بلال الرشید
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ غذا کھانے کی کوشش کریں، جو کسی پروسیس سے نہ گزری ہوئی ہو۔ جس میں کیمیکل اور چینی وغیرہ کی آمیزش نہ ہو۔ مثلاً آپ ریت والی چھلی یا نمک میں پکے ہوئے اس کے دانے کھائیں۔ انگور اور دیگر پھل کھائیں۔ ان چیزوں میں اس قدر لذت ہے کہ جو ایک بار ان کا عادی ہوجائے، وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتا۔ یہ چیزیں جسم کے لئے بے حد مفید ہیں۔ بیکری سے خریدے گئے بسکٹ، کیک، سلاد اور ڈبوں میں بند چیزیں کسی لحاظ سے بھی جسم کے لئے مفید نہیں۔ نہ ہی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ کے نام سے ملنے والے برگر اور تلا ہوا گوشت یا چپس مفید ہے۔ کاربونیٹڈ کولڈ ڈرنکس کو آپ اپنے جسم کے لئے زہر سمجھیں۔ یہ جسم کے لئے ایک سلو پوائزن کا کا م کرتی ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کو موٹا کرتی ہیں۔ پھر انسان شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بن جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ دن بھی آتا ہے جب اس کی انگلیاں اور حتیٰ کہ ٹانگیں کاٹ دینا پڑتی ہیں۔ زخم بھرتے نہیں اور انسان تڑپتا رہتا ہے۔ اگر آپ عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسپتال جا کر ایسے مریضوں کو اپنی آنکھ سے دیکھیں۔ اس کے بعد سوچیں کہ اپنے جسم کے ساتھ آپ کیا کررہے ہیں۔ آپ اگر بیس لاکھ روپے کی گاڑی خریدیں تو اس کے انجن اور پیٹرول ٹینک میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ڈالیں گے، جو معیار میں کمتر ہو۔ صرف بیس لاکھ روپے کی گاڑی کو آپ اس قدر حفاظت سے رکھتے ہیں۔ اس میں کبھی کمتر انجن آئل بھی نہیں ڈالتے لیکن جس جسم کی قیمت اربوں روپے ہے۔ جس کا ایک ایک عضو انمول ہے، اس میں آپ ہر وہ چیز ڈالتے رہتے ہیں، جس کا ذائقہ اچھا ہو۔ یہ اپنے ساتھ ظلم ہے اور اس کی قیمت ایک دن انسان کو چکانا پڑتی ہے۔
آپ اپنے جسم کی حفاظت نہیں کریں گے تو یہ جلد بوڑھا ہوجائے گا۔ پچاس سالہ عمر کے دو افراد کبھی بھی برابر نہیں ہوتے۔ آپ نے کئی افراد ایسے دیکھے ہوں گے جو 70 برس کی عمر میں بھی نوجوانوں کی طرح کام کررہے ہوں گے اور 40، 45 سالہ ایسے لوگ بھی، جو کام کاج کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ عمر بڑھنے کی رفتار، انگریزی میں جسے ایجنگ کہا جاتا ہے، مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے۔ یہ ان کی خوراک اور ان کی جسمانی بھاگ دوڑ پہ منحصر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حالات کا دباؤ، اسٹریس یا اینسٹی ایک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کی صحت پر بُری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ پریشانی کے شکار لوگوں کو حل تلاش کرنا چاہئے۔ اگر خود نہیں کرسکتے تو کسی سمجھدار شخص یا سائیکاٹیرسٹ کو اپنے مسائل بتا کر ان سے کونسلنگ کروانی چاہئے۔ ایسے لوگوں کے لئے بعض اوقات دوا (میڈیکیشن ) بھی ضروری ہوتی ہے اور اس کے بغیر صحت مند زندگی کی طرف ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ خدا کی یاد تو بہت ضروری ہے اور اسی سے دلوں کو سکون نصیب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ علم میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو صبر کی دولت سے نواز دیتا ہے۔
قرآن مجید میں جہاں حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کی ملاقات اور ا کٹھے سفر کا واقعہ درج ہے، وہاں بار بار حضرت خضرؑ حضرت موسیٰؑ سے یہ کہتے تھے کہ آپ میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ بار بار یہ فرماتے تھے کہ جس بات کا آپ کو علم نہیں، آپ اس پر کیسے صبر کریں گے؟ اور ہوا بھی بالکل ویسا ہی۔ تیسری دفعہ جب موسیٰؑ نے اعتراض کیا تو خضرؑ نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔ جانے سے پہلے وہ انہیں اپنے ہر عمل کی وجہ بتا کر گئے، جس میں ایک لڑکے کو قتل کرنا بھی شامل تھا۔ فرمایا: اس کے ماں باپ نیک ہیں مگر اس لڑکے نے بڑا ہو کر انہیں سخت تکلیف پہنچانا تھی۔ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نیک ماں باپ کو بھی اس بات کا علم تو نہیں تھا کہ خدا کی کس مصلحت کے تحت ان کا بیٹا ان سے ہمیشہ کے لئے چھن گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس قتل میں ماں باپ کے لئے آزمائش تھی۔ انہیں غم برداشت کرنا تھا اور اس کے بدلے میں پھر انہیں نیک اولاد ملنا تھی۔
ایک چیز میں لکھنا بھول گیا، جو صحت کے لئے انتہائی مفید ہے، وہ تیز رفتار حرکت ہے۔ جب آپ دوڑ لگاتے یا کوئی ایسی ورزش کرتے ہیں، جس میں سانس پھولے اور دل کی دھڑکن تیز ہو تو یہ جسم اور دماغ کے لئے انتہائی مفید ہے۔ یہ ایک طرح کا بہت اچھا اینٹی ڈیپرسنٹ بھی ہے۔ اس طرح کی ورزش میں ایک طرح کا نشہ (ایڈیکشن) بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ اس کے عادی ہوجاتے ہیں، وہ ورزش کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ دوڑ لگانا پورے جسم کے لئے، دل اور نظامِ انہضام کے لئے اور حتیٰ کہ دماغ کے لئے بھی انتہائی مفید ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ایسی ورزش سے پہلے دو گھنٹے کا وقفہ ضروری ہے۔ ایک دم سخت ورزش سے گریز کرنا چاہئے، خاص طور پر چالیس سال سے زیادہ عمر والوں کو۔ پہلے تیز رفتار چہل قدمی وغیرہ سے جسم کو وارم اپ ہونے کا موقع دینا چاہئے۔ پھر ورزش شروع کرنی چاہئے۔ بتدریج اس کا دورانیہ بڑھانا چاہئے۔
صحت کے حوالے سے علاج کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے۔ میرے دوست کی بہن سخت بیمار تھی اور وہ ایک بہت بڑے اسپتال میں داخل تھی۔ وہاں ایک شخص ملا، جس کی عزیزہ بھی اسی وارڈ میں داخل تھی۔ اس نے میرے دوست سے پوچھا کہ آپ کی بہن کو کیا بیماری ہے۔ اس کے گردے کام کرنا چھوڑ چکے تھے (ایک حکیمی دوا کی وجہ سے، جس میں چاندی کے ورق کوٹ کر ڈالے گئے تھے)۔ دوست نے اسے بیماری کی تفصیل بتائی تو اس نے کہا کہ گردے کے بہت سے مریض وہ صحت یاب ہوتے دیکھ چکا ہے۔ اس نے میرے دوست کو ایبٹ آبا دسے آگے ایک مزار کا پتہ بتایا۔ اس نے کہا کہ وہاں سے بابا جی دوا دیں گے اور کچھ ہی دنوں میں آرام ہوجائے گا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ وہ خود اسلام آباد کے اس اسپتال میں کیا کر رہا ہے۔ اس نے کہا، میری بہن کے گردے میں پتھری ہے۔ میں نے پوچھا، کیا آپ کی بہن کو ان باباجی کی دوا سے آرام نہیں آیا؟۔ اس نے کہا، ہاں ویسے تو سب کو وہاں سے آرام آجاتا تھا لیکن اس بار میری بہن کو آرام نہیں آیا تو یہاں آنا پڑا۔ دل ہی دل میں، میں نے سوچا، جب پتھری خود ہی حرکت کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ساکن ہو جاتی ہے تو درد ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بابا جی کی کرامت سے آرام آگیا ہے۔ جب دو چار مہینوں یا ایک دو سال کے بعد پتھری دوبارہ ہلتی ہے تو دوبار ہ درد شروع ہو جاتاہے۔ دعا کی اپنی اہمیت ہے لیکن علاج تو لازم ہے۔ علاج وہ، جس کی پشت پر چالیس ہزار سالہ انسانی تجربہ اور علم کھڑا ہو۔