مہنگائی ایک ایسا دہشت گرد۔۔۔ ایک ایسا بم۔۔۔ ایک ایسا مجرم۔۔۔ جو نجانے روز کتنے ہی لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔۔۔ کتنوں کو زخمی کرتی ہے اور کتنے ہی لوگوں کو تمام عمر کے واسطے معذور کر دیتی ہے۔۔۔
علی عمران جونیئر
دوستو، مہنگائی اپنے عروج پر ہے، ہر شئے کے دام آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔۔۔ اس چکی میں ویسے تو سب ہی پستے ہیں لیکن غریبوں کو زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، امراء کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، غریب اور امیر کے لائف اسٹائل سے پتا چل جاتا ہے کہ امیر کون ہے اور غریب کون ہے؟۔۔۔ پاکستان میں تین طبقے ہیں، ایک غریب طبقہ جو تعداد میں بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے امیر الیکشن جیتتے ہیں، دوسرا متوسط طبقہ جو آہستہ آہستہ اپنے غریب مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے جذبے کے تحت ان میں شامل ہورہا ہے، اور سب سے آخر میں امیر طبقہ، امیر طبقہ نایاب ہے، یہ سب سے جدا ہیں، ان کی سوچ، ان کی باتیں، ان کا رہنے سہنے کا طریقہ، ان کی تعداد صرف دو فیصد کے قریب ہے اس لئے، انہیں حکومت کرنے کے لئے چنا جاتا ہے، اب دیکھیں، سارے غریب اگر مل کر حکومت بنانے کا سوچیں تو یہ دو فیصد امیروں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔۔۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ امیر لوگ غریبوں کا احساس کرتے ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شو میں بیٹھ کر غریبوں کی مشکلات ایسے بیان کرتے ہیں، کہ غریبوں کی آنکھوں سے آنسو آجاتے ہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ گھر سے روٹی لا کر انہیں دے دیں، جو اس طرح بھوک کے دکھ کو بیان کرتے ہیں جیسے خود تین دن سے بھوکے ہوں۔
پنجابی کی بہت مشہور کہاوت ہے، ’’جناں دے گھر دانے، اونہاں دے کملے وی سیانے‘‘۔۔۔۔ یعنی جس کے پاس دولت ہو اس کے پاس ساری عقل و فہم ہوتی ہے، غریب انسان کا حال بالکل اس کے برعکس ہے۔ غریب کا بچہ ہر قسم کی صلاحیتوں سے بھرپور کیوں نہ ہو اس کا موازنہ امیر کے بچے سے کم تر ہی کیا جاتا ہے، امیر کا بچہ کوئی شرارت کرے تو لوگ کہتے ہیں۔۔۔ کتنا ’’ناٹی بے بی‘‘ ہے اور اگر وہی شرارت غریب کا بچہ کرے تو اسے ’’اسٹوپڈ چائلڈ‘‘ کا خطاب دے کر کہا جاتا ہے کہ غریب کا بچہ ہے نہ کبھی تمیز آسکتی۔۔۔ امیر کا پیسہ امیر کے لئے ہے، لیکن اس کے اردگرد کے لوگ، دوست، رشتے دار ایسے فخر محسوس کرتے ہیں جیسے وہ پیسے ان کے ذاتی ہوں، لوگ ہمیشہ چڑھتے سورج کو ہی سلام کرتے ہیں۔۔۔ امیر اگر کوئی بات کرے تو اس کو پتھر پر لکیر تصور کیا جا تا ہے، اس کے برعکس اگر غریب کوئی بات کرے تو کہا جاتا ہے کہ تمہیں کیا پتا تم نے کون سی دنیا دیکھی ہے۔۔۔ غریب کو تب عزت دی جاتی ہے جب اس سے کوئی خدمت یا مفاد حاصل کرنا ہو۔۔۔ یہ بھی اپنی جگہ تلخ حقیقت ہی ہے کہ۔۔۔ غریب کھانے کی تلاش میں بھاگتا ہے۔ امیر کھانا ہضم کرنے کے لئے بھاگتا ہے۔۔
بات امیر اور غریب کے فرق کی چل رہی تھی تو چلیں کچھ ہلکی پھلکی باتیں بھی کر لیتے ہیں۔۔۔ ذہنی امراض کے اسپتال سے ایک مریض کو رخصت کرتے وقت ڈاکٹر نے کہا۔۔۔ آپ ہمارے علاج سے صحت یاب ہوگئے۔ امید ہے اب تو آپ ہمارا بل ادا کردیں گے؟۔۔۔ مریض نے شاہانہ لہجے میں کہا۔۔۔ کیوں نہیں۔ اگر ہم نے تمہارا یہ چند لاکھ کا حقیر بل ادا نہیں کیا تو ہمیں اکبر بادشاہ کون کہے گا۔۔۔۔ اسی طرح ایک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ اپنا موبائل گاڑی میں بھول گئے تو اپنے پیچھے ڈرائیور کو آتا دیکھ کر کہا۔۔۔ تم جاؤ اور گاڑی میں سے میرا موبائل ڈھونڈ کر لے آؤ۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے ہینڈ بیگ سے موبائل بجنے کی آواز آئی تو اپنی غلطی پر شرمندہ ہوئے۔ موبائل نکال کر دیکھا تو ڈرائیور کی ہی کال تھی۔۔۔ پوچھ رہا تھا، صاحب، گاڑی میں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے موبائل نہیں ملا، آپ یاد کیجئے کہیں اور تو نہیں رکھ دیا۔۔۔؟؟ سنا ہے کراچی میں بادام 1200 روپے کلو میں فروخت ہورہے ہیں اور چھالیہ 2 ہزار روپے کلو ہوگئی، اسی لئے تو کہا جاتا ہے کراچی والوں کا دماغ چھالیہ کھانے سے چلتا ہے۔۔۔ ہمارے پیارے دوست نے جب سنا کہ فیس بک کے مالکان نے واٹس ایپ 19 ارب ڈالر میں خرید لیا تو فرمانے لگے، کتنے عجیب لوگ ہیں یہ، اتنا مہنگا واٹس ایپ خریدنے کی کیا ضرورت تھی، پلے اسٹور سے بالکل فری مل جاتا ہے۔۔۔ ایک محترمہ کی شادی کے فوری بعد دور پرے کی خالہ سے ملاقات ہوئی، خالہ نے پوچھا، شادی ہوگئی تمہاری۔۔۔ محترمہ نے جواب دیا، جی۔۔۔ خالہ نے پھر پوچھا، لڑکا کیا کرتا ہے؟۔۔۔ محترمہ نے جواب دیا۔۔۔ افسوس۔۔۔
بات ہورہی تھی مہنگائی کی۔۔۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین ماہ کے دوران چوتھی بار اضافہ کیاگیا، اس دوران 20 روپے کے قریب فی لیٹر اضافہ کردیا گیا۔۔۔ یہی نہیں، ایل پی جی کے گیس سیلنڈرز بھی مہنگے ہوگئے۔۔۔ کراچی میں دودھ پر فی لیٹر 30 روپے بڑھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔۔۔ ہائے مہنگائی، تجھے موت ہی نہ آئی۔ مہنگائی کی موت پاکستان کے عوام کی خواہش تو ہوسکتی ہے، حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ مہنگائی عوام کے لئے موت بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی ہے اور سوائے فاقوں اور خودکشیوں کے اس سے نجات پانا ممکن نہیں۔۔۔ مہنگائی ایک ایسا دہشت گرد، ایک ایسا بم، ایک ایسا مجرم جو نجانے روز کتنے ہی لوگوں کی جان لے لیتی ہے، کتنوں کو زخمی کرتی ہے اور کتنے ہی لوگوں کو تمام عمر کے واسطے معذور کر دیتی ہے۔۔۔ مہنگائی کا بم گرانے والے کرسیوں پر بیٹھے بس دعوے کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران خود ہی عوام کے دشمن ہوچکے ہیں جینے کے لئے بنیادی ضروریات تو ایک زمانے سے پاکستان میں رہنے والی 90 فیصد آبادی کا بس ایک خواب ہی ہیں۔۔۔ ایک ایم این اے کو قومی اسمبلی میں ڈیسک بجانے کا ڈیڑھ لاکھ ملتا ہے، جب کہ غریب مزدور کو سارا مہینہ گدھے کی طرح کام کرکے بارہ ہزار ملتا ہے۔۔۔
ایک جاننے والے کے والد صاحب فوت ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رویا، لیکن تدفین کے بعد ایک دم سنجیدہ ہوگیا، کہنے لگا۔۔۔ کفن 3 ہزار کا آیا، گورکن نے 2 ہزار روپے لئے، مولوی صاحب نے جنازہ پڑھائی، دعا کرائی اور مردہ بخشوائی کے 4 ہزار لئے۔۔۔ قل خوانی پر 30 ہزار کا خرچ آیا۔۔۔ 5 ہزار مسجد کو دیئے، 8 ہزار کے کپڑے ان رشتہ دار خواتین کو دیئے جو دوردراز سے تعزیت کے لئے گھر آئی تھیں۔۔۔ تین ہزار روپے تمبو قنات والا لے گیا، تین ہزار روپے حافظ صاحب نے لے کر تین دن قبر پر پڑھائی کی۔۔۔ تین ہزار پیر صاحب کی نذر کیا جو گاؤں سے تشریف لائے تھے۔۔۔ 9 ہزار روپے میں جمعرات کی دیگ بنائی جسے دربار پر نیاز کی۔۔۔ اب چالیس روز تک مولوی صاحب کے گھر کھانا بھی بھجوانا ہے، پھر چالیسویں پر باقی کسر نکلے گی۔۔۔ پھر سرد آہ بھرکے بولا۔۔۔ زندگی تو موت کی امانت ہے، لیکن بابا جی اگر گندم کی فصل اٹھانے کے بعد فوت ہوتے تو ذرا اچھے طریقے سے رخصت کرتا، پتا نہیں نجات بھی ہوگی کہ نہیں۔۔۔ کسی نے کہا بھائی نجات تو اعمال پر ہے، باقی تو رسمیں ہیں۔۔۔ کہنے لگا۔۔۔ بھائی میں اپنی نجات کی بات کررہا ہوں، اس ظالم برادری کے ہاتھوں۔۔۔ بابا جی تو بخشے بخشائے تھے۔۔۔
آپ بازار جائیں تو پتا لگے گا، آٹا لینا ہے تو وہ مہنگا، چاول مہنگے، گوشت بھی مہنگا، دالیں بھی مہنگی، سبزیوں کے نرخوں میں ٹھیک ٹھاک اضافہ۔۔۔ انڈے مہنگے، دودھ مہنگا، پھل مہنگا، بجلی بھی مہنگی، اسپتال جائیں تو علاج معالجہ بھی مہنگا، اسکول، کالج، یونیورسٹی جائیں تو وہاں تعلیم مہنگی، ٹیوشن پڑھیں تو وہ بھی مہنگا۔۔۔ سفر کریں تو ٹرانسپورٹ مہنگا، پیٹرول، ڈیزل، سی این جی سب کے نرخ ہر گزرتے دن کے ساتھ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔۔۔ پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے وہ بھی مہنگا ہی ملتا ہے۔۔۔ اگر کچھ سستا ہے تو صرف اور صرف انسان کا خون۔۔۔ جس کی کوئی قیمت نہیں۔