Thursday, January 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

”گلوکار سلیم شہزاد“ کئی فلموں کیلئے سپر ہٹ گیت گائے

نامور قوال اور گائیک عظیم پریم ناگی کے صاحب زادے سلیم شہزاد نے موسیقی کے اسرارورموز اور راگ راگنیاں اپنے والد ہی سے سیکھیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کی گائیکی میں بے حد پختگی، سُرلے اور تال کی تمام تر شدھ بُدھ بدرجہ اُتم موجود ہیں
شیخ لیاقت علی

پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف پِلے بیک سنگر سلیم شہزاد کا شمار اُونچے سُروں میں گانے والے گلوکاروں میں کیا جاتا ہے۔ نامور قوال اور گائیک عظیم پریم ناگی کے صاحب زادے سلیم شہزاد نے موسیقی کے اسرارورموز اور راگ راگنیاں اپنے والد ہی سے سیکھیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کی گائیکی میں بے حد پختگی، سُرلے اور تال کی تمام تر شدھ بُدھ بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ 21 برس کی عمر میں انہوں نے فلموں کے لئے پسِ پردہ گلوکاری کا آغاز فلم ”سویرا“ سے کیا، جو 18 جون 1959ء کو ریلیز ہوئی۔ رفیق رضوی کی زیرہدایات بننے والی اس فلم میں سلیم شہزاد سے موسیقار ماسٹر منظور حسین نے شاعر ناظم پانی پتی کا لکھا یہ گانا ریکارڈ کروایا، جس میں رفیق نام کے ایک گلوکار بھی شریک گائیکی ہوئے۔
”آر اے ٹی ریٹ معنی چوہا، سی اے ٹی کیٹ معنی بلی“ ”سویرا“ باکس آفس پر خاطرخواہ بزنس نہ کرسکی۔ صرف اس فلم میں ایس بی جان کا گایا یہ نغمہ بے حد مقبول ہوا، جسے فیاض ہاشمی نے لکھا، ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے۔“
”سویرا“ کے بعد سلیم شہزاد نے ہدایت کار رفیق رضوی کی فلم ”اپنا پرایا“ میں گلوکاری کی بجائے اداکاری کی اور اداکارہ رخسانہ کے مقابل سیکنڈ ہیرو آئے۔ فرسٹ ہیرو اور ہیروئن اس فلم کے اداکار کمال اور شمیم آرا تھے۔ 14 اگست 1959ء کی ریلیز اس فلم میں سلیم شہزاد اور رخسانہ پر احمد رُشدی اور ناہید نیازی کا یہ دو گانا فلمایا گیا، جس کے شاعر منیر جیلانی اور موسیقار سیف چغتائی تھے۔ ”دور سے نہ گھور پاس آ، چھوڑ کے نہ جا، دل توڑ کے نہ جا“، فلم ”اپنا پرایا“ ناکام رہی۔ ایسٹرن فلمز کے بینر تلے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کراچی کے مالک سعید اے ہارون نے فلم ”بیس دن“ پروڈیوس کی۔ اعجاز اس کے ہدایت کار اور سہیل رضا موسیقار تھے۔ یہ فلم 17 جولائی 1964ء کو ریلیز ہو کر کامیاب نہیں ہوسکی۔ ”بیس دن“ میں سلیم شہزاد نے یہ کورس گیت نجمہ نیازی اور ساتھیوں کے ہمراہ گایا جسے مسرور انور نے لکھا ”گو ا گئی رات پھر پیار کی تیرا میرا ملن ہوا، فلم ساز وحید مراد کی بہ طور سولو، ہیرو پہلی فلم ”ہیرا اور پتھر“ کے اس دوگانے سے سلیم شہزاد کو کچھ شہرت ملی۔ مسرور انور کے تحریر کردہ اورسہیل رعنا کے کمپوز کردہ اس سپر ہٹ دوگانے میں سلیم شہزاد کے ساتھ ماضی کی معروف اداکارہ طلعت صدیقی نے بھی آواز کا جادو جگایا۔
”شہرِ حُسن کے رہنے والو سنو! مجھے اک لڑکی سے پیار ہوگیا، اس نے دیکھا پیار کا بیمار ہوگیا، خالی پیلی کہتا ہے پیار ہوگیا، جس کو دیکھو پیار کا بیمار ہوگیا۔ او مجھے اک لڑکی سے پیار ہوگیا“۔ فلم کی ریلیز سے قبل یہ دوگانا کنسرٹ سے سنا گیا۔ ریڈیو پاکستان کے فرمائشی پروگرامز میں یہ نشر ہونا تھا اورپھر بہت جلد ریڈیو پاکستان سے اس دوگانے کو نشر ہونے سے روک دیا گیا اور اس پر پابندی لگا دی، لیکن فلم میں یہ دوگانا شامل رہا۔ اس گانے کے ایل پی ریکارڈ کی غیرمعمولی فروخت ہوئی اور اْس زمانے میں یہ گلی گلی گونجا کرتا تھا۔11 دسمبر 1964ء کی ریلیز ”ہیرا اور پتھر“ شاندار گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی اور اسے کراچی میں بننے والی اوّلین گولڈن جوبلی فلم ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔ گلوکار سلیم شہزاد کی آواز بعدازاں ہدایت کار رانا حلیم کی معاشرتی، سماجی و مذہبی فلم ”عشق حبیب“ کی اس قوالی میں گونجی، جسے مسرور انور نے لکھا اور دُھن موسیقار ظفر خورشید نے بنائی۔ سلیم شہزاد کے ساتھ اس قوالی میں امراؤ بندو خان اور ریحانہ یاسمین کی بھی آواز میں شامل تھیں۔ ”ہم ہیں مجبور اور تو جبار ہے“۔
”عشق حبیب“ 5 فروری 1965ء عیدالفطر پر ریلیز ہوئی اور کراچی سرکٹ میں سلور جوبلی منا گئی۔ اسی فلم سے نامور قوال غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری نے فنِ قوالی کا آغاز شہرۂ آفاق قوالی ”میرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا، مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے، گا کر کیا۔
فلم ساز ستار شیخانی، ہدایت کار اے ایچ صدیقی، موسیقار سہیل رعنا اور لال محمد اقبال کی 29 جولائی 1966ء کی ریلیز فلم ”اکیلے نہ جانا“ میں سلیم شہزاد نے گلوکارہ خورشید شیرازی کے ساتھ مسرور انور کا لکھا یہ دوگانا لال محمد اقبال کی بنائی طرز پہ گایا ”کہہ دے گوری آج پیاسے اپنے من کی بات“ فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نہال کی فلم ”مسٹر فنٹوش“ 26 مئی 1967ء کو ریلیز ہوئی اور فلاپ ہوگئی۔ اس فلم کے لئے سلیم شہزاد نے اپنا پہلا سولو گانا گایا۔ شاعر ہمدم جمال اور موسیقار ایم رشید کے مرتب کردہ اس گانے کے بول تھے۔ ”لندن دیکھا، پیرس دیکھا، دیکھا ہندوستان“ فلم ساز وحید مراد،ہدایت کار پرویز ملک اور موسیقار سہیل رعنا کی سلور جوبلی فلم ”احسان“ میں سلیم شہزاد نے مسرور انور کا لکھا یہ کورس گانا گایا۔ ”دل سی شے حسن پہ فدا کردی، بے وقوفی کی“۔ ”احسان“ 30 جون 1967ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ ”احسان“ کے بعد سلیم شہزاد نے فلم ساز و ہدایت کار نظام الحق کی فلم ”ہمدم“ کے لئے موسیقار ضیاء الدین کی موسیقی میں ریحانہ یاسمین کے ہمراہ دل کش دوگانا گایا۔ ”رات سہانی، چُھل بُل ندیا لہراتی، بل کھاتی جائے“۔ ”ہمدم“ 24 نومبر 1967ء کو نمائش پذیر ہوئی اور ناکام ثابت ہوئی۔
اس فلم سے معروف نغمہ نگار یونس ہمدم نے فلمی گیت نگاری کا آغاز یہ گیت لکھ کر کیا، جسے ایم افراہیم نے گایا تھا۔ ”دنیا سے دور غم کی شام کرے“ ہمدم کے بعد پھر ایک اور فلم ”پاپی“ کے لئے سلیم شہزاد نغمہ سرا ہوئے اور فلم ”مسٹر فنٹوش“ کے بعد اس فلم میں انہوں نے اپنا دوسرا سولو گانا گایا، جسے احمد علی اسیر نے لکھا اور کمپوز علی حسن نے کیا۔ ”سفینہ دل کا ڈبویا جگر کے چھالوں نے“ اس سولو گانے کے علاوہ اسی فلم ”پاپی“ میں سلیم شہزاد نے گلوکارہ نسیمہ شاہین کے ہمراہ ساغر کا تحریر کردہ یہ دوگانا علی حسن کی بنائی طرز پر گایا: ”یہ حسین تاروں کی انجمن بھلا کس لئے ہے“۔ فلم ”السلام علیکم“ 5ستمبر 1969ء کونمائش کے لئے پیش کی گئی۔
فلم ساز و ہدایت کار اور اداکار فیروز کی اس فلم کے لئے سلیم شہزاد نے شاعر سہیل اقبال کا یہ دلکش سولو گیت موسیقار نذر صابر کی دل موہ لینے والی طرز پر باکمال گایا۔ ”محبت کے دیئے جلالو، وفا کے گیت گنگنالو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔ ”السلام علیکم“ تو ناکام ہوئی، مگر یہ گیت تادیر گونجتا رہا اور بے حد پسند کیا گیا۔ 2 جنوری 1970ء میں فلم ”کردار“ ریلیز ہوئی، جس کے فلم ساز اور ہیرو عزیز اختر ہدایت کار یونس راٹھور اور موسیقار جمیل خسرو تھے۔ سلیم شہزاد نے کردار کے لئے رونا لیلیٰ کے ہمراہ معروف شاعر نثار شاہد دہلوی کا دو گانا گایا۔ ”تورے دل میں ہے کیسا پیار، ستارے رے“۔ اک ہفتے بعد ہی 9جنوری 1970ء کو فلم شیخ پروانہ ”ریلیز“ ہوئی، فلم ساز نواب احمد، ہدایت کار ایم سلطان اور موسیقار غلام علی کی اس فلم میں سلیم شہزاد نے رونا لیلیٰ کے ہمراہ شاعر اقبال احمد کا یہ دوگانا موسیقار نیاز احمد کی بنائی۔ طرز پر گایا، ”ہائے میرا جیسا کھو گیا بابو اس میلے میں“۔ ان چار فلموں کے بعد بالآخر اِک قدرے کام یاب فلم ”سوغات“ یکم دسمبر 1970ء بروز عیدالفطر ریلیز ہوئی۔
فلم ساز و ہدایت کار پرویز ملک، موسیقار سہیل رعنا کی یہ ”سوغات“ کراچی سرکٹ میں 32 ہفتے زیرنمائش رہ کر شاندار سلور جوبلی سے ہمکنار ہوئی اور سلیم شہزاد نے احمد رشدی اور رونا لیلیٰ کے ساتھ اس فلم کے لئے گانا گایا۔ زندگی تو آپ کی رعنائیوں کا نام ہے۔ آپ ہی سے ہے سحر اور آپ ہی سے شام ہے“۔ فلم ساز بہار علی بلوچ، ہدایت کار شیخ حسن اور موسیقار لال محمد اقبال کی فلم ”گاتا جائے بنجارا“ 17 نومبر 1972ء کو ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر درمیانہ درجے کا بزنس کرسکی۔ اس فلم میں سلیم شہزاد نے گلوکارہ نسیمہ شاہین اور ساتھیوں کے ساتھ شاعر دُکھی پریم نگری کا یہ کورس گایا۔ ”محبت زندہ باد! ہم حسن کے پروانے ہیں“۔ ”دھماکا“ وہ فلم ہے، جس میں سلیم شہزاد نے تین سولو نغمات گائے۔ 13 دسمبر 1974ء کی ریلیز اس فلم کے فلم ساز مولانا ہیپی، ہدایت کار قمر زیدی، موسیقار لال محمد اقبال اور مصنف ابنِ صفی تھے۔ نامور اداکار جاوید شیخ کے کیریئر کی پہلی فلم تھی۔82 برس عمر رسیدہ ماضی کے یہ سریلے گلوکار سلیم شہزاد آج کل صاحب فراش ہیں۔ ان کی بینائی بھی متاثر ہوگئی ہے۔ وہ دیکھ نہیں سکتے۔ ارباب اقتدار و اختیار ان کی مدد کریں۔

مطلقہ خبریں