افسانہ
عبداللطیف ابوشامل
میں حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوا۔ میرے والد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ ہماری کوئی اتنی لمبی چوڑی جائیداد نہیں تھی، بس گزربسر ہورہی تھی۔ میں نے آٹھویں پاس کی پھر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور والد کی دکان پر ہاتھ بٹانے لگا۔ 17 سال کی عمر میں میری شادی کردی گئی اور ہم میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ہماری شادی جس سال ہوئی اس وقت تحریک پاکستان زورشور سے چل رہی تھی۔ جلسے جلوس ہر طرف نعرے لگ رہے تھے اور ہندو مسلم فساد روز کا معمول تھا۔ لیکن یہاں پر میں یہ بتا دوں کہ میں اس تحریک میں شریک نہیں تھا، اب تو ہر بوڑھا آدمی کہتا ہے کہ اس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی داستانِ شجاعت سناتا ہے۔
جب پاکستان بن گیا تو ہمارا وہاں رہنا دوبھر ہوگیا۔ ہر وقت تناؤ اور فساد کی کیفیت۔ وہاں جو ہمارے پڑوسی تھے جب انہوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان چلتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ پاکستان چلیں تو انہوں نے انکار کردیا لیکن مجھے اجازت دے دی کہ میں چلا جاؤں۔ میں پاکستان پہنچ گیا۔ مگر ہمارا جو حال کیمپوں میں تھا وہ نہ پوچھو۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ میں کچھ دن تو وہاں کیمپ میں رہا اور پھر حیدرآباد پہنچا، حالانکہ لوگ کراچی پہنچ رہے تھے۔
میں حیدرآباد اس لئے پہنچا کہ مجھے اس نام سے محبت تھی، وہاں بھی حیدرآباد اور یہاں بھی حیدرآباد۔ کم از کم نام تو ایک جیسا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے ایک کھاد کی ایجنسی میں نوکری کرلی۔ میں وہاں منشی بن گیا۔ کرائے کا چھوٹا سا مکان لے لیا۔ کلیم اس لئے داخل نہ کیا کہ یہ بددیانتی تھی۔ میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے کام کیا تو مالک بہت خوش ہوا اور مجھے ایک مکان خرید کردے دیا۔ اچھا خاصا مکان تھا اور وہ ہر ماہ میری تنخواہ میں سے کچھ رقم کاٹتا۔ اس طرح ایک دن میں اپنے مکان کا مالک بن گیا۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ بڑے اور چھوٹے بیٹے کو میں نے ایک رشتے دار کے گھر کراچی بھیج دیا کہ یہاں کی پڑھائی اچھی ہے۔ وہ محنت کریں گے اور کچھ بن جائیں گے۔ انہوں نے بہت محنت کی اور اچھے عہدے بھی حاصل کرلیے۔
ہوا یوں کہ میرے دونوں بیٹوں نے انجینئرنگ کی ہے۔ اس دوران ان کا کسی امیر گھرانے میں آنا جانا ہوگیا۔ پھر وہاں انہوں نے رشتے کر لیے۔ جب ان دونوں کی شادی کا پروگرام بنا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم فلاح جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میاں بیوی نے مخالفت کی اور کہا کہ عزیز رشتے داروں میں بہت رشتے ہیں اور ان کا حق بھی ہے، لیکن وہ نہ مانے اور انہوں نے اپنی مرضی کی۔ مجبوراً ہمیں بھی سر جھکانا پڑا۔
اب اخراجات کہاں سے لاتے؟ تو ہم نے اپنا حیدرآباد والا مکان بیچ دیا، اس طرح وہاں نوکری بھی ختم کرنا پڑی۔ میرے بیٹے کہتے تھے، اب پرانے دن گزر گئے ہیں، شادی کے بعد ہم بڑا سا گھر لے لیں گے اور ساتھ رہیں گے، آپ کو کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم نے سب کچھ بیچا اور کراچی پہنچے۔ یہاں آکر کرائے کا مکان لیا اور دھوم دھام سے بچوں کی شادی کی تیاری کرنے لگے۔ عزیز رشتے داروں نے تو ناراض ہو کر بائیکاٹ کردیا تھا۔
خیر وہ دن بھی آیا جب شادی ہوگئی اور دونوں بیٹوں کی دلہنیں گھر پہنچ گئیں۔ ایک ہفتہ تو بہت اچھا گزرا۔ دونوں طرف دعوتیں ہوئیں، خوشیاں منائی گئیں اور پھر وہ منحوس گھڑی آ پہنچی جب میری دونوں بہوؤں نے یہ مطالبہ کردیا کہ وہ علیحدہ رہیں گی۔ میں تو اپنا سب کچھ ان کی شادی پر لگا چیا تھا، اب میری پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔
میرے بیٹوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ آپ اس فلیٹ میں رہیں، ہم الگ ہورہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو خرچ دیں گے۔ میں نے دل پر پتھر رکھا اور وہ اپنے سسرال کی مدد سے اچھے گھروں میں منتقل ہوگئے۔ ان کے پاس گاڑی بھی آگئی جب وہ الگ ہورہے تھے تو میری حالت بُری تھی اور میں اس لمحے کو کوس رہا تھا جب میں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنا مکان بیچ ڈالا تھا، صرف اپنے بچوں کی محبت میں مجھے یہ دن دیکھنا پڑا۔
پھر جب دو ہفتے گزر گئے اور بیٹے ہمیں دیکھنے تک نہ آئے تو میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ مکان میں داخل ہوا تو بیٹے موجود تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارا پتا بھی نہیں کیا اور دو ہفتے سے گھر بھی نہیں آئے۔ تو صاحب پھر کیا تھا، بیٹے تو خاموش رہے لیکن بڑی بہو نے کہا اب یہ آپ کے گھر نہیں آئیں گے، ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ آپ کبھی کبھی یہاں آ کر ان سے مل لیا کریں۔ میں نے کہا کہ یہ میری ساری عمر کی کمائی ہیں، انہیں کیسے چھوڑ دوں؟ تو کہا گیا یہ آپ کا فرض تھا کہ آپ انہیں پڑھاتے، شادیاں کراتے۔ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا، اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اور جب میں نے کہا اب یہ اپنا فرض کیسے اور کب ادا کریں گے؟
تو مجھے لفظ سنائی گئیں اور کہا گیا کہ آپ نے بزنس کیا تھا کہ آج آپ انہیں پال رہے ہیں کل یہ آپ کو پالیں گے، تو بزنس میں کبھی کبھار نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ آپ سمجھیں آپ کو نقصان ہو گیا اور پھر وہ مسکرانے لگی۔ میں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اب کبھی ان سے نہیں ملوں گا۔ سچ ہی تو ہے مجھے نقصان ہوگیا تھا اور جس کا نقصان ہوجائے اسے تو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ میں گھر پہنچا اور بیمار ہوگیا۔ خاصے دن تک بیمار رہا۔ میری بیٹی نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرلی، ہم نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا اور لائنز ایریا کے ایک چھوٹے سے مکان میں آکر رہنے لگے۔ عزیز رشتے داروں سے کچھ قرض لیا، انہوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اور امیر گھرانے میں بچوں کی شادی کراؤ، کار بنگلہ دیکھو، لیکن وقت گزر چکا تھا، اب کیا ہوسکتا تھا۔ پھر میں نے ہمت کی، خود کو سنبھالا اور ملازمت تلاش کرنا شروع کی۔ ایک دکان پر صفائی ستھرائی اور سیلز مین کی نوکری مل گئی، انہوں نے بوڑٖھا آدمی سمجھ کر رکھ لیا، کوئی زیادہ کام نہ تھا، لیکن تنخواہ بہت کم تھی، اس میں کرایہ بھی دینا پڑتا تھا۔ اس حادثے کا اثر یہ ہوا کہ میری بیوی شدید بیمار ہوگئی۔ وہ ہر وقت اپنے بچوں کو یاد کرتی رہتی ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ اس کے دن بھی قریب آگئے ہیں۔ مجھے اس کی تیمارداری کرنی پڑتی ہے اور یوں دکان پر ناغے ہونے لگے۔ ایک دن دکان کے مالک نے یہ کہہ کر نکال دیا کہ کام دھندا ختم ہوگیا ہے، اس لئے تنخواہ کے پیسے بھی نہیں نکل رہے، اس لئے چھٹی کرو، میں نے ایک ہزار روپے کی ٹافیاں، بسکٹ خریدے اور مختلف جگہوں پر بیچنے لگا، کسی ایک جگہ نہیں بیٹھتا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ لیکن اب سب دیکھ لیں تو اچھا ہے اور مجھ سے سبق حاصل کریں۔ نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔
بیوی گھر پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہے اور میں یہاں پر۔ میری بچی گارمنٹ فیکٹری میں کام کررہی ہے۔ اس کا رشتہ ہی نہیں آتا۔ میرے جیسے کے پاس کون لاتا ہے رشتہ! اب تو میں مایوس ہوگیا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہم دونوں کے مرنے کے بعد اس لڑکی کا کیا ہوگا؟ وہ بھی اکثر بیمار رہنے لگی ہے اور بھائیوں کو یاد کرتی ہے۔ اب کچھ دن سے ہم تینوں نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ ہم انہیں بھول جائیں گے لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
میں تو پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ خوش رہیں اور پھلیں پھولیں، ہمارا کیا ہے، زندگی اتنی گزر گئی اور گزر جائے گی۔ ہم نے ساری زندگی کام کیا ہے، اب بھی کرلیں گے، مجھے تو اب زندگی کا اتنا بھروسہ بھی نہیں رہا کہ گھر پہنچ سکوں گا، اس لئے یہ دیکھو! میں نے اپنی جیب میں لکھ کر رکھ لیا ہے کہ اگر میں کسی فٹ پاتھ یا سڑک پر مر جاؤں تو اس پتے پر پہنچا دو، آپ کا بہت شکریہ اور مہربانی ہوگی۔ لوگ کہتے ہیں بیٹے سہارا ہوتے ہیں میری تو بیٹی میرا سہارا بنی ہے۔