Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رباعیات

ہاں گیت تو عظمت کا سُنایا ہی نہیں

انسان کبھی خود کو بنایا ہی نہیں

یہ سچ ہے، کہ چہرے سے ہے انسان، مگر

تو کون ہے یہ خود کو بتایا ہی نہیں

حساس ہو بے حد، تو گزر جاتا ہے

وہ تلخی گفتار سے مر جاتا ہے

الفاظ کی شمشیر کا سِم قاتل

انسان کی رگ رگ میں اُتر جاتا ہے

یہ رُلیست ترے ساتھ گزارے گا کون

اپنے دل و دیدہ میں اُتارے گا کون

جب اپنی ہی آواز نہیں سُن سکتا

اے شخص! بھلا تجھ کو پکارے گا کون

تو عزم کو اپنے پر پرواز تو دے

بیداریِ دل، روحِ تگ و تاز تو دے

آفاق کی، کیوں بھول بھلیوں میں ہے گم

اے آدمی خود کو کبھی آواز تو دے

تم سامنے اپنے کبھی آؤ تو سہی

جو چہرہ ہے وہ خود کو دکھاؤ تو سہی

پھر فیصلہ ہوجائے گا جھوٹ اور سچ کا

دیوارِ انا اپنی گراؤ تو سہی

لوگوں کے لئے ہوگی حسیں اور فائن

ہے میری نگاہوں میں، مگر تو ڈائن

دنیا تیری فطرت بڑی ہرجائی ہے

جا میں تجھے دیتا ہوں طلاق بائن

ہر گام ہر اک لمحہ تباہی ہو تم

خونخوار و شقی تنگ نگاہی ہو تم

لاشوں پہ بچھا رکھتے ہو خوانِ نعمت

اس پر بھی، مگر ظلِ الٰہی ہو تم

دیکھا انہیں محصورِ فریب اشرار!

خُفتہ ہے سحر، اور اندھے بیدار

ہونٹوں پہ لئے، نعرۂ اللہ عظیم

اُشرار ہیں، اختیار کے کانٹوں پہ سوار

اک دین کے سو فرقے بنائے کس نے

اک چہرے میں سُو چہرے دکھائے کس نے

فرقوں میں جو تقسیم ہے تو، نوع بشر!
خود سوچ! قلم اتنے لگائے کس نے
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
===========
مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل