Friday, June 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

حقیقی سکون

افسانہ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ایک پچیس سالہ امیر زادہ میرے سامنے بیٹھا تھا جو پریشانی میں بار بار اپنے ہاتھ مل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر اضطراب، بے چینی اور ناشکری کے تاثرات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے تھے، وہ بار بار کہہ رہا تھا سر میری خواہش کب پوری ہوگی، میرے مسائل کب حل ہوں گے، میری ٹینشن کب دور ہوگی، میں کب اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکوں گا، کب میرے خواب اور خواہش حقیقت کا روپ دھاریں گے، چیزیں اور لوگوں کے رویے میری مرضی کے مطابق کیوں نہیں، مجھے سکون کیوں نہیں ہے، میں بے چین، بے قرار اور مضطرب کیوں ہوں۔ سر میں جو بھی کام کرتا ہوں وہ پورا اور میری مرضی کے مطابق کیوں نہیں ہوتا، کیا میں اسی طرح مر جاؤں گا، کیا میں ناکام انسان ہی رہوں گا، کیا میرے خواب اِس طرح ادھورے اور نامکمل رہیں گے، سر مجھے ایسا وظیفہ یا عبادت بتائیں جس کے کرنے سے میری زندگی میری مرضی کے مطابق ہوجائے، مجھے سکون مل جائے، میرے ادھورے خواب اور منصوبے جلدی مکمل ہوجائیں۔ وہ بولے جارہا تھا اور میں اس کو کھل کر بولنے کا موقع دے رہا تھا تاکہ اِس کے اندر کی بھڑاس اچھی طرح نکل جائے، بہت سارے لوگ اپنے دل کی باتیں اور اندر کا ڈپریشن کسی کو بتا کر پُرسکون ہوجاتے ہیں اِس لئے میں اس کو خوب بولنے کا موقع دے رہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ بھی انہی نوجوان امیر زادوں میں سے ایک تھا جن کو روٹی، پانی، نوکری، کاروبار، گھر کا مسئلہ نہیں تھا، یہ بھی خواہ مخواہ ڈپریشن میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اِس کو زندگی کی تمام آسائشیں دے رکھی تھیں، یہ شکر کی بجائے ناشکری کررہا تھا اور بلاوجہ خداتعالیٰ کی ناشکری کر رہا تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ فطری طور پر ہر انسان کی یہ شدید اور پہلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کو بھرپور طریقے سے کامیابی کے ساتھ گزارے، یہ سارے کاروبار اور ساری تگ و دو اِسی لئے ہے کہ زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کامیابی اور مسرت کشید کی جائے کہ خوف و افلاس اور اندیشہ مرض نہ ہو، نہ دل بے چین ہو اور نہ روح کی بے قراری ہو، روحانی، جسمانی، مالی آسودگی اور کامل اطمینان اور سرشاری ہو، اِس مقصد کے لئے کچھ لوگ تو حکومت کے طالب ہوتے ہیں، ان کے بقول ایوان اقتدار گہوارہ سکون اور گوشۂ عافیت ہے، زیادہ تر لوگ کامیابی کی چابی دولت کو سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک دولت دنیا کے ہر مسئلے کا حل ہے، ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو طاقت کو ہر کامیابی کی کلید گردانتے ہیں، لہٰذا وہ طاقتور بننے کے لئے تمام جائز ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں، اِن کے نزدیک کمزوری ہی ہر خوف اور اندیشے کو جنم دیتی ہے، اِس مادیت پرست معاشرے میں کچھ لوگ بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کسی طاقتور سیاستدان، صاحبِ اقتدار اور وڈیرے کی غلامی یا دوستی کو کامیاب گرو سمجھتے ہیں، لہٰذا یہ ساری عمر کسی بڑے اور طاقتور کی خوشامد اور غلامی کرتے ہیں کہ بوقت ضرورت یہ ان کی مدد لے کر زندگی کے مسائل حل کرسکیں۔ اِسی بے جان معاشرے میں کچھ جرائم پیشہ ڈاکوؤں، بدمعاشوں کی غلامی کرتے ہیں، کچھ دولت مند اِن جرائم پیشہ لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اِن کو پیسے دیتے ہیں تاکہ کسی مشکل کے وقت یہ رسوائے زمانہ جرائم پیشہ لوگوں کی مدد سے یہ زندگی کے مسائل حل کرسکیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ دکھ اور سکھ، مصیبت اور راحت، غربت اور امارت، بیماری اور صحت، جوانی اور بڑھاپا، یہ ساری کیفیات انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، گردش لیل و نہار سے فرار ممکن نہیں، وقت کی ایک ہلکی سی جنبش سے دن پھرتے دیر نہیں لگتی۔ جو آج خوش ہے وہ کل دکھی بھی ہوسکتا ہے، خوشی غمی میں بھی بدل سکتی ہے، خوشحالی بدحالی کا روپ بھی دھار سکتی ہے اور شاندار طاقتور، صحت مند جسم کو بیماری کا گھن بھی لگ سکتا ہے، یہ سرد گرم، اونچ نیچ، امیری غریبی، صحت بیماری، جوانی بڑھاپا، سرشاری بیماری، عروج و زوال، طاقت کمزوری ہی وہ لمحات ہوتے ہیں، جب کسی بھی انسان کا امتحان ہوتا ہے، کسی بھی انسان کا پتہ مشکل میں چلتا ہے کہ وہ بندۂ خدا ہے یا بندۂ نفس، ساری عمر خدا کی ہزاروں نعمتوں کو انجوائے کرنے والا معمولی سی بیماری یا تنگدستی میں صبر و شکر کرتا ہے یا جزع فزاع؟ ساری عمر دولت کے انباروں میں کھیلنے والا مالی تنگی میں سراپا وقار رہتا ہے یا ضبط کے سارے بندھن توڑ کر سراپا احتجاج اور رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے یا دنیاوی جھوٹے خداؤں کی چوکھٹ پر سجدے کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی انعامات کی برسات ہورہی ہو تو خدا پرستی اور اگر وقت کی ہلکی سی کروٹ سے حالات خراب ہوجائیں تو میرا نماز اور عبادت کو دل نہیں کرتا، یہ ہے خدا کی عبادت اور عشق، ہائے کاش ہم مشکل میں بھی خدا کا دامن نہ چھوڑ دیں۔ اسلام نے اللہ کے ذکر کو اطمینان قلب قرار دیا ہے، خوف خدا اور آخرت کو سکون کا ضامن کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، ایک بار آقائے دو جہانؐ نے ارشاد فرمایا کون ہے جو مجھ سے یہ احکام لے جائے اور اِن پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھائے جو انہیں اختیار کرے، میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ وہ میں ہوں، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے پانچ باتیں بتلائیں، فرمایا
ایک ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچاؤ جنہیں خدا نے حرام قرار دیا اور اگر تو ان سے بچے گا تو تیرا شمار بہترین بندوں میں ہوگا۔
دو جو چیز خدا نے تیری قسمت میں لکھ دی ہے اس پر راضی اور شاکر رہ، اگر تو ایسا کرے گا تو تیرا شمار دنیا کے غنی ترین لوگوں میں ہوگا۔
تین تو اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کر اگر تو ایسا کرے گا تو مومن کامل ہوگا۔
چار جو چیز تو اپنے لئے پسند کرتا ہے دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کر، اگر ایسا کرے گا تو کامل مسلمان ہوگا۔
پانچ اور زیادہ نہ ہنس اِس لئے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔
محترم قارئین یہ پانچ باتیں زندگی کے وہ اصول اور انمول تحفہ ہیں، اچھا انسان، غنی، مومن، مسلمان اور زندہ دل بننے کے لئے خدائے بزرگ و برتر کی عبادت، قناعت، حسن معاشرت، مساوات اور متانت یہ باتیں اور سنہری اصول سرتاج الانبیا مالکِ دو جہانؐ نے یہاں فرمائے، آپؐ کی زبان اقدس سے نکلنے والا ہر لفظ ہیرے جواہرات سے بڑھ کر ہے، سکون اور اطمینان قلب کے لئے ہمیں سیرت رسولؐ اور رب ذالجلال کی اطاعت کرنا ہوگی تب ہی ہم حقیقی سکون اور اطمینان پا سکیں گے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل