی، منظور اشرف)
اجنبی راستے اجنبی ہم سفر شوقِ آوارگی لے چلا ہے کدھر
(ایک دل دو دیوانے، آئرن پروین/ احمد رشدی، تصدیق حسین)
میں پیار کی بازی ہار چلا تیرے شہر میں پھر نہ آؤں گا
(جمیلہ، احمد رشدی، منظور اشرف)

(اک میرا چاند اک میرا تارا امی کی لاڈلی پپا کا پیارا (شکریہ، نسیم بیگم، منظور اشرف
(حالِ دل ہم نے سنیایا تو بُرا مانو گے (عورت کا پیار، نذیر بیگم، منظور اشرف
شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دُنیا ہے پیارے یہاں غم کے مارے، تڑپتے رہے
(زمین، مہدی حسن، وزیر افضل)
شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے دل دیوانہ دھڑک رہا ہے الگ برنگی رات بڑی رنگین ہے
(عادل، مالا، نثار بزمی)
اے دلنشین مسافر ہم سے نظر ملا لے جو تیرے ہو چکے ہیں اپنا انہیں بنا لے
(الف لیلیٰ، آئرن پروین، تصدق حسین)
(جانِ من اتنا بتا دو محبت محبت ہے کیا (کمانڈر، رونا لیلیٰ، ماسٹر عبداللہ
ہم ہیں دیوانے تیرے عادق مستانے تیرے ہم سے نگاہیں تو ملا
(آخری چٹان، مالا، ماسٹر رفیق علی)
زمانے میں رہ کے رہے ہم اکیلے ہمیں راس آئے نہ دُنیا کے میلے
(یہ راستے ہیں پیار کے، مسعود رانا، اعظم بیگ)
منزل ہے نہ ہمدم ہے کچھ ہے تو اگر دم ہی دم ہے میں اس دُنیا میں اکیلا ہوں
(میں اکیلا، مسعود رانا، بخشی وزیر)
کوئی جادو گر آیا میرے دل میں سمایا ایسی بین بجائی مجھے اپنا بنایا
(سخی لٹیرا، رونا لیلیٰ ماسٹر رفیق علی)
مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
(دل لگی، مسعود رانا، ماسٹر رفیق علی)
( ہم چلے اس جہاں سے دل اٹھ گیا یہاں سے (دل لگی، مہدی حسن، ماسٹر رفیق علی
(یاد کر کربلا کا زمانہ (ٹیپو سلطان، مہدی حسن، تصدق حسین

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل