Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چوروں کی ’’جنت‘‘

شیراز چوہدری

پاناما لیکس کے بعد چوری کی دولت چھپانے یا دولت پر ٹیکس چوری کرنے والے عالمی چوروں کی جو فہرست سامنے آئی ہے، اسے پیراڈائز لیکس کا نام دیا گیا ہے، پیراڈائز تو جنت کو کہتے ہیں۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جہاں ان لوگوں نے یہ دولت چھپا رکھی ہے وہ ان کی جنت ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں چوروں کی ’’جنت‘‘۔ جنت تو بہت پاک نام ہے اور یہ خوش نصیب انسانوں کو ہی حاصل ہوسکے گی، لیکن ابلیس اور اس کے چیلے بھی اس پاک لفظ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
ابلیس اب جنت اور جہنم کی تعریف تو نہیں بدل سکتا تھا اور نہ ہی انسان کے دل میں جنت کی جگہ جہنم کی طلب پیدا کرسکتا ہے، وہ جانتا ہے کہ انسان جنت کی طرف ہی جائے گا، اس لئے وہ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے جن چالوں سے کام لیتا آیا ہے اس میں دنیاوی جنت کا جھانسہ بھی شامل ہے۔ جنت کا نام وہ اور اس کے چیلے اس لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جنت کے نام کے علاوہ ان کا سودا بک نہیں سکے گا۔ شداد جیسا بدبخت جو خدائی کا دعویدار تھا، اس نے بھی اپنے لئے جو جگہ تیار کرائی تھی، اس کو نام جنت کا ہی دیا تھا، یہ اور بات ہے کہ اسے اپنے لئے تیار کرائی گئی جنت میں داخلے کی مہلت نہیں ملی تھی۔ ابلیس کے ایک اور پیروکار بدبخت حسن بن صباح نے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایران میں جنت کا ہی ڈرامہ رچایا تھا، اس میں خوبصورت خواتین کو بھی حوریں قرار دے کر رکھا تھا تاکہ اس کے پیروکاروں کو یقین ہوسکے کہ واقعی وہ جنت کو دیکھ رہے ہیں، اسی ’’جنت‘‘ کو دکھا کر اس نے ایسے پیروکار تیار کئے تھے جو اس کے حکم پر اپنی جان بھی لے لیتے تھے، ان کے دماغوں کو وہ حشیش کے نشے اور حوروں کے نام پر رکھی گئی خوبصورت عورتوں کے ذریعے کنٹرول کرتا تھا۔
زمانہ بدل گیا ہے، دنیا بہت ترقی کر گئی ہے تو ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے طریقۂ واردات بھی لگتا ہے بدل لیا ہے۔ پرانے زمانے میں تو ابلیس کے جو پیروکار گزرے ہیں، وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے خود ’’جنت‘‘ بناتے تھے، لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے تو لگتا ہے شیطان اور اس کے پیروکار بھی مزید سیانے ہوگئے ہیں، وہ لوگوں کو پھنسانے کے لئے جال تو اب بھی ’’جنت‘‘ کا نام استعمال کرکے پھینکتے ہیں، لیکن جو جال میں پھنس جائے، پرانے دور کی طرح اسے اپنے وسائل سے ’’جنت‘‘ جیسا ماحول نہیں دیتے، بلکہ الٹا پھنسنے والوں کے وسائل بھی اپنے پاس پھنسا لیتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنی دنیا کو جنت جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانے دور میں حشیش یا دیگر نشہ آور اشیاء کے ذریعے لوگوں کے دماغ ماؤف کئے جاتے تھے، اب انہیں دولت کا نشہ چڑھا کر ہی قابو کرلیا جاتا ہے، حوروں کو نیا نام سیلز ریپ کا دیا گیا ہے، البتہ خوبصورتی کا پیمانہ وہی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرانے دور میں اپنے وفاداروں کو جان لینے کا حکم جاری کرکے ان کی وفاداری چیک کرتے تھے، اب دور بدلا ہے تو وہ جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو غریب ملکوں میں لوٹ مار کرکے ان کے عوام کو بھوک سے مارنے کا حکم دے کر وفاداری آزماتے ہیں۔ جس طرح حسن بن صباح کی بنائی گئی ’’جنت‘‘ میں صرف اس کے پیروکاروں کو جانے کی اجازت تھی، اس طرح ان لوگوں نے بھی آف شور کے نام پر بنائی گئی چوروں کی ’’جنت‘‘ کی ممبر شپ مخصوص لوگوں تک محدود رکھی ہوئی ہے، ان کے اسرار یہ لوگ ہی جان سکتے ہیں، ان کا حساب کتاب صرف یہ ’’جنت‘‘ چلانے والے شیطان کے چیلوں کے پاس ہی ہوتا ہے، حتیٰ کہ ان کے اس جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لواحقین بھی اکثر لاعلم رہتے ہیں، چوروں کی ’’جنت‘‘ چلانے والے ابلیس کے یہ چیلے اپنی ’’جنت‘‘ میں آنے والی ہر چیز کا حقیقی مالک خود کو سمجھتے ہیں اور اس کا جیسے چاہیں استعمال کرتے ہیں، جب چاہیں اسے ضبط بھی کرلیتے ہیں۔ ان کا نظام ایسا ہے کہ ضبطگی پر ان کے جال میں پھنسا ہوا فرد بول نہیں سکتا، کیونکہ ان کی ’’جنت‘‘ کے یہی اصول ہیں اور ویسے بھی اسے علم ہوتا ہے کہ بولنے کی صورت میں بھی اسے بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں ملنا۔ جو کچھ وہ اس ’’جنت‘‘ میں انویسٹ کر چکا ہوتا ہے، اسے ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
پیراڈائز لیکس میں پاکستان سمیت غریب ملکوں کے لوگوں کے بہت سے نام تو آئے ہیں لیکن امریکہ سمیت مغربی ممالک کے لوگوں کے نام بھی ہیں۔ اس پر بعض لوگ یہ دفاع پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھیں ان چوروں کی ’’جنت‘‘ کی وجہ سے مغربی ممالک کو بھی تو نقصان ہوتا ہے، لیکن ایسی دلیلیں دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اول تو اس ’’جنت‘‘ کو آباد اور لوگوں کا اعتماد اس پر بحال رکھنے کے لئے ان کی اپنی شمولیت بھی کچھ نہ کچھ ضروری ہوتی ہے تاکہ انہیں دیکھ دیکھ کر باقی بھی اس جال میں پھنستے رہیں اور دوسرا ان ممالک کو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہے، چوروں کی ’’جنت‘‘ انہی کے کنٹرول میں ہے، اس لئے وہاں کسی کے بھی وسائل جمع ہوں، انہی کے فائدے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، ان کے ہی ملکوں اور شہریوں کی زندگیاں جنت بنتی ہیں۔ ان کے شہری تو زیادہ سے زیادہ ٹیکس چوری کرنے کے لئے کسی آف شور ’’جنت‘‘ میں پیسے چھپاتے ہوں گے، غریب ممالک کی اشرافیہ تو ڈاکے مار کر اور اپنے عوام کا لہو نچوڑ کر ان کی ’’جنت‘‘ آباد کرنے میں مگن ہے۔
حسن بن صباح کی ’’جنت‘‘ کی طرح ان کی آف شور ’’جنت‘‘ کی ممبر شپ بھی مخصوص لوگوں تک محدود ہے اور یہ زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں اپنی قوموں کا خون زیادہ سے زیادہ نچوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان کے لئے پھر سات خون معاف ہوتے ہیں، وہ اپنی قوموں کو جس طرح چاہیں لوٹتے رہیں، کک بیکس لیں، مفادات پر سمجھوتے کریں، منی لانڈرنگ کریں، انہیں ہر چیز کی چھوٹ ہوتی ہے، ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، ان کی ہر چیز راز میں رکھی جاتی ہے، وہ کہیں پھنس جائیں یا پکڑے جائیں تو تب بھی ان کی تفصیل چوروں کی ’’جنت‘‘ چلانے والے ان ممالک سے کوئی نہیں حاصل کرسکتا۔ ہاں البتہ اگر کوئی ان کے ’’جنت کلب‘‘ کا ممبر نہیں ہے تو اس کے لئے وہ منی لانڈرنگ قانون کا تیشہ ہمیشہ تیز رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین 25 برس سے ناجائز کمائی سے لندن میں پل رہے ہیں، اثاثے بنا رہے ہیں، لیکن کیوں کہ وہ اس کلب کے رکن ہیں اس لئے ان کی مکمل پردہ داری ہے، انہوں نے اہلیہ کو طلاق دی، تو برطانوی قانون کے مطابق وہ ان کی نصف جائیداد کی حقدار تھیں، اس کے لئے ان کی جائیدادا کی تفصیل سامنے آنی تھی، لیکن کلب کے ممبر اور اس کے اثاثے بچانے کے لئے ان کی جائیداد سامنے ہی نہ لائی گئی۔ مگر برمنگھم کے رہائشی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کاشف علی کو چند روز قبل 4 لاکھ پاؤنڈ کی منی لانڈرنگ پر 22 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ کیونکہ وہ چوروں کی ’’جنت‘‘ کے کلب کے رکن نہیں تھے۔ دوسری طرف پاناما سے لے کر پیراڈائز لیکس تک جن لوگوں کے نام آئے ہیں وہ ان کے اثاثے اور ان کی تفصیلات مکمل محفوظ ہیں۔ لیکن چوروں کی ’’جنت‘‘ کی رکنیت لینے والوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ ابلیس کے چیلوں کی بنائی ہوئی اس جعلی جنت کے پیچھے کب تک اس اصلی جنت کو چھوڑتے رہیں گے جس کا وعدہ رب کائنات نے کیا ہے اور جو مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے ان کا مقدر ہوسکتی ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل