پانچ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جوکہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا 16 اگست19ء کو 1965ء کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا
اگست 14- 15 اگست 1947: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اکتوبر 1947: کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔
اکتوبر26- 1947: مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی۔27 اکتوبر 1947: بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔
یکم جنوری 1948: بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔5 فروری 1948: اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔
یکم جنوری 1949: اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔26 جنوری 1950: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی۔
اکتوبر 1950: شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔30 مارچ 1951: اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔
ستمبر 1951: کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں۔31 اکتوبر 1951: شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔
جولائی 1952: شیخ عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی۔
جولائی 1953: سائما پرشاد مکر جی نے 1952ء سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خودمختاری کی تجویز دے دی۔8 اگست 1953: شیخ عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کردیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیراعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔17۔20 اگست 1953: بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954 کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کیلئے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہوگئے تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکا کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سردجنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کردیا۔
فروری 1954: کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کردیا۔14 مئی 1954: آئینی حکم نامہ 1954ء جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے لاگو کردیا گیا جو دہلی معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست کو بھارتی عملداری میں دیتے ہوئے تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔14 جنوری 1957: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951ء کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔26 جنوری 1957: ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔9 اگست 1955: رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام متحدہ کی زیرنگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ 20 اکتوبر تا 20 نومبر 1962: لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے علاقے پر چین قابض ہوگیا۔
مارچ 1965: بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہوگئے۔23 اگست تا سمبر 1965: پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی جس نے 1949ء کے فائر بندی معاہدے کو ختم کردیا۔ 10 جنوری 1966: بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہوگئے جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے میں متفق ہوگئے۔3۔16 دسمبر 1971: پاکستان اوربھارت میں جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
فروری 1972: محاذ برائے رائے شماری پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نہیں لڑ سکتا۔2 جولائی 1972: پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں اقوام متحدہ کی فائربندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔13 نومبر 1974: شیخ عبداللہ کو رہا کر کے اسے بطور وزیراعلیٰ بحال کردیا گیا جبکہ اس کے نائب وزیراعلیٰ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر بھارت کا آئینی حصہ ہوگا اس طرح وہ 1953ء میں اپنے خودمختاری کے دعوے سے پھر گئے۔23 مئی 1977: شیخ عبداللہ نے دھمکی دی کہ بھارت کے ساتھ الحاق اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک بھارت آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو داخلی خودمختاری نہیں دیتا۔8 ستمبر 1982: شیخ عبداللہ انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ نے قیادت سنبھال لی۔
اپریل 1984: بھارت نے سیاچن گلیشئر پر قبضہ کرلیا۔
جون 1984: بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبداللہ کو معطل کر کے نیشنل کانفرنس کے غلام محمد شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کردیا جس سے کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غلام محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا۔7 مارچ 1986: جگموہن نے غلام محمد شاہ کو وزارتِ اعلیٰ سے برخاست کرتے ہوئے خود اختیارات سنبھال لئے اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا دی۔23 مارچ 1987: مسلم یونائیٹڈ فرنٹ جوکہ ایک مقبول جماعت تھی اس نے انتخابات میں حصہ لیا مگر کانگریس اور مسلم کانفرنس کا اتحاد جیت گیا جس پر دھاندلی کے الزامات لگے اور فاروق عبداللہ کی غیرمقبول حکومت کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔1989: بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک شروع ہوگئی جس کی قیادت مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے ممبران کررہے تھے، سال کے ایک تہائی دنوں میں ہڑتالیں رہیں، ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا گیا اور ٹرن آؤٹ صرف پانچ فیصد رہا۔1990: بغاوت جاری رہی۔پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے۔ 20 جنوری 1990: جگموہن سنگھ کو گورنر تعینات کرنے کے اگلے روز بھارتی پیرا ملٹری ریزرو پولیس فورس نے گوکدل میں نہتے مظاہرین جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ان پر گولی چلا دی ا س قتل عام کے خلاف پورے کشمیر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔
یکم مارچ 1990: سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں نے مارچ کیا جنہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔جس پر بھارتی فوج نے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کر دی۔ذکورا کراسنگ میں 26 اور تنگ پورہ بائی پاس پر 21 شہری مارے گئے، جس پر کشمیر میں 162، 500 ہندو کمیونٹی کو نکال کر جموں میں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔30 مارچ 1990: جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اشفاق وانی کے جنازے میں بہت بڑا اجتماع ہوا۔6 جنوری 1993: بھارتی بارڈر سیکورٹی پولیس نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کا بدلہ لینے کے لئے سوپور میں 55 شہریوں کو ہلاک کردیا۔
مارچ 1993: سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔1998: پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات. 21 فروری 1999: بھارتی وزیرا عظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے اعلان لاہور پر دستخط کئے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔
مئی، جولائی 1999: پاکستان و بھارت کے درمیان کارگل جنگ چھڑ گئی۔2000: ایک دہائی سے جاری کشمیر میں عسکری تحریک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی جس میں پُرامن اور غیرمتشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات کئے گئے، اگرچہ ان میں تعطل آتا رہا اور دونوں ممالک کشمیر میں کسی تصفیہ پر متفق نہیں ہوسکے۔11 مارچ 2001: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے دونوں ممالک کو اعلانِ لاہور کے تحت آگے بڑھنے کا مشورہ دیا جس پر جولائی 2001ء میں مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرہ میں ملاقات ہوئی مگر کوئی اعلان جاری نہ ہوسکا۔
اکتوبر 2001: کشمیر اسمبلی سری نگر پر حملے کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک۔
دسمبر 2001: بھارتی پارلیمنٹ پر نئی دہلی میں حملہ، لشکر طیبہ اور جیش محمد نے ذمہ داری قبول کی۔
2004۔ 2007: مسئلہ کشمیر پر بیک چینل روابط کے ذریعے دونوں ممالک نے کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کئے
اپریل 2005: مظفر آباد سری نگر بس سروس شروع ہوئی۔
مئی 2008: بھارتی حکومت اور جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے جو کہ 1990ء کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے، مسلح پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی اور کشمیر اور بھارت کو ملانے والی سڑک بلاک ہو کر رہ گئی۔
21 فروری 2009: بومائی میں بھارتی فوج نے دو عبادت گزاروں کو جان بوجھ کر گولی مار دی جس پر بومائی اور ملحقہ علاقوں میں مظاہرے شروع ہوگئے جس کے باعث کرفیو لگانا پڑا۔
29۔ 30 مئی 2009: دو خواتین 22 سالہ نیلوفرجان اور 17 سالہ عائشہ جان کو شوپیاں میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
جون 2009: کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے جنہوں نے سینٹرل پولیس ریزرو فورس کو زیادتی اور قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جس پر شوپیاں میں کرفیو لگا دیا گیا۔
30 اپریل 2010: ماشیل سیکٹر میں بھارتی فوج نے تین عسریت پسندوں کو لائن آف کنٹرول کراس کرنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا، بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ مقابلہ فرضی تھا اور مرنے والے تینوں عام کشمیری تھے اور انہیں صرف اس لئے مارا گیا کہ ان کے قتل کے عوض وہ کیش انعام حاصل کرسکیں۔
11 جون 2010: 17 سالہ ظفیل احمد مٹو جو اسکول سے گھر آ رہا تھا اس وقت ہلاک ہوگیا جب آنسو گیس کا ایک شیل اس کے قریب آ کر سر پر مارا گیا۔ اس کے نتیجے میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے جس سے نمٹنے کے لئے کرفیو لگا کر سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کردیا گیا۔
اگست 2011: وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ان 1200 نوجوانوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا جوکہ گزشتہ سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں سیکورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے میں ملوث تھے۔ بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایسی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی جہاں 2000 کے قریب نامعلوم لوگ دفنائے گئے تھے، خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں وہ کارکن بھی شامل تھے جنہیں بھارتی فوجوں نے گرفتار کر رکھا تھا یا جنہیں غائب کردیا گیا تھا۔ 1989ء سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے۔
فروری 2013: کشمیری جیش محمد کے کارکن محمد افضل گرو جن پر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا انہیں پھانسی دیئے جانے کے خلاف وادی میں مظاہرے ہوئے جن کے نتیجے میں دو افراد ہلاک کر دیئے گئے۔
ستمبر 2013: پاکستان و بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تشدد کو کم کرنے پر اتفاق
اگست 2014: بھارت نے یہ کہہ کر پاکستان سے مذاکرات ختم کر دیئے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرت کئے تھے۔
اکتوبر 2014: پاکستان اور بھارت میں سرحدوں پر کشیدگی، دونوں طرف 18 ہلاکتوں کی تصدیق۔
مارچ 2015: تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نے کشمیر میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور مفتی محمد سعید کو وزیراعلیٰ چنا گیا۔
ستمبر 2015: کشمیر میں مسلمانوں نے بڑے گوشت پر پابندی کے خلاف اپنی دوکانیں اور تجارتی مراکز بند کئے۔
اپریل 2016: محبوبہ مفتی اپنے باپ مفتی سعید کے بعد کشمیر کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنیں۔
جولائی 2016: حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔
اگست 2016: وادی میں جاری 50 روزہ کرفیو میں نرمی کی گئی۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں مظاہروں اور تشدد کی لہر کے نتیجے میں 68 شہری ہلاک اور 9000 لوگ زخمی ہوئے۔
ستمبر 2016: کشمیر میں ایک فوجی بیس پر حملے کے نتیجے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت میں دھمکیوں کا تبادلہ۔
نومبر 2016: لائن آف کنٹرول پر جھڑپ میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد آزاد کشمیر میں ایل او سی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ مامات پر منتقل کیا گیا۔
مئی 2017: حریت کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی نماز جنازہ میں شمولیت کے لئے ہزاروں لوگوں نے کرفیو کو توڑ ڈالا۔
جولائی 2017: ہندو یاتریوں پر حملے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوگئے۔14 فروری 2019: پلواما میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔21 فروری 2019: بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔26 فروری 2019: بھارت نے بالا کوٹ میں مجاہدین کے ایک کیمپ پر فضائی حملہ کیا اور کئی مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا۔27 فروری 2019: پاکستان نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا۔5 اگست 2019: بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جوکہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا، اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کردیا گیا۔16 اگست 2019: 1965ء کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔