ہماری عالمی تاریخ حیرت ناک اور ناقابل یقین واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اگر دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ایک صدی کا سب سے بڑا جھوٹ 2003ء میں بولا گیا جب امریکی صدر بش نے عراق پر ایٹمی اور نیوکلیئر ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر اقوام متحدہ کو ساتھ ملاتے ہوئے اس پر حملہ کردیا۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے سزائے موت دے دی گئی لیکن جس بنا پر کھربوں ڈالر کی جنگ لڑی گئی وہ الزام غلط ثابت ہوا۔
لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرانے جارہی ہے اور اس بار اس کا روئے سخن ایران کی جانب ہے جس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ نیوکلیئر عدم پھیلاؤ کے 2015ء کے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت کے امریکی صدر براک اوبامہ نے کیا تھا جسے وہ اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے تھے۔ یہ دو ملکوں کا معاہدہ نہیں بلکہ اس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور یورپی یونین امریکہ کے ساتھ ایک فریق ہیں جبکہ دوسرا فریق ایران ہے۔ معاہدے کی رو سے ایرانی نیوکلیئر پروگرام ترک کردے گا جس کے عوض ایران سے عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کردی گئی ہیں۔
گزشتہ سال کی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے اس معاہدے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی دن اس معاہدے کی دستاویزات پھاڑ دیں گے۔ اس معاہدے کی رو سے امریکی صدر نے کانگریس کو ہر 90 دن کے بعد تحریری یقین دہانی کروانی ہوتی ہے کہ ایران معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے لیکن اس دفعہ امریکی صدر نے اس یقین دہانی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے اور معاملہ کانگریس کو ریفر کرتے ہوئے انہیں 60 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے نامزد کردہ نگرانوں کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے ابھی تک معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران معاہدے پر اس کی روح یعنی (اسپرٹ) کے مطابق عمل نہیں کر رہا اور شام اور مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس معاہدے سے شام اور مشرق وسطیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکی کانگریس کو یہ مشکل درپیش ہے کہ اگر تو وہ 60 دن کے اندر اکثریتی رائے سے اس کی مخالفت کرتے ہیں تو معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا اور اگر کچھ نہیں کرتے تو یہ جاری رہے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ اس معاہدے کو یک طرفہ منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ اس میں روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ بطور فریق شامل ہیں جن میں سے کوئی بھی وعدہ خلافی کے حق میں نہیں ہے۔ کانگریس اس لئے اس معاہدے کو جوں کا توں رہنے دے گی کہ کہیں امریکہ دنیا بھر میں جھوٹا، ناقابل اعتبار اور عالمی معاہدوں کا پاس نہ کرنے والا نہ قرار پائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جم میٹس بھی ایران سے معاہدہ سے مکر جانے یا منحرف ہونے کے مخالف ہیں۔ یورپی ممالک نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے معاہدہ شکنی کی تو وہ اس سے الگ ہوجائیں گے جس سے امریکہ کی اخلاقی ساکھ بُری طرح متاثر ہوگی۔
کہا جارہا ہے کہ امریکہ کو سب سے زیادہ اعتراض اس معاہدے کی سن سٹ کلاز پر ہے جس کی رو سے اگر 2025ء تک ایران معاہدے پر دیانتداری سے عمل کرتا رہے تو اس کے بعد اسے محدود پیمانے پر یورینیم کی افزودگی کی اجازت ہوگی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پر اتفاق رائے ہوچکا ہے، دوسرے یہ کہ اگر اعتراض کی کوئی گنجائش ہے بھی تو وہ 2025ء میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب کیا کرنا ہے، تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار ایران کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کے منحرف ہونے کے بیان کا ایک پس منظر یہ ہے کہ اس معاہدہ توڑنے کی سب سے زیادہ خوشی دو ممالک کو ہو رہی ہے جنہوں نے امریکی صدر کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔ پہلا ملک اسرائیل ہے اور دوسرا سعودی عرب۔ یہ دونوں ممالک ایران کو غیرمستحکم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹرمپ کے اس بیان کے ساتھ ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کا فائدہ سب سے زیادہ سعودی عرب کو ہے۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ تیل کی عالمی کساد بازاری کی وجہ ایران ہے جو خطے میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ لیکن کئی دہائیوں کی معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے اپنا تیل عالمی مارکیٹ میں لانے سے قاصر رہا ہے۔ سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ اگر وہ مارکیٹ میں واپس آگیا تو عربوں کو معاشی نقصان ہوگا۔ دوسرا ایران تیل سے ہونے والی آمدنی کو عربوں کے خلاف جنگ کرنے میں استعمال کرے گا۔ دوسری طرف اسرائیل کو خطرہ ہے کہ اگر ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اس کا سب سے پہلا ہدف اسرائیل ہوگا۔ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے وہ امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ایران کو عراق والا سبق سکھائے۔ لیکن ایسا کرنا امریکہ کے لئے اب اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روس عالمی منظرنامے پر بطور سپرپاور واپس آچکا ہے جبکہ تاریخ میں پہلی بار چائنہ نے بھی اپنے ملک سے باہر فوجی اڈے بنانے کا آغاز کردیا ہے۔ ویسے بھی امریکی امداد کے باوجود سعودی عرب کئی سال سے شام میں بشار الاسد حکومت کو شکست نہیں دے سکا جبکہ یمن میں جاری جنگ میں اربوں ڈالر جھونکنے کے باوجود سعودی عرب کو وہاں ناکامی ہوئی ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی صدر کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ ایران عالمی معاہدوں کا پابند ہے مگر ہم اپنے دفاع کے لئے کسی بھی ایڈونچر کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اگر ایران کے ساتھ معاملہ کرنے میں شمالی کوریا جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کی سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی کیونکہ وہ اپنے رویے اور پالیسیوں سے ایران کو متواتر اشتعال دلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سعودی عرب کی باگ ڈور شاہ سلمان کے پاس نہیں بلکہ ان کے 31 سالہ بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے امریکہ سے 50 بلین ڈالر سے زیادہ اسلحے کی خریداری کے معاہدے کئے ہیں۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک دفعہ پھر سعودی عرب کی حمایت والی پرانی پالیسی کی تجدید کا تاثر دے رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ باقی سپرپاورز اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور ایران بذات خود کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، البتہ مڈل ایسٹ میں آنے والے وقت میں سپرپاورز کا میدان جنگ بننے کے سارے اجزا موجود ہیں۔
ایران نیوکلیئر معاہدہ اور امریکی عہد شکنی
چوہدری فرخ شہزاد