Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گلے سڑے سیاسی نظام کا خاتمہ۔۔ وقت کا تقاضا

پاکستان کا سیاسی نظام گل سڑ چکا ہے، برطانوی طرزِ جمہوریت کا نظام بظاہر تو اپنا لیا گیا لیکن اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوسکا، بلکہ ہمارا نظام جاگیرداروں، نوابوں، سرداروں، وڈیروں، زرداروں، شریفوں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں آ گیا، ہم نے انگریزوں کی نقالی کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست کا نظام اپنا تو لیا لیکن اُس کو دولت مندوں اور صاحبِ ثروت گروہ سے نتھی کردیا۔ اسی طرح نوکرشاہی کے نظام کو دور برطانیہ کے 1935ء کے ایکٹ کے مطابق نافذ کیا گیا، جن میں سرکاری افسران اور عامل خود کو عام شہریوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ یہی نظام عسکری اداروں اور عدلیہ میں بھی رائج ہوگیا، جس سے اشرافیہ کا ایک طبقہ بن گیا، جیسا کہ وائسرائے کے زیرنگیں عاملین اور کمشنرز ہوا کرتے تھے جو عوام سے ایک فاصلہ رکھتے تھے تاکہ ان کا جھوٹا رُعب و دبدبہ قائم رہے، انگریزوں کے بعد مقامی انگریزوں نے اسی ڈگر کو اپنا کر اپنی الگ دُنیا آباد کرلی، جس کی عام پاکستانی سے کوئی مماثلت نہیں ہے بلکہ اس اشرافیہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال ہونے لگا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے قرض لے کر اللے تللے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ اسمبلی میں ہو یا سرکاری عہدوں پر ان کے شاہانہ طرزِ زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے بلکہ ان کی مراعات کو برقرار رکھنے اور بھاری تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہمیں قرض لینا پڑ رہا ہے، کتنی افسوس ناک اور قابل مذمت بات ہے کہ جس ملک کے زرمبادلہ کا سب سے بڑا حصہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ کیا جاتا ہے اس کے عاملین، افسران اور منصفوں کو وہ بڑی مقدار میں مفت فراہم کیا جارہا ہے، ان کے مفت بری و فضائی سفر ہوتے ہیں، دوران ملازمت جنہیں بھاری تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں، سبکدوش ہونے پر انہیں بھاری پنشن ادا کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب چھوٹے پے اسکیل کے ضعیف العمر افراد اپنی معمولی پنشن کی وصولی کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ ایک ہی ملک میں دو طرفہ معاشی نظام گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے لیکن اس کے منفی اثرات نے ملک کا بھٹہ بٹھا دیا ہے، وہ تو بھلا ہو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا جن کی تقریباً 30 سے 35 ارب ڈالر سالانہ کی ترسیل آکسیجن کا کام کررہی ہے ورنہ معاشی طور پر ہمارے ملک کی موت واقع ہوجاتی۔ اشرافیہ کو اب ہوش میں آنا ہوگا، ادھار کی مے پی کر مست رہنے کے دور کا خاتمہ ہورہا ہے، عام پاکستانی کی زبان پر یہ سوالات ہیں کہ جو پیٹرول اُسے تقریباً 250 روپے لیٹر، بجلی کا یونٹ 12 سے 15 روپے، مہنگی گیس اور پانی دیا جارہا ہے وہ اشرافیہ کے لئے مفت کیوں ہے، بیداری کی اس لہر کو لانے میں سابق وزیراعظم عمران خان کا اہم کردار حصہ ہے کیونکہ انہوں نے اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو عام پاکستانیوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے، اس معاشی سرطان کے خلاف تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ اس موذی مرض کا علاج ناممکن ہے، اس لئے اسے اس معاشرے سے کاٹ کر پھینکنا پڑے گا، عمران خان کی حکومت کا خاتمہ جس انداز سے ہوا اس سے یہ بات اور واضح ہوگئی کہ اشرافیہ اپنے غیرآئینی و غیرقانونی تسلط کا خاتمہ نہیں چاہتی بلکہ وہ عوام کو اپنے زیرنگیں اور غلام بنا کر رکھنے کے لئے ہر حد کو پار کرسکتی ہے۔ موجودہ حکومت کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس کے تمام معاشی اقدامات عوام دشمن رہے ہیں، معاشی بدنظمی اور بے سمت رویے کی وجہ سے روپے کی قدر انتہائی حد تک گھٹتی جارہی ہے لیکن حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اُسے روپے کی قدر کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ 1.2 ارب ڈالر کی بھیک کے لئے ہمارے سپہ سالار کو امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری کو فون کرنا پڑا کہ وہ دباؤ ڈال کر آئی ایم ایف کو مجبور کریں کہ پاکستان کو امداد دے۔ یہ سب کچھ اُس ملک میں ہورہا ہے جو دُنیا کی ساتویں اور اسلامی دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جو زراعت میں خودکفیل ہے، جس کے ماہرین کی دُنیا میں قدر کی جاتی ہے لیکن یہ بُرا وقت ہمارے حکمرانوں کی نااہلی سے آیا ہے، ان حکمرانوں کو تو قومی شخصیات کا یومِ وفات تک یاد نہیں رہتا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان بنانے والی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ سے خود کو جوڑتی ہے لیکن اس کے رہنماؤں کو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا یومِ وفات بھی یاد نہیں رہتا، بس قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے حوالے سے دو دن منا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی ہونے کا حق ادا کردیا گیا ہے، یہ منافقت اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ملک کا اقتدار اور اس کی راہداریاں تو یاد ہیں مگر محسنین پاکستان بھلائے جا چکے ہیں، پاکستانی عوام بیدار ہورہے ہیں، اب ان نااہلیوں کا نوٹس لیا جارہا ہے، عوام ان کوتاہیوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہ اشرافیہ کے گروہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے تیار ہیں، نااہل سیاستدانوں سمیت تمام اشرافیہ سے حساب کتاب لینے کا وقت آ چکا ہے، اس پرانے نظام کے اکھاڑے جانے کے لمحات آ چکے ہیں، اگرچہ اس کا دفاع کرنے والوں کے تانے بانے لندن اور واشنگٹن سے ملتے ہیں لیکن نئے پاکستان کے منتظرین اس گٹھ جوڑ کے خلاف متحد ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک متفقہ مذہبی ہم آہنگی کا بیانیہ بنایا جس کی تیاری میں ملک کے تمام اہم علمائے کرام نے اپنا بہترین کردار ادا کیا اور بڑے مراحل طے کرکے ایک میڈان پاکستان بیانیہ تیار کرلیا جس پر تمام مسالک کے علمائے کرام کی جانب سے دستخط ہیں۔ اسی طرح کا ایک میثاق اب سیاست و معیشت کے حوالے سے انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے اور یہ کام جتنا جلدی ہوجائے ملک کے مفاد میں ہے، ہمیں اس دُنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک میثاق سیاست و معیشت کی ضرورت ہے، اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو جلد دور کرنا ہوگا، یہ کام جتنی جلدی ہوگا اتنا ملک کے سیاسی، انتظامی اور معاشی نظام کے لئے سودمند ہوگا، پاکستان کے عوام اشرافیہ کی اجارہ داری کو چیلنج کر چکے ہیں، یہ نظام اب چل نہیں سکے گا۔

مطلقہ خبریں