Tuesday, June 10, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کانگو بخار

رانا اعجاز حسین

کانگو بخار کا باعث بننے والے خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں، مگر شہریوں میں اس سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر کا شعور اُجاگر کئے بغیر اس مرض سے مکمل نجات اور ہلاکتوں میں کمی ممکن نہیں۔ اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کانگو وائرس جانوروں کی کھال پر موجود خون چوسنے والے ِٹک (ایک قسم کا جراثیمی کیڑا، جسے عام طور پر چیچڑ کہا جاتا ہے) کے ذریعے پھیلتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاً بھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس (چیچڑ) کا کام جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستے رہنا ہے، لیکن چند ایک چیچڑوں میں کانگو وائرس موجود ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کے کنٹریکٹ میں آتا ہے، یہ انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے، یعنی اگر متاثرہ چیچڑ کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ فوری کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں اور ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
کانگو وائرس جس کا سائنسی نام کریمین کانگو ہیمریجک فیور (ھیموریجک فیور) ہے۔ یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس کی چار اقسام ہیں، ڈینگی وائرس (ڈینگی)، ایبولا وائرس (ایبولا)، لیسا وائرس (لاسا)، ریفٹی ویلی وائرس (رفٹ ویلی)۔ یہ وائرس زیادہ تر افریقہ اور جنوبی امریکا، مشرقی یورپ، ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ افریقی علاقوں سے چلا، اسی وجہ سے اسے افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے۔ یہ مرض سب سے پہلے 1944ء میں کریمیا میں سامنے آیا، تبھی اس کا نام کریمین ہیمبرج رکھا گیا۔ پاکستان میں کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھیں جو 6 فروری 2002ء کو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے ساتھ گئیں اور 13 فروری کو ان کی موت واقع ہوگئی۔ بعدازاں ہولی فیملی اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ (جس نے سلمیٰ کا علاج کیا تھا) وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کانگو وائرس کی واضح علامات یہ ہیں۔ جب کسی کو یہ وائرس لگ جائے تو اس انفیکشن کے بعد متاثرہ مریض تیز بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسے سر درد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے اور آنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلز کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے، جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور کچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، متاثرہ مریض کی جلد کے مساموں سے خون رسنے لگتا ہے۔ خاص کر مسوڑھوں، ناک اور اندرونی اعضاء سے خون خارج ہونے لگتا ہے اور یوں خون بہنے کے باعث ہی مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ مرض اس تیزی سے پھیلتا ہے کہ متاثرہ شخص ایک ہفتے کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جبکہ صفائی کی ناقص صورتِ حال سے جانوروں میں پیدا ہونے والے خطرناک چیچڑ اس بیماری میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ جانوروں کی بڑی تعداد کھیت کھلیانوں، کھلے میدانوں اور پہاڑی علاقوں میں پرورش پاتی ہے، عید قربان سے قبل انہیں شہری علاقوں میں منتقل کیا جاتا ہے، جہاں ان کی بڑی تعداد میں سے چند ایک بیمار بھی ہوتے ہیں۔ اگر جانوروں کی شہروں میں منتقلی کے دوران جراثیم مار اسپرے اور مناسب احتیاطی تدابیر نہ اختیار کی جائیں تو جانوروں سے انسانوں میں خطرناک بیماریوں کی منتقلی کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔
اس بخار کا زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو لائیو اسٹاک اور ذبیحہ خانوں سے منسلک ہوتے ہیں، ایسے تمام افراد میں یہ بخار عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ کانگو بخار ایک سے دوسرے انسان میں خون، متاثرہ شخص کے اعضاء، رطوبت اور جسمانی تعلقات سے پھیلتا ہے جبکہ طبی عملے نے اگر اپنا حفاظتی لباس نہ پہنا ہو، ان کو متاثرہ شخص کا علاج کرتے ہوئے یہ لاحق ہوسکتا ہے، متاثرہ مریض کے لئے استعمال کیے گئے طبی آلات اگر کسی اور شخص کے لئے استعمال کیے جائیں تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہوسکتا ہے۔ کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلیٰ کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہوسکتے ہیں۔ جانوروں میں اس خطرناک مرض کی علامات نظر نہیں آتیں، تاہم چیچڑوں کو ختم کرنے کے لئے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جانا چاہئے۔ اور اگر کسی بھی شخص میں کانگو فیور کی علامت نظر آئے تو اس کو فوری اسپتال منتقل کرنا چاہئے، بلاشبہ بروقت علاج سے بہت سی جانیں بچ سکتی ہیں۔
اس مرض سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ ہرممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں، لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔ مویشی منڈی کا رُخ کرتے وقت احتیاطی طور پر کپڑوں اور جلد پر چیچڑوں سے بچاؤ کا لوشن لگائیں، کیوں کہ بیمار جانوروں کی کھال اور منہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوتے ہیں جن کے کاٹنے سے مختلف امراض لاحق ہوسکتے ہیں، جانور خریدنے سے قبل اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ کہیں وہ بیمار تو نہیں، مویشی باندھنے کی جگہ پر چونے کا چھڑکاؤ کرتے رہیں۔ ہرممکن احتیاط اور بروقت علاج سے ہی ان جان لیوا بیماریوں سے نجات ممکن ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل