Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

شوبز

اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے    …..  لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے

بیاد وحید مراد 2 اکتوبر 1938۔۔۔ 23 نومبر 1983ء

شیخ لیاقت علی

تئیس نومبر 1983ء بروز بدھ کراچی میں ایوانِ فلم و فن کا اِک ستون گرا، ایک تہذیبی فرد نے لباسِ خاک پہن لیا۔ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا، اُن کا راج دُلارا، بچوں کا شفیق و مہربان باپ، وفا شعار شریکِ حیات کا باکمال شوہر اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن، سب کا محبوب فنکار چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا!!
وحید مراد پیدائشی ہیرو تھے اور زندگی بھر سب کے محبوب ہیرو ہی رہے۔ کاش ہماری فلم انڈسٹری اُن کی خاطرخواہ قدر کرتی۔ وہ قدرتی طور پر فنی صلاحیتوں کے مالک تھے، وحید مراد کو مرحوم کہنا، لکھنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رحمت میں چلے گئے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔ وہ عوام کے پسندیدہ ہیرو تھے۔ بہت اچھے فنکار اور بہت اچھے انسان تھے۔ اُن کا فن، اُن کی فکر ہمیشہ دلوں میں موجزن رہے گی۔ 34 برس گزر جانے کے باوجود اُن کی یادیں، اُن کی فلمیں اور اُن پر فلمائے گئے سدا بہار نغمات ازہان میں محفوظ ہیں۔ ہر سال 23 نومبر کو اُن کے مداح، پرستار و شیدائی اپنے محبوب ہیرو کی برسی بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور اُن کو غیرمعمولی خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ وحید مراد کو فلمی دُنیا سے اُنسیت اور رغبت اپنے والد نثار مراد کی وجہ سے ہوئی جو معروف فلم تقسیم کار تھے۔ نثار مراد نے اپنے اکلوتے ہونہار صاحبزادے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور انگریزی میں ماسٹر آف آرٹس (ایم – اے – انگلش) وحید مراد نے سال 1962ء میں جامعہ کراچی سے پاس کیا۔ سال 1960ء کے اوائل میں کراچی میں ایک فلمساز ادارے ’’فلم آرٹس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے بینر تلے وحید مراد نے بطور فلمساز گیارہ فلمیں پروڈیوس کیں جن میں انسان بدلتا ہے (ریلیز 5 مئی 1961ء)، جب سے دیکھا ہے تمہیں (ریلیز 29 مارچ 1963ء) ہیرا اور پتھر (ریلیز 11 دسمبر 1964ء)، ارمان (ریلیز 18 مارچ 1966ء)، احسان (ریلیز 30 جون 1967ء)، سمندر (ریلیز 10 مارچ 1968ء)، اشارہ (ریلیز 14 فروری 1969ء)، نصیب اپنا اپنا (3 اپریل 1970ء) مستانہ ماہی (ریلیز 24 ستمبر 1971ء)، جال (ریلیز 31 اگست 1973ء) اور ہیرو (ریلیز 11 جنوری 1985ء) شامل ہیں۔ ابتدائی دو فلموں کے ہیرو درپن تھے۔ باقی ماندہ 9 فلموں میں وحید مراد خود ہیرو آئے۔ ’’ہیرا اور پتھر‘‘ گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی اور اس فلم میں بہترین اداکاری کے عوض وہ نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ انہوں نے فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ سے منور رشید کو بطور ہدایت کار متعارف کرایا اور اُن ہی سے دوسری فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بھی ڈائریکٹ کروائی۔ نامور موسیقار سہیل رعنا کو بھی انہوں نے فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ سے متعارف کرایا اور فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے انہوں نے پرویز ملک کو بطور ہدایت کار متعارف کرایا اور اُن سے بعدازاں ’’ارمان‘‘ اور ’’احسان‘‘ بھی ڈائریکٹ کروائیں۔ ’’سمندر‘‘ کے لئے انہوں نے بطور ڈائریکٹر رفیق رضوی عرف بابو کی خدمات حاصل کیں اور اس کی دلکش موسیقی کے لئے دیبو بھٹا چاریہ کا انتخاب کیا۔ وحید مراد نے اپنی فلم ’’اشارہ‘‘ کی ہدایات خود انجام دیں اور اس میں انہوں نے فلم کی ہیروئن دیبا کے ہمراہ یہ دو گانا بھی گایا: ہیلو عامر! ہیلو عالیہ خیریت تو ہے، خیریت ارے خیریت، فلم نصیب اپنا اپنا کے ہدایت کار قمر زیدی تھے اور دلکش موسیقی لال محمد اقبال نے دی۔ مستانہ ماہی پنجابی میں پروڈیوس کی اور ڈائریکشن کے لئے افتخار خان اور مسحورکن موسیقی کے لئے موسیقار نذیر علی کو موقع دیا۔ ’’جال‘‘ وحید مراد کی بطور فلمساز پہلی رنگین فلم تھی جس کی ہدایات بھی افتخار خان نے دیں اور آخر میں اپنی ذاتی فلم ’’ہیرو‘‘ کے لئے انہوں نے بطور ڈائریکٹر اقبال یوسف کا انتخاب کیا۔ یہ فلم وحید مراد کے انتقال کے بعد 11 جنوری 1985ء کو ریلیز ہوئی۔ 10 ہدایت کار ایسے ہیں کہ جن کی صرف ایک ایک فلم میں وحید مراد بطور ہیرو جلوہ گر ہوئے۔ اُن میں خلیل قیصر کی ماں باپ، ایس اے حافظ کی ایک نگینہ، لقمان کی افسانہ، سید سلیمان کی بے وفا، جمیل اختر کی خاموش نگاہیں، رضا میر کی ناگ منی، سید جعفر شاہ بخاری کی عزت، جان محمد کی پرکھ، رنگیلا کی عورت راج اور ایم جاوید فاضل کی آہٹ شامل ہیں۔ وحید مراد کی عیدالفطر کے پُرمسرت موقع پر یہ فلمیں سلور اسکرین کی زینت بنیں۔ بہو بیگم (4 فروری 1965ء)، لیلیٰ مجنوں (ریلیز 18 اکتوبر 1974ء) دلربا اور صورت اور سیرت (7 اکتوبر 1975ء)، اکھ لڑی بدو بدی (ریلیز 26 ستمبر 1976ء) اور ننھا فرشتہ (ریلیز 18 اکتوبر 1974ء)
چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی عیدالاضحی پر ریلیز ہونے والی فلمیں یہ ہیں:
باجی (ریلیز 3 مئی 1963ء)، جوش (ریلیز 2 اپریل 1966ء)، سمندر (ریلیز 10 مارچ 1968ء)، خلش (ریلیز 21 جنوری 1972ء)، عشق میرا نان (ریلیز 5 جنوری 1974ء)، شمع (25 دسمبر 1974ء)، سجن کملا (ریلیز 12 دسمبر 1975ء)، آپ کا خادم (ریلیز 2 دسمبر 1976ء) اور فلم گھیراؤ (ریلیز 9 اکتوبر 1981ء)
وحید مراد نے اپنی مختصر سی جھلک بطور ایکسٹرا اداکار فلم ’’ساتھی‘‘ (ریلیز 23 اکتوبر 1959ء) میں اداکار درپن کے ہمراہ دکھائی۔ ایس ایم یوسف کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’اولاد‘‘ میں اُن کو معقول کردار ملا اور اس فلم میں وہ حبیب اور نیئر سلطانہ کے سعادت مند صاحبزادے بنے تھے۔ اولاد (1962ء) کے بعد وحید مراد باجی (1963ء بطور مہمان اداکار)، دامن (1963ء) اور مامتا ( 1964ء) میں انہوں نے معاون اداکار کے کام کیا۔ بطور سولو ہیرو ’’ہیرا اور پتھر‘‘ اُن کی پہلی فلم ہے۔ ارمان کے لئے انہوں نے بہترین فلمساز کا نگار ایوارڈ حاصل کیا اور اس فلم کو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی اُردو فلم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
وحید مراد نغمات کی پکچرائزیشن بڑی خوبی سے کرانے میں ماہر گردانے جاتے ہیں اور انہیں ماسٹر آف سانگز پکچرائزیشن (ماسٹر آف سونگس  پیکٹوریساشن) کہا جاتا تھا۔ نامور گلوکار احمد رشدی کی آواز وحید مراد پر خوب جچتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے وحید مراد خود گا رہے ہوں۔ ان دونوں کے سنگم کے بعض سدابہار نغمات:
گوری سمٹی جائے شرم سے دل کا بہید چھپائے ہم سے
(ہیرا اور پتھر، مسرور انور، سہیل رعنا)
پیار میں ہم اے جانِ تمنا جان سے جائیں تو مانو گے
(کنیز، حمایت علی شاعر، خلیل احمد)
میرے خیالوں میں چھائی ہے اک صورت متوالی سی
(ارمان، سہیل رعنا، مسرور انور)
رات چلی ہے جھوم کے راہوں کو تیری چوم کے آ بھی جا
(جوش، ہمراہ ناہید نیازی، فیاض ہاشمی، مصلح الدین)
جانِ بہار جانِ تمنا تم ہی تو ہو
(انسانیت، شبانہ کیرانول، منظور اشرف)
اے میری زندگی اے میرے ہم سفر
(احسان ہمرا مالا، مسرور انور، سہیل رعنا)
ہپ ہپ ہرے تھری چیئرز فار بھابھی ہپ ہپ ہُرے
(دیور بھابھی، فیاض ہاشمی، ماسٹر عنایت حسین)
ہاں اسی موڑ پہ اُس جگہ بیٹھ کر تم نے وعدہ کیا تھا
(دوراہا، مسرور انور، سہیل رعنا)
معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے
(رشتہ ہے پیار کا، ہمراہ رونا لیلیٰ فیاض ہاشمی، ناشاد)
اُسے دیکھا اُسے چاہا اُسے بھول گئے
(جہاں تم وہاں ہم، مسرور انور، روبن گھوش)
کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا
(دل میرا دھڑکن تیری، قتیل شفائی، ماسٹر عنایت حسین)
یوں روٹھ نہ گوری مجھ سے دل ٹوٹ گیا جو تجھ سے
(سمندرِ صہبا اختر، دیبو بھٹا چاریہ)
بھٹکی ہوئی موجوں نے آخر پایا اپنا ساحل
(اک نگینہ، تسلیم فاضلی، امجد حسین)
میں ہوں عاشق صدیوں پرانا
(تم ہی ہو محبوب میرے، خواجہ پرویز، ایم اشرف)
لذت سوز جگر پوچھ لے پروانے سے
(سالگر، ہمرا آئرن پروین، شیون رضوی، ناشاد)
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے
(عندلیب، مسرور انور، نثار بزمی)
سوچا تھا پیار نہ کریں گے ہم نے کسی پہ مریں گے
(لاڈلہ، کیف رضوانی، لال محمد اقبال)
دل کے چمن میں پھول کھلا تم سا مجھ محبوب ملا
(ماں بیٹا، ہمرا مالا، مسرور انور، سہیل رعنا)
چھوڑ چلے ہم چھوڑ چلے لو شہر تمہارا چھوڑ چلے
(پھر چاند نکلے گا، انجم کیرانول، سہیل رعنا)
اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں
(نصیب اپنا اپنا، مسرور انور، لال محمد اقبال)
آجاؤ اب آ بھی جاؤ دیتا ہے صدا دل میرا آجاؤ
(ہل اسٹیشن، تسلیم فاضلی، ناشاد)
لکھ دیجئے اک پیار کی عرضی میرے نام عرضی میرے نام
(ملاقات، مسرور انور، نثار بزمی)
انگارہ میرا من، میرا من انگارہ
(جال، خواجہ پرویز، نذیر علی)
ہے کہاں وہ کلی جو کبھی نہ کھلی میری آنکھیں اُسے ڈھونڈیں
(انہونی، لال محمد اقبال)
دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا
(محبت زندگی ہے، مسرور انور، ایم اشرف)
کیا پتہ زندگی کا کیا بھروسہ ہے کسی کا دل نثار کئے جا
(جب جب پھول کھلے، مسرور انور، ایم اشرف)
مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل