Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یمن جنگ اور مذاکرات

یمن جنگ میں 60 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں، 14 دسمبر کو جنگ بندی کے 3 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا، عرب اتحاد جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے، یمنی حکومت کا وفد صنعا کے بجائے ریاض سے آیا تھا، صنعا ایئرپورٹ اور الحدیدہ بندرگاہ پر حوثیوں کا کنٹرول برقرار، عرب اتحاد کے بعد عرب نیٹو بھی حوثیوں پر غلبہ نہ پا سکا، عرب ملکوں پر سعودی اثرات ختم ہوتے جارہے ہیں

سید زین العابدین

یمن جنگ کے خاتمے کے لئے سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں کامیاب مذاکرات کے باوجود سعودی عرب اور اتحادی طیاروں کی بمباری وقفے وقفے سے جاری ہے۔ یمنی حکومت جس کی رٹ یمن میں ختم ہوئے تقریباً ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں، اس کے 12 رکنی وفد کی قیادت نام نہاد وزیرخارجہ خالد المیانی کررہے تھے جبکہ حوثی وفد کی قیادت سپریم سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط کررہے تھے۔ نام نہاد یمنی حکومت کا وفد ریاض سے سوئیڈن پہنچا تھا، اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھس مذاکرات کی نگرانی پر مامور تھے تاکہ فریقین میں اختلاف ہو یا کسی نکتے پر ڈیڈ لاک آجائے تو اس کا سدباب کریں۔ مذاکرات کے لئے یمنی حکومتی گروپ 5 دسمبر کو سوئیڈن پہنچا تھا، مذاکرات کے تین نکات تھے۔
الحدیدہ بندرگاہ اور صنعا ایئرپورٹ کو عدن اور سیؤن سے کنٹرول کیا جائے گا۔
قیدیوں کا باہمی تبادلہ
معیشت اور سینٹرل بینک کی صورتِ حال کو بہتر کرنا ہے۔13 دسمبر کو مذاکرات کا دور شروع ہوا اس سے قبل تقریباً ایک ہفتہ تک دونوں فریقین کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کی جارہی تھی، مذاکرات میں الحدیدہ بندرگاہ اور صنعا ایئرپورٹ کے کنٹرول پر اتفاق نہ ہوسکا، حوثی وفد نے صنعا ایئرپورٹ سے اندرون ملک پروازیں شروع کرنے کی بات کی جس کی یمنی حکومت کے وفد نے مخالفت کی، ساتھ ہی الحدیدہ بندرگاہ کا کنٹرول کے معاملے پر بھی اختلاف رہا، اس کی اہمیت یہ ہے کہ یمن کی درآمدات و برآمدات کا انحصار الحدیدہ بندرگاہ کے فعال رہنے پر ہے۔ اس پر حوثیوں کا مکمل کنٹرول ہے، سعودی عرب اور اس کے اتحادی گروہ نے اسے حاصل کرنے کے لئے بڑی کوششیں کیں لیکن کامیابی نہ ملی۔ مذاکرات کا دوسرا دور 14 دسمبر کو ہوا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا، تینوں نکات پر اتفاق ہوگیا، جنگ بندی کا اعلان بھی ہوا لیکن اتحادی افواج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری ہے۔ معاہدے کے 24 گھنٹوں بعد اتحادی افواج نے 29 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، 27 دسمبر کو مارب کے علاقے میں یمنی فوج اور سعودی اتحاد نے مل کر حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، اس کے ساتھ صراوح ضلع میں عرب اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے بمباری کی جس سے حوثی ملیشیا کے ساتھ عوام کا بھی جانی و مالی نقصان ہوا۔
یمن کا بحران 21 مارچ 2015ء سے شروع ہوا، جب حوثی قبائل نے سعودی عرب کے زیرسایہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور عوام کی حکمرانی کی تحریک کا آغاز کیا۔ حوثی قبائل کی تحریک کو کچلنے کے لئے سعودی عرب کی زیرقیادت 15 دسمبر 2015ء کو اسلامی اتحادی وجود میں آیا۔ 34 اسلامی ممالک کے اس اتحاد کو گائیڈلائن امریکہ کی طرف سے دی گئی اور اسلحہ اسرائیل، امریکہ، برطانیہ نے فراہم کیا اور اس کے بدلے سعودی عرب اور اس کے اتحادی امیر اسلامی ملکوں سے ڈالرز سمیٹے، اس جنگ میں تقریباً 60 ہزار یمنی عوام جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ایک کروڑ 30 لاکھ افراد شدید خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یمن کے حوثیوں سے نمٹنے میں عرب اتحاد اب تک ناکام رہا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یمن کے حوثیوں سے لڑنے کے لئے نیٹو کی طرز پر عرب نیٹو کا بھی رواں برس قیام عمل میں آیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا، سعودی عرب غور کرے تو عرب ممالک اس کے سحر سے نکلتے جارہے ہیں۔ صدام کے خاتمے کے بعد عراق نکل گیا،شام، یمن، قطر بھی نکل گیا، بحرین کسی بھی وقت نکل جائے گا۔ خود سعودی عرب کے سیاسی حالات بدل رہے ہیں، شاہی خاندان کے اختلافات کی وجہ سے معاملات بگڑتے جارہے ہیں، سعودی عرب کی دولت جنگ کی وجہ سے اسلحہ خریدنے میں لگائی جارہی ہے، جس کا فائدہ امریکہ، یورپ اور اسرائیل کو پہنچ رہا ہے۔ سعودی قیادت کو یہ سوچنا چاہئے کہ مسلمان ملکوں کی آپس کی لڑائی سے صیہونیت کو تقویت مل رہی ہے، فلسطین کے مظلوم عوام پر بمباری کرکے جس کا اظہار کیا جارہا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام اسلامی ممالک کا اتحاد قائم کرکے فلسطین، کشمیر اور دیگر مظلومین کا ساتھ دیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے درندے روزانہ عوام کو شہید کررہے ہیں، اسی طرح اسرائیلی طیارے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر بمباری کررہے ہیں، لیکن بھارت اور اسرائیل کے خلاف کوئی موثر اقدام نہیں ہورہا، دونوں ملکوں کے مظالمو بڑھتے جارہے ہیں لیکن اُسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ تمام اسلامی ملکوں کی قیادت کرتے ہوئے اُمہ کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرے، ضد، ہٹ دھرمی اور غلط فیصلوں سے رجوع کرے، شام میں دولت اور عسکری طاقت کے باوجود شکست ہوچکی ہے، اب ترکی کے سر پر مسئلہ ڈال کر جان چھڑائی جارہی ہے، یمن کا مسئلہ بیٹھ کر حل کرنا ہوگا، عوام کی حمایت سے عاری قیادت کی حمایت کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، جان حوثی قبائل کی جائے یا عرب اتحاد میں شامل فوجی مارا جائے، دونوں صورتوں میں مسلمان مارے جارہے ہیں، اس کا سدباب کرنے پر غور و فکر کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں