Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یاسمین المیہ اداکاری میں تاک ماضی کی معروف اداکارہ

فلمساز و ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی اور اُن کی بیگم ملکہ ترنم نورجہاں کی پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ میں یاسمین ثانوی کردار میں آئیں
شیخ لیاقت علی
برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ میں جب بھی حسین و خوبصورت اداکاراؤں کا تذکرہ ہوتا ہے اور اُن کے چہرے نظروں کے سامنے آتے ہیں تو ذہن میں فوراً قیام پاکستان سے قبل بننے والی تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کی حسین ترین اداکارہ نسیم بانو کا نام و چہرہ سامنے آجاتا ہے، جن کو ’’پری چہرہ‘‘ جیسا خطاب ماضی کے جانے پہچانے فلمی صحافی ایم اے مغنی نے دیا تھا، پری چہرہ نسیم کے بعد بھی ایک سے بڑھ کر ایک حسین و جمیل اداکارائیں پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئیں جن میں زیبا، صبیحہ خانم، صابرہ سلطانہ، جمیلہ رزاق، مدھو بالا، ہیما مالینی، وحیدہ رحمن، ایشوریا رائے، کرینہ کپور، ریحانہ، راگنی، رانی، روزینہ، شبنم، شائستہ قیصر، صوفیہ بانو، غزالہ، کامنی کوشل، مینا کماری، نرگس، مسرت نذیر، نادرہ، نگار سلطانہ، نیئر سلطانہ، وینا، ثریا، دیبا، صائمہ، ریما، رخسانہ اور یاسمین سمیت دیگر بہت سی اداکارائیں شامل ہیں۔ ان میں آخر الذکر اداکارہ یاسمین گزشتہ 20 ویں صدی کی پچاس کی دہائی میں سلور اسکرین پر زرینہ ریشماں کے نام سے نمودار ہوئیں۔ حسین و جمیل چہرے کی حامل یہ اداکارہ ابتدا میں زرینہ ریشماں کے نام سے کچھ فلموں میں آئیں۔ بعدازاں پھر انہوں نے ’’یاسمین‘‘ کے نام سے فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلمی ناقدین و محقیقین کے بقول ’’یاسمین بھارتی اداکارہ مدھو بالا سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں اور دیکھنے والے ان دونوں میں بمشکل ہی فرق کر پاتے ہیں۔‘‘ یاسمین نے تقسیم ہند سے قبل بمبئی میں نامور فلمساز و ہدایت کار اے آر کاردار کی فلم ’’دل لگی‘‘ میں ایک مختصر سا کردار ادا کیا تھا۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد یاسمین اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بمبئی سے لاہور چلی آئیں۔ انہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے فلمساز و ہدایت کار و اداکار ظہور راجہ کی اصلاحی مذہبی فلم ’’جہاد‘‘ میں کام کیا۔ سائیڈ ہیروئین وہ بنی تھیں اور یہ فلم 1950ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسی سال انہوں نے فلم ’’امانت‘‘ میں بھی کام کیا۔ سید شوکت حسین رضوی اور اُن کی بیگم ملکہ ترنم نورجہاں کی پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ میں بھی یاسمین ثانوی کردار میں آئیں۔ ابتدائی تینوں فلموں میں یاسمین نے زرینہ ریشماں کے فلمی نام سے کام کیا۔ 1951ء کی ریلیز پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ نے خاطرخواہ کامیابی حاصل کی۔ خاص طور سے نورجہاں نے موسیقار فیروز نظامی کی بنائی دھنوں پر انتہائی خوبصورت گیت گائے۔
سال 1955ء کی فلم ’’التجا‘‘ میں ’’یاسمین‘‘ کے نام سے بطور سائیڈ ہیروئین پرفارم کیا اور یہ علمی نام انہیں بے حد راس آیا۔ ’’التجا‘‘ کے ہیرو ایس گل اور ہیروئین راگنی تھیں اور اس فلم کی موسیقی فلم کے ہیرو ایس گل ماہی نے گل حیدر کے نام سے دی تھی۔ ’’التجا‘‘ میں فلم بینوں نے یاسمین کی اداکاری کو بے حد سراہا تھا۔ 1956ء اُن کے فلمی کیریئر کا بڑا ہی فعال اور خوش قسمت سال ثابت ہوا جب اُن کی ریلیز اکثر فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ لقمان کی ’’لخت جگر‘‘، نذیر اجمیری کی ’’قسمت‘‘، مظفر طاہر کی ’’جبرو‘‘، اے شاہ شکارپوری کی ’’حقیقت‘‘، داؤد چاند کی ’’مرزا صاحبان‘‘، اسلم ایرانی کی ’’مورنی‘‘، طالش کی ’’دربار حبیب‘‘ اور اشفاق ملک کی ’’باغی‘‘ میں اُن کے جوہر کھل کے مزید سامنے آئے۔ پنجابی فلم ’’مورنی‘‘ بطور ہیروئین اُن کی پہلی فلم قرار پائی جس میں عنایت حسین بھٹی اُن کے مقابل ہیرو آئے۔ ’’جبرو‘‘ جیسی سپر ہٹ پنجابی فلم میں اکمل اُن کے مقابل آئے۔ ’’دربار حبیب‘‘ میں آغا طالش، ’’حقیقت‘‘ میں مسعود، یاسمین کے ہیرو بنے۔ ’’قسمت‘‘، ’’مرزا صاحبان‘‘ اور ’’باغی‘‘ میں اُن کے غیرمعمولی کردار تھے۔ بالخصوص ’’باغی‘‘ جیسی شہرہ آفاق کلاسک فلم میں انہوں نے پاکستان کے اولین فلمی ہیرو شاہ زمان خان المعروف سدھیر کی غمزدہ اور مجبور و بے کس بہن کے کردار میں حقیقت کا رنگ اس قدر بھرا کہ بعدازاں وہ لالہ سدھیر کی بعض فلموں میں اُن کی بہن کے کرداروں میں آئیں۔ ’’مرزا صاحبان‘‘ میں بھی وہ سدھیر کی بہن بنی تھیں۔ انہوں نے سدھیر کو اپنا منہ بولا بھائی بھی بنا لیا تھا اور سدھیر کی وفات تک یاسمین نے یہ رشتہ خوب نبھایا اور اب بھی وہ اُن کے اہل خانہ کی خبر گیری کرتی رہتی ہیں۔ مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ یاسمین نے ایم اے رشید کی ’’آس پاس‘‘، جعفر شاہ بخاری کی ’’انجام‘‘، امین ملک کی ’’نئی لڑکی‘‘، شریف نیئر کی ’’معصوم‘‘، لقمان کی ’’آدمی‘‘، جعفر شاہ بخاری کی ’’بھروسہ‘‘، مسعود پرویز کی ’’جھومر‘‘، شوکت ہاشمی کی ’’ہم سفر‘‘ عطاء اللہ ہاشمی کی ’’بھابھی‘‘، اشفاق ملک کی ’’سلمیٰ‘‘، شیخ اقبال کی ’’شہباز‘‘، لقمان کی ’’فرشتہ‘‘، افتخار ملک کی ’’ڈانڈیاں‘‘، عطاء اللہ ہاشمی کی ’’غالب‘‘، ٹی ایچ ریاض کی ’’آواز دے کہاں ہے‘‘، فرخ بخاری کی ’’پہاڑن‘‘، مسعود پرویز کی ’’سکھ کا سپنا‘‘، ریاض احمد کی ’’کالا پانی‘‘ (اس فلم میں بھی یاسمین سدھیر کی بہن بنی ہیں)۔
چوہدری لطیف کی ’’ماں بیٹی‘‘، شریف نیئر کی ’’عشق پر زور نہیں‘‘ (اس فلم میں یاسمین پر مالا بیگم کا گایا یہ سپر ہٹ گیت فلمایا گیا تھا، دل دیتا ہے رو رو دھائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے، بڑی مہنگی پڑے گی یہ جدائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے)، ثقلین رضوی کی ’’مامتا‘‘، نذیر صوفی کی ہیڈ کانسٹیبل (مرکزی کردار معروف کریکٹر ایکٹر کمار نے ادا کیا تھا) عارف نظامی کی ’’سوکن‘‘، جمیل اختر کی ’’نظام لوہار‘‘ اور سال 1970ء میں اُن کی آخری فلم ’’کوثر‘‘ منظر عام پر آئی۔ یاسمین نے جب یہ محسوس کیا کہ اُن کی فلمیں باکس آفس پر خاطرخواہ بزنس نہیں کر پائیں تو وہ فلموں سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوگئیں اور اپنی تمام تر توجہ اپنے گھریلو امور پر مرکوز کردیں۔ کم و بیش چالیس کے لگ بھگ اردو، پنجابی فلموں میں کام کرنے والی ادکارہ یاسمین آج کل لاہور میں اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے پہلی شادی معروف عکاس و فلمساز و ہدایت کار سید جعفر شاہ بخاری سے کی تھی اور بعدازاں انہوں نے شاہ نور اسٹوڈیو لاہور کے مالک اور برصغیر کے معروف فلمساز و ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی سے شادی کی۔ جن سے اُن کے تین بیٹے سید اصغر حسین رضوی، سید اکبر حسین رضوی، سید شہنشاہ حسین رضوی ہیں، تحریر کے آخری حصے میں یاسمین پر فلمائے گئے بعض نغمات کی استھائیاں:
دیکھا بھی نہ تھا ٹوٹ گیا خواب ہسانا، آغاز میں ہی ختم ہوا فسانہ
(جہاد، زینت بیگم، تنویر کنول، کریم داد)
جیا جھوم جھوم گائے، بلم جی جھوم جھوم گائے
(التجا، منور سلطانہ، قتیل شفائی، گل حیدر)
موت کو دے تو صدا اے دل نہیں رہے تیرے جینے کے دن
(باغی، کوثر پروین، مبشر کاظمی، رحمن ورما)
غربت میں کسی مظلوم کا گر دُنیا میں سہارا چھن جائے
(حقیقت، منور سلطانہ، اے شاہ عاجز، بابا چشتی)
جھلمل گوری نے ماتھے پر جھومر پہنا
(مرزا صاحبان، زبیدہ خانم و کورس، قتیل شفائی، خواجہ خورشید انور)
ان کو بہن کے رانی بن کے جانا ہے سسرال تو لے لوچوڑیاں
(معصوم، منور سلطانہ/زبیدہ خانم، قتیل شفائی، ماسٹر عنایت حسین)
دلہنیا روتی مت جانا اپنے آنسو اپنی آہیں ہم سکھیوں کو دے جانا
(جھومر، نجمہ نیازی و کورس، تنویر نقوی، خواجہ خورشید انور)
اکھیاں ملائے نہ دیکھو مورا سانور یا کچھ بتلائے نہ
(بھابھی، نسیم بیگم، طفیل ہوشیارپوری، تصدق حسین)
میرا قصور کیا ہے اے جانِ دل کے مالک
(سلمیٰ، نسیم بیگم، تنویر نقوی، رشید عطرے)
تورے دوار آئی رے بگڑں بنا دے موری
(شہباز، آئرن پروین، تنویر نقوی، خادم حسین)
دل کی دھڑکن تیری آواز ہوئی جاتی ہے، زندگی کتنا حسین ساز ہوئی جاتی ہے
(فرشتہ، نورجہاں، مظفر وارثی، رشید عطرے)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل