خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
محبت ہو تو آنکھیں بولتی ہیں
درِ دل بند ہو تو کھولتی ہیں
کوئی میزان بھی ایسی نہیں ہے
وہ آنکھیں کس قدر سچ بولتی ہیں
وگرنہ چپ ہی رہتی ہیں وہ آنکھیں
محبت کی فضا میں بولتی ہیں
بندھے ہوں بادباں جن کشتیوں کے
ہمیشہ کشتیاں وہ ڈولتی ہیں
درِحُسن سماعت وَا تو کیجئے
خموش آنکھیں بھی اکثر بولتی ہیں
چمک ہوتی جن میں زندگی کی
وہی آنکھیں تو موتی رولتی ہیں
وہ آنکھیں گھر بناتی ہیں دلوں میں
محبت کی زباں جو بولتی ہیں
سوالی ہیں تری آنکھوں سے آنکھیں
کہ بانہیں کیوں نہیں وہ کھولتی ہیں
تری آنکھوں کو آخر کیا ہوا ہے
میرا معیار کیوں کم تولتی ہیں
اُسے آخر خرد کیسے سمجھ لے
زبانِ دل وہ آنکھیں بولتی ہیں
دکھاتی ہیں عجب منظر وہ آنکھیں
کوئی بندِ قبا جب کھولتی ہیں
یہی ہے حُسن آنکھوں کا کسی کی
کہ بے صوت و صدا وہ بولتی ہیں
وہ ہم آہنگ مجھ سے کس قدر ہیں
جو میں چاہوں وہی وہ بولتی ہیں
عجب منظر صدا دیتے ہیں مجھ کو
جب آنکھیں عُرفۂ دل کھولتی ہیں
ترازو ہو کے رَہ جاتی ہیں دل میں
وہ آنکھیں جب مرا دل تولتی ہیں
کہیں تم بند کر لینا نہ ان کو
کہ یہ آنکھیں درِ دل کھولتی ہیں
جن آنکھوں میں دھنک اُترے وفا کی
وہ دل میں پیار کا رس گھولتی ہیں
نظر آتی نہیں وہ روشنیاں
فصیل شب ہی پر جو بولتی ہیں
وہ آنکھیں بند ہی رہنے دو لوگو!
جس سَم نفرت کا دل میں گھولتی ہیں
سبھی کے گُتبد بے در میں محسنؔ !
وہ آنکھیں پیار کا رس گھولتی ہیں
—————-
حبیب سحرؔ
ادراک و آگہی کی جو تطہیر ہوگئی
روشن چراغ فکر سے تقدیر ہوگئی
اک چشمِ التفات سے تسخیر ہوگئی
جاں جانِ جاں تری مری جاگیر ہوگئی
کوشش کے باوجود بھی سلجھی نہ آج تک
ہستی بھی اپنی زلفِ گرہ گیر ہوگئی
میں گامزن رہا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
رفتار وقت پاؤں کی زنجیر ہوگئی
وہ شخص ساری عمر پریشان ہی رہا
اک بھول اس سے جو دمِ تحریر ہوگئی
ہے فاصلہ جو آج ترے میرے درمیاں
دیوار ہے انا کی جو تعمیر ہوگئی
رقصاں تھا ایک خواب جو آنکھوں میں آج تک
دل چاہتا تھا جو وہی تعبیر ہوگئی
اس کو کرم نوازی اہل جنوں کہیں
جو شخصیت سحرؔ کی ہمہ گیر ہوگئی
—————-
یوسف راہیؔ چاٹگامی
لوگ کہتے ہیں
یہ بات کتنی سچ ہے
جس قدر ہیں عدالتیں اپنی
حکمرانوں کی وہ کنیزیں ہیں
جو بھی منصب ہیں
وہ یہی کرتے ہیں
حاکم وقت جو بھی کہتا ہے
حاکم وقت کے حصار ہی میں
عدالت کا منصب رہتا ہے
کوئی منصب حصار حاکم میں
نہیں رہتا کبھی یوں ہی تو اس پر
مال و دولت، پلاٹ ملتے ہیں
اور بھی خوبرو چیزیں
نذر کی جاتی ہیں اسے اکثر
فیصلہ کس لئے نہ ہو لوگو!
حکمراں کی مرضی کا
شور کرتے رہو ہزار، مگر
جو بھی ہونا ہے، بس وہی ہوگا
حاکم وقت جو بھی چاہے گا
اس کا انکار ناممکن
—————-
کاوشؔ عمر
تن پہ مانگے کا عجب پیرہن آراستہ ہے
طرزِ مغرب سے نگارِ سخن آراستہ ہے
خوشنما حرف کے پردے میں یہ موضوع جدید
جسم بے جان پہ رنگین کفن آراستہ ہے
جس کے اشعار ہیں منت کش پیمانۂ نَو
اس کے قامت پہ لباس کہن آراستہ ہے
ایسے اظہار کو ابلاغ کی توفیق کہاں
صاف لہجہ نہ حدیثِ دہن آراستہ ہے
رمز و تشبیہ و کنایہ کا زمانہ گزرا
اب علامت کی جہالت سے فن آراستہ ہے
آپ اس شخص کو مُوجد کہ مقلّد کہئے
رنگ اغیار سے جس کا چلن آراستہ ہے
اپنے اسلاف کی تہذیب و ثقافت کے خلاف
نسل موجود کے ذہنوں میں رَن آراستہ ہے
درِ خورکسب نہیں رونق تہذیب نوی
اس کی ہر موج میں بیگانہ پن آراستہ ہے
سن کے باتیں بھری محفل میں زبانی میری
جانے کس کس کی جبیں پرشکن آراستہ ہے
کیوں کروں میں دَرِ اغیار کی دریوزہ گری
مجھ میں کاوشؔ مرے آباء کا فن آراستہ ہے
—————-
ریاض ندیمؔ نیازی
حالانکہ دل میں سوزشِ غم بے شمار ہے
لیکن خطا پہ اپنی بہت شرمسار ہے
محسوس ہورہا ہے کہ برسوں کا ساتھ تھا
ملنے کی اُن سے آرزو پھر ایک بار ہے
اپنی غرض کے بندوں نے ڈالے ہیں کیا نقاب
مِلتا ہے جو یہاں وہ مِرا غم گسار ہے
سب ناتمام حسرتیں مدفون ہیں یہاں
دل ہے تو صرف رنج و الم کا مزار ہے
قلبِ حزیں ندیمؔ کبھی شادماں بھی ہو
برسوں سے آرزوئے ہوائے بہار ہے