شیخ لیاقت علی
مشرقی روایات کی حامل صاف ستھری رومانی و نغمانی فلم نائلہ ریلیز 29 اکتوبر 1965ء
متحدہ پاکستان فلم کے بلیک اینڈ وائٹ دور سے نکل کر جب فلمسازوں نے کلر دور میں آنے کی ٹھانی تو پہلا تجربہ سابقہ مشرقی پاکستان کے فلمساز و ہدایت کار ظہیر ریحان نے فلم ’’سنگم‘‘ (ریلیز 23 اپریل 1964ء بروز عیدالاضحی) بنا کر کیا۔ لاہور (مغربی پاکستان) میں پہلی کلر فلم بنانے کا تجربہ فلمساز کیو زمان نے فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ (ریلیز 20 نومبر 1964ء) بنا کر کیا۔ ایورنیو پکچرز کے روح رواں آغا جی اے گل نے بھی فلم ’’نائلہ‘‘ کو رنگینی دینے کا عزم کیا اور اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے ایورنیو فلم اسٹوڈیو میں کلر لیبارٹری کی بنیاد رکھی۔ نائلہ کی کہانی معروف رائٹر رفیہ بٹ کے ناول ’’نائلہ‘‘ سے ماخوز ہے۔ موسیقی اور فنکاروں کی پرفارمنس کے لحاظ سے نائلہ ایک معیاری فلم قرار پائی اور اس کی کامیابی سے پاکستان کلر فلموں کے لئے راہیں کھلیں۔ فلمساز آغا جی اے گل، ہدایت کار شریف نیئر، مصنفہ رفیہ بٹ، موسیقار ماسٹر عنایت حسین، عکاس نبی احمد اور نغمہ نگاران قتیل شفائی، حمایت علی شاعر اور طفیل ہوشیار پوری کی یہ شاہکار تصویر 29 اکتوبر 1965ء کو آل پاکستان ریلیز ہوئی اور کچھ یوں اس کی کہانی ہے:
’’نائلہ بے حد مسرور تھی کہ آج اس کے بچپن کے دوست ظفر (سنتوش کمار) اور اختر (درپن) سات سال کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرکے ولایت سے وطن لوٹ رہے تھے۔ نائیلہ (شمیم آرا) دونوں کے شاندار استقبال کے لئے بہت سے منصوبے بنا چکی تھی۔ وہ ظفر کو دل سے چاہتی تھی اور اختر سے بھی گھل مل جاتی تھی۔ جب ظفر سامنے آئے تو مارے حجاب کے نائلہ کی زبان سے ’’خوش آمدید‘‘ بھی نہ ادا ہوسکا۔ وہ حیران ہوئی کہ ایسا کیا ہے جو آنکھ اٹھا کر بھی ظفر کو دیکھنے نہیں دیتا۔ غالباً اس لئے کہ خاندان میں ظفر اور نائلہ کی شادی کے تذکرے تھے۔ اس بے اعتنائی کی وجہ سے ظفر کچھ کچھ نائیلہ سے مایوس سے رہنے لگے۔ جس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کبھی جب ظفر کی نائلہ سے نظریں ٹکراتیں تو فضا میں تاج محل بننے لگتے لیکن اگلے ہی لمحے یہ تاج محل ریت کی دیوار بن جاتا۔ محبت کے اظہار کے لئے نائلہ نے شاعری کے علاوہ دیگر طریقے بھی استعمال کئے لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی اور ظفر کے لئے الجھنیں پیدا کر دیتیں۔ بالآخر محبت کی شدت بڑھتے بڑھتے نفرت کی شکل اختیار کر گئی اور ایسا لگنے لگا کہ محبت کا یہ رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو کر نہ رہ جائے کہ ظفر اور نائلہ کا اظہارِ نفرت، اقرارِ محبت بن گیا۔ دوسری طرف اختر (درپن) نائیلہ کے خلوص کو غلط سمجھ بیٹا اور نائلہ سے یکطرفہ والہانہ محبت کرنے لگا۔ اس انکشاف سے دونوں بھائیوں کے والدہ مہ لقا (راگنی) ایک نئی الجھن میں الجھ کر رہ گئیں۔ وہ اختر کی تو سگی ماں تھیں لیکن ظفر کو انہوں نے ہمیشہ بڑے بیٹے جیسی اہمیت دی۔ وہ حق و انصاف کے لئے لڑیں، وہ جیت گئیں اور سوتیلا بیٹا ظفر ہار گیا۔ سمکی (گل رُخ) نائلہ کی دیرینہ سہیلی تھی اور وہ اختر سے یکطرفہ پیار کیا کرتی تھی لیکن اُس کی قسمت میں ناکامی آئی۔ ظفر جب حالات سے واقف ہوئے کہ اختر کو نائلہ سے محبت ہوگئی ہے اور اُن کی ماں اپنے سگے بیٹے کے حق میں ہیں تو وہ بے حد رنجیدہ اور پُرملال ہوگئے۔ بالآخر ظفر نے قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے وہ بندھن توڑ ہی دیا جو کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ کہہ کر باندھا تھا۔ نائلہ قربان کردی گئی۔ لیکن نائیلہ نے اب یہ اٹل فیصلہ کیا کہ وہ اختر کی بیوی بننے سے قبل اپنے محبوب ظفر کے سامنے اپنے دل کا غبار ضرور نکالے گی۔ شادی کی تقریب میں نائلہ کے منہ سے بے اختیار یہ شعر نکلے:
دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے
نائلہ نے ان اشعار کی صورت میں سر محفل ظفر کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ اُسے ظفر سے سچی محبت تھی اور ہے۔ نائلہ نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے اس انگوٹھی کا نگینہ چوس لیا جو شادی کے لئے اُسے پہنائی گئی تھی۔ اختر سے اُس کی شادی ہوجاتی ہے اور شادی کے بعد اُس نے ظفر کو اصل حقیقت سے آگاہ بھی کردیا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
فلم ’’نائلہ‘‘ سے قبل غالباً کسی ناول کی کہانی کو فلم کے لئے اخذ نہیں کیا گیا تھا۔ اس فلم کو ہر طبقہ فکر نے بے حد سراہا اور پسند کیا۔ اُس کی اہم وجہ یہ بھی رہی کہ یہ فلم صحیح معنوں میں پہلی مکمل کلر فلم ہے جو فنی اور تکنیکی اعتبار سے، موسیقی، عکاسی اور مکالمہ نگاری کے اعتبار سے لاجواب فلم گردانی گئی۔ بالخصوص فلم کے آخری مناظر میں نائلہ (شمیم آرا) کے مکالموں پر فلم بین بے اختیار داد دیتے تھے۔ موسیقار ماسٹر عنایت کے ترتیب دیئے ہوئے تمام ہی نغمات ایک سے بڑھ کے ایک ثابت ہوئے جو یہ ہیں اور گلوکارہ مالا بیگم نے کمال کی گائیکی کی ہے۔
مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے شاعر قتیل شفائی
غم دل کو ان آنکھوں سے جھلک جانا بھی آتا ہے قتیل شفائی
اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کر پگلی قتیل شفائی
دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے قتیل شفائی
کوئی پیار کا فسانہ گوری پیا کو سناؤ ابھی دیا نہ بجھاؤ بڑی رات پڑی ہے قتیل شفائی
واشی وینا ہم باریت چندا سے گوری ملنے چلی شاعر طفیل ہوشیار پوری
محبت کے جہاں میں حسن کے دم سے اجالا ہے مالا، نسیم بیگم و کورس، شاعر طفیل ہوشیار پوری
دل کے ویرانے میں ایک شمع ہے روشن اب تک مالا کے ہمراہ مسعود رانا، شاعر حمایت علی شاعر
نائلہ میں آٹھ نغمات ہیں اور اسے آٹھ ہی نگار ایوارڈ مختلف شعبوں میں کچھ یوں ملے ہیں:
بہترین فلمساز، آغا جی اے گل
بہترین ہدایت کار، شریف نیئر
بہترین اداکارہ شمیم آرا
بہترین موسیقار ماسٹر عنایت حسین
بہترین نغمہ نگار قتیل شفائی (مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے
بہترین گلوکارہ مالا بیگم اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کر پگلی
بہترین عکاس نبی احمد
بہترین آرٹ ڈائریکٹر ایم این خواجہ
29 اکتوبر 2017ء کو پاکستان کی شاہکار کلاسک فلم ’’نائلہ‘‘ کی ریلیز کو 52 برس ہورہے ہیں۔ یہ سدا بہار فلم اپنی کہانی، فنکاروں کی عمدہ کردار نگاری اور مسحورکن موسیقی کی بدولت ہمیشہ تروتازہ رہے گی۔