Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یاد ہے آج تک مجھے

کتنی تھی لاجواب وہ

مستِ مئے شباب وہ

یاد ہے آج تک مجھے

پیکر صد شباب وہ

ماہِ دو ہفتہ کی طرح

رنگ میں تھی شہاب وہ

اپنی مثال آپ تھی

رکھتی نہ تھی جواب وہ

حسن تھا اُس لاجواب

ایسی تھی انتخاب وہ

دن کا سماں تھا ہر طرف

شب میں تھی آفتاب وہ

رکھتی تھی انگ انگ میں

نشۂ بے حساب وہ

آنکھوں کی بھی زبان سے

کرتی کبھی خطاب وہ

کھل کے بَرَستی تھی مدام

ایسی تھی اک سحاب وہ

لگتی تھی جاگنے میں یوں

جیسے ہو کوئی خواب وہ

نشے میں لگتی تھی، مگر

پیتی نہ تھی شراب وہ

پڑھتا تھا جس کو بار بار

ایسی تھی اک کتاب وہ

جسم ہی کیا، کہ روح تک

کرتی تھی بار یاب وہ

لگتی تھی مجھ کو سر بہ سر

مثل شراب ناب وہ

نرمی و نازکی میں تھی

یاسمین و گلاب وہ

پڑھتا تھا جب بھی میں اُسے

لگتی تھی نئی کتاب وہ

وَصل کے بعد سر بہ سر

لگتی کھلا گلاب وہ

دل یہی چاہتا تھا بس

پڑھتا رہوں کتاب وہ

عالم قرب و وصل میں

لگتی تھی محوِ خواب وہ

——————————–
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی

——————————–

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل