چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے
بیادِ احمد راہی
بارہ نومبر 1923ء۔۔۔ 2 ستمبر 2002ء
شیخ لیاقت علی
دو ستمبر 2002ء کو پنجابی اور اُردو زبان کے نامور شاعر، ادیب اور فلمی گیت نگار احمد راہی لاہور میں وفات پا گئے۔ اُن کا اصل نام غلام احمد تھا اور وہ 12 نومبر 1923ء کو مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ سال 1946ء میں احمد راہی کی ایک اُردو نظم ’’آخری ملاقات‘‘ رسالہ ’’افکار‘‘ میں شائع ہوئی جو اُن کی پہچان بن گئی۔ اس کے بعد ان کا کلام برصغیر کے مختلف ادبی رسائل و جرائد کی زینت بننے لگا۔ قیام پاکستان کے بعد احمد راہی لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور اپنی ادبی صلاحیتون کے باعث ماہنامہ ’’سویرا‘‘ کے مدیر بنا دیئے گئے۔ سال 1953ء میں ان کا پنجابی زبان میں شعری مجموعہ ’’ترنجن‘‘ اشاعت پذیر ہوا، جس نے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل کی اور اُن کا شمار جدید پنجابی نظم کے بانیوں میں ہونے گال کم و بیش اُسی زمانہ میں فلموں میں گیت نگاری کا آغاز کیا۔ اُن کی پہلی فلم ’’بیلی‘‘ تھی جس میں اُن کے یہ گیت شامل تھے:
بے درد زمانہ کوئی نہ سنے ٹوٹے ہوئے دل کا فسانہ گلوکارہ پکھراج پپو
آئی ملن کی رات بنی ہے بات دُلہنیا من کی سیج سجاؤ پکھراج پپو و ساتھی
نی میں آپے لائیاں اہل جوانی دیاں مینڈھیاں گندھایاں پکھراج پپو
فلم ’’بیلی‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور یہ موسیقار رشید عطرے کی بھی پہلی فلم تھی۔
احمد راہی نے ’’بیلی‘‘ کے علاوہ پرواز (جو اداکار یوسف خان کی پہلی فلم تھی) مجرم، وحشی سردار، سوسائٹی، گمراہ، نغمۂ دل، اللہ دین کا بیٹا، خان بہادر، دلِ نادان، سلطنت، کلرک، نیلوفر، عجب خان، زرینہ، قیدی، باجی (سال 1963ء کی عیدالاضحی کی ریلیز اس فلم کے سب گیت احمد راہی نے تحریر کئے اور سب ہی مقبول عام ہوئے)، آزاد، چھوٹی سی دُنیا، رقاصہ، یتیم، پاکیزہ اور سال 1988ء کی فلم ’’بازارِ حُسن‘‘ کے علاوہ دیگر بہت سی اُردو فلموں کے لئے گیت لکھے۔ احمد راہی کی بطور گیت نگار پہلی پنجابی فلم سال 1953ء کی ’’شہری بابو‘‘ ہے۔ جس کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ اس فلم کے علاوہ انہوں نے ماہی منڈا، پینگاں، چھومنتر، پکے والی، پلکاں، گڈو، سہتی، یار بیلی، مفت بر، رشتہ، مہندی والے ہتھ، بھرجائی، اِک پردیسی اک مُٹیار، وچھوڑا، باڈی گارڈ، قسمت، ہیر رانجھا (اس کلاسک فلم کے گیتوں نے تو دُھوم مچا دی تھی)، مرزا جٹ، سسی پنوں، ناجو، دل دیاں لگیاں، جبرو، دارا، سوہنا ڈاکو، جادو (ہدایت کار اقبال کشمیری کی اس فلم کے تمام گیتوں نے سال 1974ء میں موسیقی کے شیدائیوں کو مسحور کردیا تھا۔ ماسٹر عنایت حسین نے خوبصورت دُھنیں بنائیں)، لیلیٰ مجنوں، سوہنے پھل پیار دے وغیرہ شامل ہیں۔ احمد راہی کی تصانیف میں ’’ترنجن‘‘ کے علاوہ شعری مجموعے ’’رُت آئے رُت جائے‘‘، ’’رگِ جان‘‘ اور فلمی گیتوں کا مجموعہ ’’نمی نمی دا‘‘ شامل ہیں۔ انہیں 1977ء میں صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ خواجہ عبدالعزیز کے یہ ہونہار صاحبزادے احمد راہی ایم اے او کالج امرتسر کے فارغ التحصیل تھے۔ نامور شاعر سیف الدین سیفؔ اُن کے ہم جماعت تھے۔
احمد راہی نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے بھی بہت کام کیا۔ بالخصوص معروف شخصیات کے بارے میں ٹی وی کے کرتا دھرتا احمد راہی کی یادداشت پر بہت زیادہ انحصار کیا کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن کے مقبول پروگرامز ’’رم جھم‘‘ اور ’’موسیقار‘‘ ان ہی کے زورقلم کا نتیجہ تھے۔ احمد راہی جتنے بڑے شاعر تھے۔ اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ اُن سے مل کر سب فرحت محسوس کرتے تھے۔ آیئے احمد راہی کے کچھ مقبول فلمی گیتون کی جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں:
بُرے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا، نظر ملا کے کوئی لے گیا قرار میرا (فلم چھومنتر، اس گیت کو زبیدہ خانم اور ظریف نے سلیم اقبال کی موسیقی میں علیحدہ علیحدہ گایا
میں وہ دیوانہ ہوں جس پر کوئی ہنستا بھی نہیں فلم آزاد، مسعود رانا
چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے فلم باجی، نسیم بیگم
دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے، بات چل نکل ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے بابو، نورجہاں
سُن و نجھلی دی مٹھری تان وے میں تواں ہو ہوگئی قربان وے
(ہیر رانجھا، نورجہاں)
جادوگرا، او جادوگرا، تیری بین دا ہویا جادو ہو یا دل میرا بے قابو جادو، نورجہاں
لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے لوٹ آؤ لوٹ آؤ پاکیزہ، نورجہاں
یاد کر کے تجھے ساری ساری رات رے میں روتی رہی شبنم کے ساتھ
(قیدی، نورجہاں)
رو رہی ہے شام غم، جلنے لگیں تنہائیاں رقاصہ، نورجہاں
نندپاری نندیا تجھے دوں گا میں سونے کی بندیا میرے ننھے کو سُلا جا
(چھوٹی سی دُنیا، احمد رشدی)