رباعیات
جہل عصبیت میں جو، بٹ جاتا ہے
وہ اپنی ہی خواہش میں سمٹ جاتا ہے
جو غصب کیا کرتا ہے حق دار کا حق
تخت اُس کی اِمَارَت کا الٹ جاتا ہے
میرٹ کا گلہ گھونٹ رہے ہو کب سے
اِس ظلم پہ کچھ خوف نہیں ہے رب سے
جس روز سے جاری ہے یہ کوٹا سسٹم
اولادِ مہاجر پہ ستم ہے کب سے
بیداد تمہاری ہے، ہمیں پر طاری
اِس چکّی میں ہے، قوم مہاجر ساری
میرٹ پر مسلط ہے جو کوٹا سسٹم
کب تک یہ ستم، رکھو گے آخر جاری
میرٹ کے جنازے پہ اے چلنے والو
اے کوٹے کی بنیاد پہ پلنے والو
حق داروں کا حق مارو گے آخر کب تک
بیداد کی قے پی کے اُچھلنے والو
یوں اپنا گڑھا پاٹو گے آخر کب تک
میرٹ کا گلا کاٹو گے آخر کب تک
بیداد مہاجر یہ ہے کوٹا سسٹم
تم اِن کا لہو، چاٹو گے آخر کب تک
اس چکی میں پستے ہیں مہاجر سارے
اب دن کو نظر آتے ہیں ان کو تارے
میرٹ کی جگہ جاری ہے کوٹا سسٹم
جابوں کے لئے پھرتے ہیں مارے مارے
انصاف میں چالیس برس سے ہے بگاڑ
یہ قومِ مہاجر کے لئے باندھی ہے باڑ
میرٹ کے مقابل تو یہ کوٹا سسٹم
ناقابلِ تسخیر ہے اک اونچا پہاڑ
میرٹ پہ جو بیداد ہے مہم جاری
ہے اِن کی معیشت پہ یہ ضربِ کاری
ہے سب سے بڑا ظلم یہ کوٹا سسٹم
کب تک یہ مہاجر پر رکھو گے طاری
پامال ہو جب عدل اکڑ جاتے ہیں
سب رشتے اخوت کے بگڑ جاتے ہیں
جب بھائی کا حق بھائی دبا لیتا ہے
اس بات پہ ماں جائے، لڑ جاتے ہیں
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
—————————————–
—————————————–
غزل
برنگِ شاہدِ مئے بینر میخانہ گزر جاؤ
پلا کر پیار کا پُرکیف پیمانہ گزر جاؤ
تمہیں حق ہے حسیں ہو بے نیازانہ گزر جاؤ
دلوں کی التجا ٹھکرا کے شاہانہ گزر جاؤ
دو عالم حسن کا حاصل خدائی حسن کی ہر سو
وہ کعبہ ہو، کلیسا ہو کہ بتخانہ گزر جاؤ
تحّمل سے، تامّل سے، تجاہُل سے، تغافُل سے
بنا کر چاہنے والوں کو دیوانہ گزر جاؤ
خیالِ بے رُخی کیسا، ملالِ کج نگاہی کیا
مرے پہلو سے بن کر صاف بیگانہ گزر جاؤ
مری بابت جو باتیں ہورہی ہیں ہُوش والوں میں
یہ افسانہ ہے، افسانہ ہے افسانہ گزر جاؤ
خلافِ غیرتِ حسن حرم ہے جلوہ آرائی
ہجوم انجمن سے جانِ کاشانہ گزر جاؤ
کسی بُہتان سے ڈرنا نہیں شانِ زلیخائی
زمانے کی ملامت سے زلیخانہ گزر جاؤ
محبت سُرخرو ہوتی نہیں ایثار سے پہلے
وفا کی راہ سے مانندِ پروانہ گزر جاؤ
دل کاوشؔ میں پہلی سی وہ رونق اب کہاں باقی
یہ ویرانہ ہے ویرانہ ہے ویرانہ گزر جاؤ
کاوشؔ عمر
—————————————–
—————————————–
متفرقات
وہ گُل کہ جس کو اپنے تبسم پہ تھا غرور
دیکھا تو سب سے پہلے وہی شاخ پر نہ تھا
وہ بے دریغ کاٹ رہا تھا سروں کی فصل
کچھ دیر بعد اس کی بھی گردن پہ سر نہ تھا
طوفان کے آنے کی خبر دیتے ہیں سب لوگ
لیکن کوئی تعمیر نہیں کرتا سفینہ
مجھے قلم، فرہاد کو شیشہ، مجنوں کو کشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا انمول دیا
دلوں کے بعض دلوں سے نکل نہیں پاتے
یہ سانپ اپنے بلوں سے نکل نہیں پاتے
آنکھوں میں اشک، لب پہ خموشی نظر اداس
یہ خط کسی کے نام ہے لیکن کھلا ہوا
قصداً جو گرفتار محبت نہیں ہوتا
وہ دل ہی خیال اپنی طبیعت سے بری ہے
میں آئینہ ہوں مجھے اپنے روبرو رکھئے
مرا بھرم نہ سہی اپنی آبرو رکھئے
بھٹک رہے ہیں دوراہے پہ قافلے کتنے
نہ راہبر میں کوئی فرق ہے نہ رہزن میں
ہیں آج پھر وہی سپاہی چور اور بابا
بلایئے تو کہاں ہے خرد کی مرجینا
خیال آفاقی
—————————————–
—————————————–
غزل
کیا کہا واعظا! میکشی چھوڑ دیں
تیرے کہنے پہ کیا زندگی چھوڑ دیں
ایک بیکار ضد، ایک ناحق اَنا
میں نے بھی چھوڑ دی، آپ بھی چھوڑ دیں
گھر مقفل رہیں خوف کے شہر میں
ایک کھڑکی مگر اَدھ کھلی چھوڑ دیں
ظلم کے دور میں بھی یہ خاموش ہیں
شاعروں سے کہو شاعری چھوڑ دیں
کتنے بُت ہم کو اپنا بڑا مان لیں
ایک بُت کی اگر بندگی چھوڑ دیں
فیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے جانِ جاں
بے خودی چھوڑ دیں یا خودی چھوڑ دیں
یہ زباں ہے ضروری غزل کے لئے
کیسے ممکن ہے ہم فارسی چھوڑ دیں
شہر ویراں ہوا ہے تو روتے ہیں کیوں
میں تو کہتا رہا بے حسی چھوڑ دیں
دل میں باقی رہے جذبۂ دوستی
دشمنوں کے لئے دشمنی چھوڑ دیں
باقی احمد پوری
—————————————–
—————————————–
غزل
کیا بتاؤں یہ میں نے کیا دیکھا
تم کو دیکھا کہ آئینہ دیکھا
کیا ہوا یہ مجھے نہیں معلوم
ویسے طوفان تو اُٹھا دیکھا
سب کو اپنی نگاہ میں رکھا
کیا ہے پیمانہ ظرف کا دیکھا
دیکھا میں نے بھی آج محفل میں
اُن کا اظہار برملا دیکھا
سارا الزام میرے سر رکھا
اور میں ہنس کے رہ گیا، دیکھا
سب کو اپنی نظر میں رکھتا ہوں
آپ نے میرا تجربہ دیکھا
سوزؔ اتنا ہے مجھ کو اندازہ
سوچ کا کیا ہے دائرہ دیکھا
محمد علی سوزؔ
—————————————–
—————————————–