Thursday, July 24, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گولڈ فیشل بھی ضروری ہے

رابعہ خان

سونا ہمیشہ ہی سے خواتین کی کمزوری رہا ہے مگر اب تو گولڈ فیشل متعارف ہوجانے کے بعد، یہ ہمارے لائف اسٹائل اور میک اوور کا لازمی جزو ہے۔ دور حاضر میں جہاں مختلف قدرتی وسائل جیسے جڑی بوٹیوں اور کوئلے سے تیار کئے جانے والے فیشلز سے خواتین مستفید ہو رہی ہیں وہیں گولڈ فیشل بھی دن بدن کافی مقبولیت پاتا جارہا ہے۔ گولڈ فیشل ٹریٹمنٹ اب تک لاتعداد خواتین کے دل جیت چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ جلد کی نگہداشت کے سلسلے میں گولڈ کا استعمال کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ تاریخی کتابوں میں ملکہ قلوپطرہ کے گولڈ فیس ماسک کا حوالہ بھی ملتا ہے جس کے مطابق وہ اپنے قدرتی حسن اور جلد کی نگہداشت کے لئے روزانہ سونے کی دھات سے تیار کردہ ماسک کا استعمال کیا کرتی تھیں۔
گولڈ فیشئل کیا ہے؟
سونے کا شمار نرم ترین دھاتوں میں کیا جاتا ہے جو با آسانی جلد میں سرائیت کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ 24 قیراط گولڈ فیشل ایک ایسا فیشل ٹریٹمنٹ ہے جس میں گولڈ کی شیٹس چہرے پر لگا کے مخصوص مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو جلد میں اپنے اجزا کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس فیشل میں استعمال کئے جانے والے ماسک میں سونے کے علاوہ زعفران، صندل کی لکڑی، ہلدی، شہد اور ایلوویرا کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جو آپ کی جلد کو لاتعداد فوائد پہنچاتے ہیں۔
گولڈ فیشئل کے فوائد
گولڈ فیشل ٹریٹمنٹ جلد میں نئے خلیات کی پیداوار کو متحرک کرتا ہے اور اسے نئی چمک اور رعنائی فراہم کرتا ہے۔ یہ چہرے پر جھریاں اور لکیریں نمایاں ہونے سے روکنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس میں بڑھتی عمر کے اثرات زائل کرنے کی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے جس کے سبب آپ کی جلد ترو تازہ اور جواں نظر آتی ہے۔ یہ جلد سے مضر صحت مادوں کا خاتمہ کرتا ہے اور سورج کی بنفشی شعاعوں سے ہونے والے نقصانات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یہ جلد میں آکسیجن کی فراہمی کو بہتر بناتا ہے جس کے باعث آپ کے چہرے سے تھکان کے اثرات غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ چہرے کی رونق بحال کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں موجود اینٹی بیکٹریل خصوصیات کے سبب یہ کیل مہاسوں اور دانوں سے بچاؤ میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ جلد میں موجود قدرتی لچک قائم رکھنے میں بھی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ گولڈ فیشل خشک اور روغنی جلد دونوں کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔
گولڈ فیشئل کرنے کا طریقہ
یوں تو بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ کسی اچھے اور قابل بھروسہ بیوٹی سیلون یا اسپاء سے خدمات لیں۔ تاہم اگر آپ ازخود گولڈ فیشل کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ آ پ کسی اچھے برانڈ کی گولڈ فیشل کٹ کا انتخاب کریں۔ اس کے بعد فیشل کی شروعات کٹ میں موجود مخصوص کلینزر سے کریں۔ کلینزنگ کا عمل مکمل کرنے کے بعد اس میں موجود اسکرب کی مدد سے ہلکے ہاتھوں کے ساتھ اسکرب کریں۔ دھیان رہے کہ اسکربنگ کے دوران آپ کے ہاتھ نیچے سے اوپر کی جانب حرکت کریں۔ اب گولڈ مساج کریم کی مدد سے چہرے پر مساج کیجئے اور گولڈ ماسک کو چہرے پر لگائیں۔ ماسک خشک ہونے کے بعد اسے صاف کرلیں اور کولڈ کمپریس کی مدد سے چہرے کو ٹھنڈا کیجئے اور آخر میں گولڈ فیشل موائسچرائزر سے چہریل کو اچھی طرح موائسچرایز کیجئے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہندو انتہاپسندوں نے 4 خواتین سمیت متعدد کشمیریوں کو سخت زدوکوب کیا۔ چالیس کے قریب ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے کشمیریوں کو زدوکوب کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے، جس میں ایک خاتون کو مدد کے لئے چلاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کے ایک گروپ کو جس میں چار خواتین بھی تھیں، نئی دلی کی سن لائٹ کالونی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مشتعل ہجوم نے کشمیریوں کو لاٹھیوں سے بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مار پیٹ کا نشانہ بننے والوں نے بتایا کہ انہیں محض کشمیری ہونے کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ زخمی ہونے والے ایک فرد کا کہنا تھا کہ اس کی بہن کے ساتھ بھی ناشائستہ سلوک کیا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا اور ملزمان ہاکیوں سے لیس تھے۔ حملہ آور نعرے لگا رہے تھے۔۔۔ ’’کشمیری دہشت گردوں کو واپس بھیج دو‘‘۔۔۔
اس سے قبل بھی کئی بار ان پر حملہ کیا گیا اور وہ علاقے میں سخت خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی روز سے خواتین کی چٹیا کاٹنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں جن میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ بعض مقامات پر قابض بھارتی فورسز پر ہی خواتین کی چٹیا کاٹنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کنگان کے علاقے میں قابض بھارتی فوج کے 3 سادہ لباس اہلکار نجی کار میں سوار تھے اور علاقے میں مشکوک انداز میں گشت کررہے تھے، جہاں مقامی افراد کے ایک ہجوم نے انہیں روکا اور شناخت ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا۔ اہلکاروں کی جانب سے مقامی افراد کو جب کارڈ دکھائے گئے تو وہ بھارتی فوجی نکلے جس پر لوگوں کو شک ہوا کہ یہ فوجی اہلکار خواتین کی چٹیا کاٹنے کے ارادے سے آئے تھے، جس کے باعث مقامی افراد نے بھارتی فوجیوں کی بُری طرح پٹائی کردی۔ واقعے کے بعد قریب ہی موجود بھارتی فوجیوں کے کیمپ سے اہلکار اپنے ساتھیوں کو بچانے پہنچ گئے اور انہیں ہجوم سے چھڑا لے گئے۔
خواتین اور بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم کے تازہ ترین سروے کے مطابق بھارت میں انیس برس سے کم عمر کی تقریباً چالیس فیصد خواتین کو تشدد اور استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کی طرف سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں دس برس سے کم عمر میں ہی چھ فیصد بچیوں کو کسی نہ کسی طرح کے تشدد یا استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے آخر میں بھارت میں تقریباً تہتر فیصد خواتین کو کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا رہا۔ سروے میں شامل ہر چار خواتین میں سے ایک یا تقریباً چھبیس فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سروے میں اٹھارہ اور اس سے زیادہ عمر کی پچیس سو سے زائد خواتین نے حصہ لیا۔ اس دوران بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کے واقعات میں تینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس جرم میں ملوث ملزمان میں سے ساٹھ فیصد کی عمر اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان تھی۔سروے کے مطابق دس میں سے آٹھ یا تقریباً بیاسی فیصد خواتین اپنے تحفظ کے لئے کئی طرح کے طریقے استعمال کرتی ہیں۔ وہ جن طریقوں کا استعمال کرتی ہیں، ان میں پارک یا ہلکی روشنی والے علاقوں میں جانے سے گریز، راستہ تبدیل کر کے گھر یا دفتر جانا، سیلف ڈیفنس، ریپ الارم اور مرچ اسپر ے کا استعمال شامل ہیں۔ تیئس فیصد خواتین چابی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
ایکشن ایڈ انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سندیپ چھاچھرا کا اس رپورٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ بھارت میں خواتین پر ہونے والے تشدد اور ان کے استحصال کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کے حقوق، ان کی صلاحیتوں اور ان کی اہلیت کے سلسلے میں کافی بیداری آئی ہے، لیکن اب بھی خواتین کی سلامتی کے لئے مزید قدم اٹھانے اور خواتین کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ریپ یا جنسی زیادتی کا سوال بھارت میں ایک عرصے سے عوام کے شعور میں کسی آتش فشاں کے لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا، جیسے جنسی زیادتی کے مجرموں کو قانون کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔ معاشرے کا رویہ بھی فرسودہ اور اکثر قابل مذمت رہا ہے۔ جنسی زیادتی کے کسی واقعے کے بعد اگر کوئی بحث چھڑتی تو کبھی اس طرح کے مشورے آتے کہ لڑکیوں کو جینز نہیں پہننی چاہیے تو کبھی کوئی رہنما یہ بتاتا کہ لڑکیوں کو رات میں گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ شہر کے سارے پبز (شراب خانے) بند کر دیئے جائیں۔
ان سبھی دلیلوں کا اگر تجزیہ کریں تو ان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے جیسے جنسی زیادتی کے لئے خود لڑکیاں ہی ذمے دار ہیں۔ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر بحث نہ ہوسکی۔ ملک کے پالیسی سازوں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مجرمانہ ذہنیت کو شکست دینے کی کوشش نہیں کی جس نے آج پورے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جنسی زیادتی کے واقعات بھارتی معاشرے کا غیر پسندیدہ حصہ بن چکے ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کے لئے سو برس پرانے جو قوانین نافذ ہیں وہ اتنے پیچیدہ، اتنے مبہم اور اتنے تکلیف دہ ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے قانون کی مدد نہیں لینا چاہے گا۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل