Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

ماں

کون دیتا دُعائیں ماں کے بعد
رُک گئیں عطائیں ماں کے بعد

ہر طرف سے عداوتیں ہی ملیں
جس سے بھی کی وفائیں ماں کے بعد

اک شجر سایہ دار تھا نہ رہا
ہر طرف ہیں بلائیں ماں کے بعد

زیست سنسان ہوگئی اپنی
بڑھ گئیں دوائیں ماں کے بعد

رات دن سکون کو ترسے
یاد آئیں خطائیں ماں کے بعد

مدتوں سے اسی سوچ میں گم ہوں
ماں کو کیسے بھلائیں ماں کے بعد

کوئی بھی اُس کی جگہ لے نہیں سکتا
گھر کرے سائیں سائیں ماں کے بعد

کہتے پھرتے ہیں اب اغیار سے ہم
دیجئے مجھ کو دعائیں ماں کے بعد

کہنے کو رشتہ دار کتنے تھے
سب ہوئے دائیں بائیں ماں کے بعد

——————

ندیمؔ قادری

——————

 

سالِ نو

گز شتہ سالوں کی تلخ یادیں
وہ تلخ لمحے ، وہ تلخ موسم
وہ سارے رشتے
کہ جن کے بند ھن میں، میں جڑا تھا
وہ ساری قسمیں ، وہ سارے وعدے
کہ جن کی محور تھی ذات میری
نبا ہنے تھے،
دسمبر آ کے گزر گیا ہے
کہ سالِ نو کے اداس در پر
کھڑا ہوا ہوں، یہ سوچتا ہوں
یہ سال بھی کیا؟
گئی رْتوں کی مناسبت سے اداس ہوگا
کیا میرا پیکر غموں کا پیکر بنا رہے گا
یہ سالِ نو کی نوید آمد
ہزاروں دھڑکن کو روشنی دے
اداس دل کویہ نغمگی دے
وفا کے پھولوں کو تازگی دے
مگر کچھ ایسے بھی چارہ گرہیں
جنہیں یہ سالِ نوی کی آمد
وہ ر’ت کہ جس کو بھلا دیا ہو
چراغ یا دوں کے وہ جلائے
وہ زخم سارے جو بھر چکے ہیں
انہیں کوئی پھر ہرا نہ کر دے
چلو! کہ عہدِ وفا کریں ہم
گزشتہ یادوں کے تلخ لمحوں
کو دل سے باہر نکال پھینکیں
کسی کے حق میں ضرر کے حامل
تھی ذات اپنی
نہ کوئی ایسا قدم اٹھا ئیں
کسی کو کوئی ضرر نہ دیں ہم
گناہ سرزد نہیں ہو کوئی
سبھی کے دل پہ ہو حکمرانی
تمام رشتے نئے سرے سے
جڑیں تو پھر نہ یہ ٹوٹ پائیں
کہ سالِ نو کا یہی تقاضہ
یہی تقاضہ، یہی تقاضہ

——————

محمد علی سوزؔ

——————

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل