میر افسر امان
’’اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘‘(الاعراف۱۵۸) ’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘(الاحزاب۲۱) مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہؓ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ آپ نبی اکرمؐ کے کچھ حالات زندگی ہم کو بتائیں، عائشہ صدیقہؓ نے تعجب سے دریافت کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا جو مجھ سے خلق نبیؐ کے متعلق سوال کرتے ہو؟(مسلم ) یعنی آپؐ کی ساری زندگی قرآن تھی۔ ۹ربیع الاول مطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ء ( الرحیق المختوم) کی صبح مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے جبکہ عام طور پر ۱۲ربیع الاول ہی مسلمانوں میں مشہور ہے۔
وحی کا نزول: غار حرا میں ایک روز اللہ نے ا پنے فرشتے حضرت جبرائیلؑ کو وحی کے ساتھ بھیجا اور فرشتے نے کہا پڑھ اللہ کے نام سے، مگر آپؐ نے کہا میں پڑھ نہیں سکتا۔ ’’پڑھو (اے بنیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘ (العلق۱۔۵)
رشتہ داروں کو دعوت: اللہ کے حکم کے مطابق پہلے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی ’’آپؐ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو ڈرائیے‘‘(الشعرآء ۲۱۴) ان کو بلا کر اللہ کا پیغام پہنچایا۔ ابو طالب نے حمایت کی اور ابو الہب نے کھل کر مخالفت کی۔ آپؐ نے تمام خاندان کو ایک بار کھانے کی دعوت پر جمع کیا کل ۴۵ آدمی تھے اور فرمایا میں ایک چیز لے کر آیا ہوں جس سے دین اور دنیا دونوں میں فائدہ ہے۔ کون اس میں میری مدد کرے گا، تمام مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ اس وقت حضرت علیؓ نے کہا میں مدد کروں گا۔ بنی ہاشم کو کیا پتہ تھا اس دعوت نے سارے عرب و عجم میں پھیل جانا ہے۔
دارالرقم میں دعوت کے پہلے ۳ سال: نبوت کے پہلے ۳ سال خفیہ طریقے سے خاص خاص لوگو ں کو اللہ کی دعوت پہنچاتے رہے مرکز حضرت ارقمؓ کے گھر کو بنایا، شروع دنوں میں حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت زیدؓ یہ سب پہلے ہی دن مسلمان ہوگئے تھے ۔
دعوت عام: پھر اس زمانے کے رواج کے مطابق پہاڑ صفا کی چوٹی پر چڑ کر اعلان کیا، یاصباحا،یاصباحا یعنی صبح کا خطرہ صبح کا خطرہ، قریش کے لوگوں کو پکارا لوگ جمع ہوگئے، آپؐ نے فرمایا اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ پہاڑ کی دوسری طرف سے دشمن حملہ کرنے والا ہے تو آپ لوگ میری بات پر یقین کریں گے۔ سب نے کہا آپؐ سچے، امین اور نیک آدمی ہیں۔ ہم ضرور یقین کریں گے۔ آپ ؐنے فرمایا لوگو! میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمہیں اللہ واحد کی طرف بلاتا ہوں، بتوں کی پوجا سے بچاتا ہوں، یہ زندگی چند روزہ ہے، سب نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، جو لوگ چند لمحے آپؐ کو سچا، امین اور نیک کہہ رے تھے۔ آپ نے جب اپنے رسولؐ ہونے اور اللہ کو ایک ماننے کا کہا تو سب فوراً مخالف ہوگئے۔
ابوطالب کو دھمکی: قریش نے دھمکی کیلئے اپنے چند آدمی ابو طالب کے پاس بھیجے انہوں نے کہا تمہارے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کو بُرا بھلا کہا لہٰذا آپ یا تو اس کو روک دیں یا درمیان سے ہٹ جائیں ہم اس کیلئے کافی ہیں، ابو طالب نے اس کا ذکر رسولؐ سے کیا مگر رسولؐ نے فرمایا یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا۔
عتبہ کی سفارت: حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے ایک نمائندہ عتبہ بن ربیعہ کو رسولؐ کے پاس بھیجا، خانہ کعبہ کے اندر عتبہ نے رسولؐ سے ملاقات کی اور آپؐ کے سامنے قریش سے منظورشدہ گفتگو رکھی اور کہا ہماری قوم کے اندر آپ ؐکا مرتبہ اور مقام ہے اب آپؐ ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس سے قوم میں تفرقہ پڑھ گیا ہے۔ آپؐ نے کہا میری سنو، آپؐ نے سورۃ حم السجدہ تلاوت فرمائی عتبہ سنتا گیا اٹھا اور سیدھا ساتھیوں کے پاس گیا۔
بنو ہاشم اور بنو مطلب کی میٹنگ: ابو طالب کو مقابلے کی دھمکی، ابوجہل کا رسولؐ کے سر پر بھاری پتھر رکھنے، عتبہ کا چادر لپیٹ کر گلا گھونٹنے، یہ سب باتیں سنگین خطرہ محسوس ہورہی تھیں اس لئے ابوطالب نے جدِاعلیٰ عبدِمناف کے دونوں صاحبزادوں ہاشم اور مطلب سے وجود میں آنے والے خاندان کو جمع کیا اور کہا اب رسولؐ کی سب حفاظت کریں ابوطالب کی یہ بات عربی حمیت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے قبول کی البتہ صرف ابولہب مشرکین سے جا ملا۔
ولید کی سفارت: ایک دفعہ خانہ کعبہ میں سرداران قریش موجود تھے، رسولؐ بھی ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ انہی دنوں حج کا موسم تھا، قریش کو فکر ہوئی کہ رسولؐ آنے والے حاجیوں میں اپنے دین کو پھیلائیں گے لہٰذا کوئی تدبیر کرنی چاہئے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ولید نے مشورہ دیا ہم کہیں گے جادوگر ہے اس بات کے بعد سب پھیل گئے اور آنے والے حاجیوں میں وہ پروپیگنڈا شروع کردیا اس سے لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ آپؐ نے دعویٰ نبوت کیا ہے ان کی اس حرکت سے دیار عرب میں آپؐ کا چرچا ہوگیا۔
تکالیف: مکہ کے ۱۳ سال میں آپؐ اور صحابہ ؓ کو بہت ستایا گیا کہ رسول ؐ نے کہا دین کے معاملے میں جتنا مجھے ستایا گیا ہے کوئی اور پیغمبر نہیں ستایا گیا۔ بازار کے اندر آپؐ لوگوں کودعوت دیتے، پیچھے ابولہب لوگوں کو کہتا یہ میرا بھتیجا ہے یہ جھوٹ کہتا ہے، خانہ کعبہ میں سجدے کی حالت میں سر پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی، گردن میں چادر ڈال کر ختم کر دینے کی کوشش کی گئی، دو بیٹیوں رقیہؓ اور ام کلثومؓ کو چچا ابولہب کے بیٹوں نے طلاق دی، طائف میں لہولہان کیا گیا، رسولؐ کا بیٹا عبداللہ فوت ہوا تو ابولہب خوش ہوا، دوستوں کو خوشخبری دی کہ محمدؐ ابتر ہوگیا ہے، ابولہب کی بیوی جو ابوسفیان کی بہن تھی رسولؐ کے راستے میں کانٹے ڈالتی تھی، آپؐ کے کافر پڑوسی جب آپؐ گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تو وہ آپؐ کے سر پر بکری کا بچہ دانی ڈال دیتے، چولہے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی، امیہ بن خلف کا وطیرہ تھا جب رسولؐ کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا، ۳ سال تک شعب ابوطالب میں محصور رکھا گیا، قتل کرنے کی اور ملک بدر کرنے کی سازش کی گئی۔ صحابہؓ کو اتنا پریشان کیا گیا کہ وہ دو دفعہ حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
قریش کی آخری سفارت:جب ابوطالب بیمار ہوئے تو قریش کو فکر ہوئی کہ ان کی زندگی میں ہی کچھ معاملہ ہوجانا چاہئے چنانچہ قریش ایک بڑا وفد جس میں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابوسفیان بن حرب اور دیگر تقریباً ۲۵ افراد آئے۔ رسولؐ نے ان کی باتیں سن کر کہا آپ لوگوں کو میں ایک ایسا کلمہ نہ بتاؤں جس کو اگر آپ مان لیں تو آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرنگیں آجائے تو آپ کی کیا رائے ہوگی، قریش یہ سن کر حیران تھے آخر ابوجہل نے کہا اچھا بتاؤ ہم ایسی دس باتیں ماننے کیلئے تیار ہیں، آپؐ نے فرمایا ’’آپ لوگ لا الٰہ الا اللہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دو، اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا ’’محمدؐ! تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو؟
طائف کا سفر: ۱۰ نبوت میں رسولؐ طائف دعوت کی غرض سے تشریف لے گئے مگر انہوں نے شریر لڑکے آپؐ کے پیچھے لگا دیئے، آپؐ پر پتھروں کی بارش کی گئی، آپؐ لہولہان ہوگئے، پہاڑوں کے فرشتے نے آکر کہا، مجھے اللہ نے بھیجا ہے آپؐ کہیں تو ان کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں مگر پھر بھی آپؐ نے ان کے ایمان لانے کی دعا کی۔
معراج: اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول ؐ کو معراج کرائی، دوسری باتوں کے علاوہ پانچ وقتہ نماز فرض کی گئی۔ دوسرے پیغمبروں سے ملاقات کرائی، جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا، پھر اسی رات بیت المقدس سے مکہ تشریف لے آئے۔
بیعت عقبہ: رسولؐ طائف سے واپس آئے اس کے بعد بیعت عقبہ ہوئی، انصارِ مدینہ نے رسول ؐ کو مدینے آنے کی دعوت دی گئی۔ ان حضرات نے آپؐ کو ایک معاہدے کے تحت مدینے میں بلایا۔
ہجرت: دو شنبہ ۸ ربیع الاول ۱۴ نبوت یعنی ۱ ہجری مطابق ۲۳ ستمبر ۶۲۲ ء کو رسولؐ اللہ قباء میں وارد ہوئے، مسلمانانِ مدینہ رسولؐ اللہ کے انتظار میں تھے۔ آپؐ کے دیدار کے لئے سارا مدینہ اُمڈ آیا، یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اسی دوران مسجد قبا کی بنیاد رکھی اور نماز ادا کی اس کے بعد رسولؐ اللہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مدینے میں مشکلات: رسولؐ کو مدینے میں بھی آرام سے اللہ کے دین کو پھیلانے کیلئے نہ چھوڑا گیا، طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالی گئیں، بدر، احد اور خندق کی جنگ کی، جنگ خندق کے موقع پر تمام عرب کے مشرکوں نے مدینے کا محاصرہ کیا مگر اُنہیں شکست ہوئی۔
فتح مکہ: رسولؐ نے ۱۰ رمضان ۸ ھ ۱۰ ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکہ کا رخ کیا اللہ نے فتح عطا کی۔ فتح مکہ کے بعد آپؐ نے عام معافی کا اعلان کیا خانہ کعبہ میں داخل ہو کر سب بتوں کو توڑ ڈالا۔
خطبہ حجۃ الوداع: رسولؐ نے پہلے اللہ کی کبریائی بیان کی پھر فرمایا، جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں، عربی کو عجمی سفید کو سیاہ پر کوئی فضلیت نہیں مگر تقویٰ، مسلمان بھائی بھائی ہیں، جو خود کھاؤ غلاموں کو کھلاؤ، جاہلیت کے تمام خون معاف، سود پر پابندی، عورتوں کے حقوق، ایک دوسرے کا خون اور مال حرام، کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید، حقدار کو حق، لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہوا، اس کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کے سمندر کو آپؐ نے فرمایا، میرے بعد کوئی بنی نہیں ہے، اللہ کی عبادت کرنا، پانچ وقت کی نماز، رمضان کے روزے، زکوٰۃ، اللہ کے گھر کا حج اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا، جنت میں داخل ہوگے۔ تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، صحابہؓ نے کہا آپ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور حق ادا کردیا۔ یہ سن کر شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے اللہ آپ بھی گواہ رہیے۔
دین یعنی دستور عمل مکمل ہوگیا: اس خطبے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا‘‘ (المائدہ۳) اب رہتی دنیا تک یہی دین غالب رہے گا۔ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اور یہ دین آخری دین ہے، قیامت تک نہ کوئی نیا نبی آئے گا، نہ نیا دین آئے گا، اب اس دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت محمدیؐ کرے گی لہٰذا ہمارے لئے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کریں، اسلام کے دستور میں جتنی بھی انسانوں کی خواہشات داخل کردی گئی ہیں انہیں ایک ایک کر کے اپنے دستور عمل سے نکال دیں اور اپنے ملک میں اسلامی نظام، نظام مصطفی، حکومت الہیہ (جو بھی نام ہو) اس کو قائم کریں او ر پھر اس دستور کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچائیں، جنت کے حقدار بنیں اور جہنم کی آگ سے نجات پائیں جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے، اپنی آخری منزل جنت میں داخل ہوں جہاں ہمیشہ رہنا ہے جہاں نہ موت ہوگی نہ تکلیف ہوگی، اللہ مومنوں سے راضی ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔