Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن

زبیر رحمان
یکم مئی 1886ء میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدوروں کی ٹریڈ یونینز اور فیڈریشنوں نے اپنے دیرینہ مطالبات کی بنیاد پر ریلیاں، ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے کئے۔ شکاگو کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی مزدوروں کی ریلیاں آئیں۔ ان کے جھنڈے سیاہ اور سرخ رنگ کے تھے۔ مزدوروں کے دیگر مطالبات میں سے کم از کم تنخواہیں مقررکروانا، حالات کارکو بہترکروانا، کم عمر کے بچوں سے کام نہ لینا،خواتین کی تنخواہیں، مرد مزدوروں کے برابرکرنا اور 8 گھنٹے کام کے اوقات کار مقرر کرنا وغیرہ شامل تھے۔ ان ریلیوں اور احتجاج کو کسی پارٹی یا کسی لیڈر نے منظم نہیں کیا تھا۔ انارکسٹ اسٹیٹ لیس سوسائٹی یعنی امداد باہمی کا سماج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ 1886ء میں یکم مئی سے 4 مئی تک جو احتجاج ہوئے اس میں اہم مطالبہ 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے سونا شامل تھا۔
اس تحریک سے قبل سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک یعنی 12/14 گھنٹے مزدوروں سے کام لیا جاتا تھا۔ یکم مئی سے شروع ہونے والا احتجاج جب 4 مئی کو پہنچا تو اختتام ہونے والا تھا اور ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ فلڈن جلوس لے کر دیر میں پہنچے تھے اور اختتامی تقریر کرکے مزدوروں کو پُرامن منتشر ہونے کی تلقین کر ہی رہے تھے کہ مزدوروں کے اجتماع میں سے ایک نامعلوم شخص نے پولیس پر بم پھینکا جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد پولیس نے مزدوروں پر اندھادھند گولیاں برسا دیں۔ جس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک ہوگئے۔ مزدور کارکنان ایلبرٹ پارسنز، جارج اینجل، ایڈولف فشر، سموئل فلڈن، مشعل شواب او اسکار نیوی کو گرفتار کرلیا گیا۔ بعدازاں انہیں پھانسی، عمر قید اور قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ جن چار عظیم کارکنان کو پھانسی کی سزا سات ماہ بعد نومبر میں سنائی گئی، ان میں آگسٹ اسپائیز، ایلبرٹ پارسنز، ایڈولف فشر اور سیموئل فلڈن تھے۔ انہیں سفید رنگ کا کفن پہنا کر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ راستے میں جاتے ہوئے یہ چاروں کامریڈ مزدوروں کا عالمی ترانہ ”زمین کے بدبخت ساکنوں، بھوکے نادار قیدیو، اٹھو کے اب آنے والا ہے نیا چلن، ہم کچھ نہیں تھے اب سب کچھ ہوں گے، گاؤ انٹرنیشنل۔“ گاتے ہوئے تختہ دار پر پہنچے۔ پھانسی پانے سے قبل اگسٹ نے یہ نعرہ لگایا کہ (Hurray Anarchism) ”ہرے انارکزم“ یعنی انارکزم زندہ باد۔ پھر جب دوسرے کامریڈ نے کچھ بولنے کی اجازت مانگی تو جلاد نے پھانسی کی رسی کھینچ دی ؎
چھو رہے تھے ظالموں کے سر میرے پاؤں کے ساتھ
کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد
کمرہ عدالت میں پھانسی کی سزا سنانے کے بعد ان عظیم سپوتوں نے کہا کہ ”تم ہماری آواز آج دبا سکتے ہو لیکن یہ آواز کل تلوار بن کے نکلے گی۔ ان کے پھانسی پانے کے چند ماہ بعد شکاگو کے میئر نے یہ بیان دیا تھا کہ پھانسی پانے والے مزدور معصوم اور بے گناہ تھے۔ انارکسٹوں نے یہ قربانی خود دی۔ کوئی حکومت، پارٹی یا لیڈر نے نہیں دی۔ چند برس بعد امریکی حکومت، اقوام متحدہ اور دُنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کرلیا گیا۔ یورپ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت بہت سے ملکوں میں ان ہی اوقات پر عمل کیا جاتا ہے اور یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر چھٹی ہوتی ہے، لیکن آج بھی جاپان، عرب بادشاہتوں، ایران اور کئی ملکوں میں یکم مئی پر چھٹی نہیں دی جاتی ہے۔ مزدوروں نے تو پھانسی پر چڑھ کر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروا لی۔ یہ ڈیوٹی متوسط طبقے، افسران اور نوکرشاہی بھی اس سے مستفیض ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ دُنیا بھر میں کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ یہ ڈیوٹی مزدوروں نے کروائی تھی۔ ہمارے حکمران اکثر انارکزم کو افراتفری کے معانی میں لیتے ہیں، جب کہ یونانی زبان میں انارکو کا مطلب بلاحکومت اور اقتدار کے کارہائے زندگی کو رواں رکھنا ہے جب کہ لاطینی زبان میں اسے انارکائی کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں امداد باہمی کا آزاد سماج یا کمیون نظام ہزاروں کی تعداد میں قائم ہیں۔
فرانس میں تو 5 ہزار سے زیادہ ”کمیون“ اجتماعی سماج قائم ہیں۔ یہاں 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔ مل کر پیداوار کرتے ہیں اور مل کے بانٹ لیتے ہیں۔ فرانس میں تو مزدور مزید ہڑتالیں کرکے ہفتے میں 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کروالی ہے، تحریک نے ”پیلی جیکٹ“ کے نام سے فرانس میں ڈیڑھ سال تک مظاہرے کئے اور اپنے بیشتر مطالبات منوائے۔ امریکا میں سیاہ فام مزدور جارج فیلڈ پولیس افسر کے ہاتھوں قتل ہونے کے خلاف انارکسٹوں نے زبردست تحریک چلائی اور اب عدالت نے جارج کے قاتل پر فرد جرم عائد کردی ہے اور اسے گرفتار کرکے ہتھکڑی لگا کر لے جایا گیا۔
پاکستان میں اب بھی 10 اور 12 گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے۔ لاکھوں نوعمر بچوں کو معمولی تنخواہیں دے کرکام کروائے جاتے ہیں۔ خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں سے کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ پاکستان کے 95 فیصد مل فیکٹری اور کارخانے حفظان صحت اور لیبر قوانین کے مطابق نہیں چلتے۔ اس کی بدترین مثال علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 268 بے گناہ اور معصوم نوجوان مزدوروں کی ہلاکت ہے۔ بیشتر کارخانوں میں یونین بنانے کی آزادی نہیں ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ مزدور ٹھیکیداری نظام کی قید میں کام کرنے پر مجبور ہیں، جنہیں حکومتی لیبر قوانین کے مطابق کوئی سہولت میسر نہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی کم ازکم تنخواہ 17500 روپے 90 فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی۔ آئے روز غیرمحفوظ فیکٹریوں اور کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ملتی ہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل