دنیا کے ہتھیاروں کے پانچ بڑے خریدار ممالک میں بھارت، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کا شمار کیا جاتا ہے
جرمنی کے ہتھیاروں کے بڑے خریدار امریکہ اور فرانس ہیں، برطانیہ کے ہتھیاروں کے خریدار مراکش اور سعودی عرب ہیں، چین کے ہتھیاروں کے خریدار پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار (برما) سرفہرست ہیں، ایس آئ پی آر آئ کی رپورٹ
ایس انجم آصف
عالمی تنازعات کے باعث ہتھیاروں کی عالمی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ سویڈن میں قائم اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئ پی آر آئ) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ بڑے ہتھیاروں کے خریدار ممالک میں بھارت، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کا شمار کیا جاتا ہے۔ جرمنی کے ہتھیاروں کے بڑے خریدار ممالک میں امریکہ اور فرانس کا شمار کیا جاتا ہے جبکہ برطانیہ کے ہتھیاروں کے خریدار ممالک میں مراکش اور سعودی عرب شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کی ہتھیاروں کی تجارت میں 6 فیصد حصہ کا ہے۔ چین کے ہتھیاروں کے خریدار ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار (برما) سرفہرست ہیں۔ واضح رہے کہ ان تینوں ممالک کے چینی ہتھیار خریدنے کی اصل وجہ بھارت کی جانب سے ہتھیاروں کی اندھادھند خریداریاں ہیں جس سے یہ تینوں ممالک خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ دنیا بھر کو ہتھیاروں کی فروخت میں پہلے نمبر پر ہے اور دنیا کی ہتھیاروں کی تجارت میں اس کا حصہ 34 فیصد کے قریب ہے۔ امریکہ کے بعد ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت میں روس کا دوسرا نمبر ہے۔ روس کی ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں حصہ 24 فیصد کے قریب ہے۔ دنیا میں ہتھیاروں کی مجموعی تجارت میں امریکہ اور روس کا حصہ 58 فیصد کے قریب بنتا ہے۔ روسی ہتھیاروں کی تجارت میں سب سے بڑا حصہ بھارت کا ہے جو ماضی میں سوویت ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے۔ بھارت اب بھی روسی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدا ہے لیکن اب اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ روسی ہتھیاروں کی طلب میں چین، بھارت اور الجزائر سرفہرست ہیں۔ اس کے برعکس امریکی ہتھیاروں کی خریداروں میں جنوبی کوریا، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا سرفہرست ہیں۔ امریکہ کے ہتھیاروں کے فروخت کی مارکیٹ خاصی وسیع ہے جبکہ روس کی ہتھیاروں کے فروخت کی مارکیٹ نسبتاً محدود ہے۔ جرمنی اور فرانس نے بے شک اپنے دفاعی بجٹ میں خاطر کمی کی ہے لیکن یہ دونوں ملک اپنے دفاعی بجٹ میں سے کم کی جانے والی رقم کو ہتھیاروں کی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر خرچ کررہے ہیں تاکہ زیادہ جدید ہتھیار تیار کرسکیں۔ اسرائیل کی ہتھیار ساز انڈسٹری نے بھی بڑی تیزی سے ترقی کی ہے اور ڈرونز کی تیاریوں اور برآمد میں اسرائیل کا نام اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے یہ ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ریسرچ کے باعث کی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا 5.4 فیصد ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کرتا ہے، جس کے باعث اسرائیل کے ڈرونز کی برآمدات امریکہ سے بھی زیادہ ہیں۔ ایس آئ پی آر آئ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے بڑے ہتھیاروں کے برآمدکنندگان میں جرمنی، فرانس، چین، برطانیہ اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے نازک حالات، اسرائیل کی جارحانی پالیسیوں کے باعث اس خطے میں جنگ کے امکانات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ سعودی عرب، مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کا خواہاں ہے جبکہ وہ ایران کے اثرورسوخ کو روکنے کا بھی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ سے 110 ارب ڈالر کے جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے کے معاہدے کرچکا ہے۔ سعودی عرب روس سے جدید ترین S-400 قسم کے ایئر ڈیفنس میزائل بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو 2010ء اور 2014ء کے درمیان 90 ارب ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار فراہم کئے۔ ایس آئ پی آر آئ کی رپورٹ کہتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر 2010ء تا 2016ء کے عرصے میں اس خطے میں ہتھیاروں کی طلب میں 86 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی طلب میں اضافے سے امریکی ہتھیار ساز کمپنیوں کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی بڑھتی فروخت کے لحاظ سے امریکی کمپنی بوئنگ کو 6.5 ارب کا اسلحہ فروخت کرنے میں مدد ملی جبکہ لاک ہیڈ مارٹن نے 1.5 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے۔ اس کے بعد امریکی کمپنی ریتھیون نے 5.3 ارب ڈالر اور ایئرلیس نے 9.2 ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کئے۔ مشرق وسطیٰ کی منڈی میں ہتھیاروں کی طلب میں اضافے سے روس بھی مستفید ہوا ہے۔ روسی کمپنی یونائیٹڈ ایئرکرافٹ کمپنی نے 9.2 ارب ڈالر مالیت کے جنگی طیارے اور ان کے اسپیئر پارٹس فروخت کئے۔ اکتوبر 2017ء میں سعودی عرب اور روس کے درمیان S-400 ایئرڈیفنس میزائلوں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کی مالیت 3 ارب ڈالر کے مساوی ہے۔ قطر نے اکتوبر 2017ء میں روس سے S-400 ایئرڈیفنس میزائل اور پنٹصر ایس-1 قسم کے جدید ترین ایٹمی ایئرکرافٹ سسٹم کی خریداری کے معاہدے کئے جبکہ آرمرڈ وہیکلز اور مین بیٹل ٹینک اس کے علاوہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور قطر جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری پر سب سے زیادہ اخراجات کررہے ہیں۔