Friday, July 25, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یمن کے حوثی اور اسرائیلی سازش

سید زین العابدین

 دوہزار پندرہء میں یمن میں صدر عبدالرب منصور ہادی کے خلاف کامیاب عوامی بغاوت کے بعد سعودی عرب کو خطرہ لگا تو یمن پر حملہ کردیا جسے آپْریشَن ٹھنڈر اسٹروم کا نام دیا گیا تھا، سعودی بادشاہوں کا دعویٰ تھا کہ دو سے تین ہفتوں میں باغی حوثی قبائل پر قابو پا لیں گے، یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ یمن تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ کی آبادی کا ملک ہے جس کا رقبہ 5 لاکھ 27 ہزار 968 مربع کلومیٹر ہے، 52.61 ارب امریکی ڈالر کی معیشت فی کس آمدنی 2400 امریکی ڈالر سالانہ، معاشی خوشحالی کے اعتبار سے دنیا میں 136 واں نمبر ہے، اسی اعتبار سے عسکری طاقت بھی ہے جبکہ یمن کے شمال میں سعودی عرب جیسا جزیرہ نما عرب کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 21 لاکھ 49 ہزار 690 مربع کلومیٹر ہے، آبادی تقریباً 3 کروڑ 22 لاکھ 80 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، 13 صوبوں کے اس ملک کی معیشت 689 ارب امریکی ڈالر ہے، فی کس آمدنی 55229 امریکی ڈالر سالانہ ہے، اس طرح سعودی عرب کے شہری دنیا کے 12 ویں متمول ترین افراد ہیں۔
عسکری طاقت میں سعودی عرب کے پاس 2 لاکھ 33 ہزار 500 فوجی، 7960 ٹینکس، 25000 بکتربند گاڑیاں، 675 جنگی بحری و فضائی جہاز اور دیگر سامان ہیں۔ اس کے علاوہ اتحادی افواج کی طاقت اور متحدہ عرب امارات کے 497 جنگی جہاز بھی مددگار ہیں لیکن اتنی بڑی معاشی و عسکری طاقت ہونے کے باوجود یمنی عوام و حوثی قبائل ڈٹے ہوئے ہیں، 40 مہینے سے جاری اس جنگ میں اب تک حوثیوں کا کنٹرول کمزور نہیں پڑ سکا ہے۔
سعودی عرب یمن کو بحرین کی طرح اپنی کالونی بنا کر رکھنا چاہتا تھا جیسا کہ بحرین کو بنا کر رکھا ہوا ہے جبکہ قطر اس کے اثر سے نکل چکا ہے، قطر کے معاشی بائیکاٹ نے قطر کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا، چونکہ یمن کے زیادہ تر لوگ سعودی عرب میں کم اجرت پر مزدوری کرتے رہے ہیں، سعودیوں کا خیال تھا کہ تزویراتی اہمیت کے اس ملک پر اثر برقرار رکھنا ضروری ہے کیونکہ معدنی ذخائر رکھنے والے اس ملک کی بندرگاہ عدن کی تزویراتی اہمیت ہے، عدن مشرقی بحیرہ احمر پر واقع ہے، اس خلیج کے دوسری جانب افریقی ملک صومالیہ ہے، دوسری بندرگاہ الحدیدہ جو ریڈ سی پر واقع ہے اور یمن کا چوتھا بڑا شہر ہے، بابِ المندب بھی ساحلی شہر ہے، یہ آبنائے ایشیا اور افریقہ کو جدا کرتی ہے، اس کی ایشیائی جانب یمن اور افریقی رُخ پر جبوتی واقع ہے۔
تعز دارالحکومت صنعا اور عدن کے بعد تیسرا بڑا شہر ہے، سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک کو امریکا کی مدد سے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے، خطے میں ایران اور حزب اللہ کے رعب کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یمن کا صحرائی اور پہاڑی علاقہ داعش اور نام نہاد جہادی گروپس کے لئے جنت ہوسکتا تھا، یہاں ٹریننگ کیمپس اور محفوظ ٹھکانے بنائے جاسکتے تھے یعنی دہشت گردوں کی فیکٹریوں کے لئے مناسب ماحول موجود تھا، دہشت گرد یمن میں رہتے اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر کسی بھی اسلامی ملک میں بھیجے جاسکتے تھے لیکن کم سامانِ حرب رکھنے والے حوثیوں نے یہ سارے منصوبے ناکام بنا دیئے۔ اس لئے یمن کے سابق حکمران عبدالرب منصور ہادی کے خلاف جب عوامی بغاوت ہوئی تو سعودی عرب یمن پر چڑھ دوڑا، 40 مہینے کی اس جنگ کے بعد سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج نے 13 جون 2018ء کو الحدیدہ بندرگاہ پر فضائی حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ الحدیدہ ایئرپورٹ پر اس کا قبضہ ہوچکا ہے لیکن غیرجانبدار میڈیا نے سعودی عرب کے دعوے کو درست قرار نہیں دیا، البتہ سعودی فضائی حملے سے بڑی تعداد میں نہتے عوام کے مارے جانے کی اطلاعات دیں، فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے خبر دی کہ اس کی اسپیشل فورس الحدیدہ حملے میں سعودی عرب کی مددگار تھی، اس حملے میں حوثیوں کی جوابی کارروائی سے درجنوں فرانسیسی، 30 امریکی، 20 اسرائیلی اور سینکڑوں عرب امارات اور سعودی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ گرفتار ہونے والوں میں امریکا، اسرائیل کے ساتھ فرانس کے فوجی بھی شامل تھے، اس لئے فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے تنقیدی خبر چھاپی۔ یمنی فوج نے بی-16 طیارہ بھی مار گرایا، اس نوعیت کا جنگی جہاز صرف اسرائیل کے پاس ہے، الحدیدہ حملے میں اتحادی افواج نےجی یوبی-28 نکر بسٹر بمس کا استعمال کیا جو اسرائیلی ساخت ہے، ماضی میں اس بم سے حملے کی دھمکی اسرائیلی ایرانیوں کو دیتے رہے ہیں، اتحادی افواج کے حالیہ حملے سے حوثیوں کا بھی بڑا نقصان ہوا، یمنی سیاسی کونسل کے صدر صالح الصماد زخمی ہوئے جن کی بعد میں شہادت ہوگئی، الصماد کے بعد مہدی محمد حسین المشاط کونسل کے نئے صدر بن گئے، حسین المشاط نے جنیوا میں کویت، عمان اور یمن کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، سیاسی سوجھ بوجھ اچھا رکھتے ہیں، کونسل کے صدر بننے سے قبل وہ صوبے تعز کے آرگنائزر تھے، عوامی انقلاب سے قبل صدر منصور ہادی نے 55 اشتہاری رہنماؤں کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا ہوا تھا۔ دوسری جانب انصاراللہ کے کمانڈر سید عبدالمالک بدرالدین حوثی کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے سامنے کسی طور پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے، انصار اللہ کو یمن کی سیاست سے باہر رکھنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا، امریکا یمن کی جنگ کے نام پر سعودی حکمرانوں کو لوٹتا رہے گا، سعودی حکمران امریکا کے لئے اُس گائے کی مانند ہیں جن کا دودھ امریکا دوھتا رہے گا، یمن کے مسئلے پر سعودی اور اسرائیل کی مشاورت ڈھکی چھپی نہیں ہے، 22 جون 2018ء کو نیتن یاہو سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اردن کے شاہی محل میں ملاقات ہوئی جس میں متحدہ عرب امارات کے حکام اور اردن کے حکمران شاہ عبداللہ بھی موجود تھے جبکہ محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیراعظم کی علیحدہ بھی ملاقات ہوئی، ایک سال قبل اردن کے شاہ عبداللہ اسرائیلی وزیراعظم سے مل چکے تھے، شاہ عبداللہ اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کی کوششوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نیتن یاہو کے قریب آئے، اس قربت کی وجہ ایران کا جوہری پروگرام اور حزب اللہ ہیں، اس کے علاوہ یمن کی 1800 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جو سعودی عرب سے ملتی ہے اور یہ علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے، یمن کی عوامی تحریک سید حسین الحوثی نے 1990ء میں شروع کی تھی، 2005ء میں ان کے مارے جانے کے بعد بدر الدین الحوثی نے کمان سنبھالی جو حسین الحوثی کے والد تھے، ان کی وفات کے بعد اس وقت انصاراللہ کی کمانڈ ان کے دوسرے بیٹے سید عبدالمالک حوثی کے ہاتھ میں ہے، 1987ء میں علی عبداللہ صالح یمن کے صدر بنے، 1990ء میں شمالی اور جنوبی یمن متحد ہوئے، 1994ء میں یمن کی داخلی جنگ ختم ہوئی، 1999ء میں وہ یمن کے پہلے صدر منتخب ہوئے، 2011ء میں عوامی مخالفت پر وہ مستعفی ہوگئے۔ حوثیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی رکھے، ان کے بعد عبدرب منصور ہادی یمن کے صدر بن گئے، 4 دسمبر 2017ء کو علی عبداللہ صالح قتل ہوگئے، فروری 2015ء میں منصور ہادی کے خلاف عوامی احتجاج ہوا، وہ بھاگ کر ریاض چلے گئے، حوثی کمانڈر سید عبدالمالک حوثی کے مطابق منصور ہادی اور ان کی کابینہ کے وزرا سعودی عرب میں قید ہیں کیونکہ وہ یمن میں سعودی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے تھے، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ملائیشیا کے حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مہاتیر محمد نے بھی خاجہ پالیسی کی ازسرنو ترتیب کا فیصلہ کیا ہے، ملائیشیا وزیراعظم عبدالرزاق کے دور میں سعودی درخواست پر اتحاد میں شامل ہوا تھا، مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ عربوں کے باہمی جھگڑے سے ملائیشیا دور رہے گا، یمن ایک برادر اسلامی ملک ہے، اس کے خلاف کسی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے، ملائیشی وزیر دفاع محمد سابو کا کہنا ہے کہ ہم دو مسلمان ملکوں کے درمیان لڑائی کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے، اتحادی افواج سے نکلنے کا فیصلہ جلد ہوجائے گا، تیونس اور مصر میں بھی اتحادی افواج سے نکلنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، سعودی عرب اور یمن کی لڑائی امہ کے مفاد کے سخت خلاف ہے، یمن کی جانب سے سعودی جارحیت کے خلاف میزائل حملے سعودی عرب کے لئے خطرناک ہیں، انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام کہتے ہیں کہ 2018ء کو میزائل حملوں کا سال قرار دیا ہے، رواں سال سعودی عرب پر تین بڑے میزائل حملے کر چکے ہیں، بدرا نامی بیلسٹک میزائل دشمنوں کی تباہی کے لئے تیار ہیں، الحدیدہ کے فضائی حملوں میں ہزاروں یمنی خواتین، بچے، بزرگ شہید ہوئے ہیں، جس کا بدلہ لیا جائے گا۔

مطلقہ خبریں