Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

گردوں کی بیماری

ہائی بلڈ پریشر گردوں میں خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے خون کو صحیح طریقے سے فلٹر کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے
ڈاکٹر آصف چنڑ
گردوں کا عالمی دن ہر سال مارچ کے دوسرے ہفتے میں منایا جاتا ہے جس کا آغاز 2006ء میں کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا کی 10% سے زائد آبادی گردوں کے امراض میں مبتلا ہے جبکہ پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق پاکستان میں گردوں کے امراض کا تناسب کا سب سے زیادہ پھیلاؤ 21.2% ہے۔
گردے ہمارے جسم کے ضروری اعضاء ہیں جو بہت سے اہم کام انجام دیتے ہیں، جن میں خون کو فلٹر کرنا، فضلہ اور اضافی سیالوں کو نکالنا، بلڈ پریشر کو منظم کرنا، ہارمونز پیدا کرنا اور معدنیات اور الیکٹرولائٹس کو متوازن کرنا شامل ہیں۔ تاہم گردوں کی بیماریاں دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ گردوں کی صحت کی اہمیت اور گردے کی بیماری کے اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی (ISN) ہر سال مارچ کے دوسرے ہفتے کو ورلڈ کڈنی ڈے کا اہتمام کرتی ہے۔
گردوں کے عالمی دن کا بنیادی مقصد گردے کی صحت کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا اور لوگوں کو گردے کی بیماری سے بچاؤ کے لئے فعال اقدامات کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ یہ شعبہ طب سے وابستہ افراد، متاثرہ مریضوں، پالیسی سازوں اور عوام کے لئے ایک پلیٹ فارم بھی پیش کرتا ہے تاکہ وہ گردے کی صحت پر بات چیت اور اپنے تجربات اور معلومات کا باہمی تبادلہ کریں۔
ورلڈ کڈنی ڈے 2023ء کا تھیم
اس سال کا تھیم گردوں کی صحت سب کے لئے اور گردوں کی بیماری کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی گزارنا ہے جو مریضوں کو ان کی حالت کو سنبھالنے اور مکمل زندگی گزارنے کے لئے بااختیار بنانے پر مرکوز ہے۔ گردوں کے امراض میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ایک لمحہ فکریہ ہے، اس کے لئے عوامی شعور و آگاہی اورعلاج ناگزیر ہیں۔
گردے کی بیماری کا عالمی بوجھ
گردے کی بیماری ایک اہم عالمی صحت کا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور نسل کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ گلوبل برڈن آف ڈیزیز (GBD) کی رپورٹ کے مطابق دائمی گردے کی بیماری (CKD) عالمی سطح پر موت کی 12ویں بڑی وجہ ہے، جس میں 2019ء میں 1.3 ملین اموات ہوئیں۔ تحقیق میں یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ گردوں کے دائمی امراض کے پھیلاؤ میں 1990ء سے 29.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں گردوں کے دائمی امراض سے لے کر امراض کے آخری اسٹیج کے کیسز میں بھی حالیہ برسوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء میں دُنیا بھر میں تقریباً 1.4 ملین افراد گردوں کے دائمی عارضہ کی وجہ سے وقت سے پہلے موت کا شکار ہوئے۔
گردے کی بیماری کا بوجھ پوری دُنیا میں یکساں طور پر موجود نہیں ہے۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک گردوں کی بیماری کا غیرمتناسب بوجھ برداشت کرتے ہیں، بنیادی طور پر وسائل کی کمی اور صحت کی دیکھ بھال تک ناکافی رسائی کی وجہ سے۔ گلوبل کڈنی ہیلتھ اٹلس کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے پاس گردوں کے امراض کی اسکریننگ کے حوالے سے صرف 23 فیصد سہولیات دستیاب ہیں۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان ممالک میں بہت سے لوگ اپنے گردے کی بیماری کی نوعیت سے لاعلم ہوسکتے ہیں اور جن لوگوں کی تشخیص ہوتی ہے انہیں مناسب علاج نہیں مل سکتا ہے۔
گردے کی بیماری کے خطرات کے عوامل
کئی خطرے والے عوامل گردے کی بیماری کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ سب سے عام خطرے والے عوامل میں شامل ہیں
ذیابیطس: ہائی بلڈ شوگر لیول، وقت کے ساتھ ساتھ گردوں کے فلٹرنگ یونٹس (نیفرون) کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے گردوں کا دائمی مرض پیدا ہوتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر: ہائی بلڈ پریشر گردوں میں خون کی نالیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے خون کو صحیح طریقے سے فلٹر کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
موٹاپا: جسم کی زیادہ چربی انسولین کے خلاف مزاحمت کا سبب بن سکتی ہے اور ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے جس کے نتیجے میں گردوں کا دائمی مرض ہوسکتا ہے۔
تمباکو نوشی: سگریٹ نوشی گردوں میں خون کی شریانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور گردے کی بیماری کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
خاندانی ہسٹری: گردے کی بیماری کی خاندانی ہسٹری اس حالت کے پیدا ہونے کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔
گردے کی بیماری کے لئے احتیاطی تدابیر: گردے کی بیماری کی روک تھام میں صحت مند طرز زندگی کو اپنانا اور صحت کا خاص خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ درج ذیل احتیاطی تدابیر گردے کی صحت کو فروغ دینے میں مدد کرسکتی ہیں۔
صحت مند وزن برقرار رکھیں: متوازن خوراک اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے صحت مند وزن کو برقرار رکھنے سے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، جو گردوں کے دائمی مرض کی بنیادی وجوہات میں سے ہے۔
تمباکو نوشی کاخاتمہ: تمباکو نوشی چھوڑنے سے گردے کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے اور خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں گردے کی بیماری: گردوں کی بیماری پاکستان میں صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں گردوں کے دائمی امراض کا پھیلاؤ تقریباً 22% تک ہے۔ سندھ اور بلوچستان جیسے مخصوص علاقوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ پاکستان میں گردے کی بیماری کی اہم وجوہات میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور ہیپاٹائٹس سی جیسے انفیکشن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی عوامل جیسے دھاتیں اور کیڑے مار ادویات کا غیرضروری استعمال، پانی کی ناقص فراہمی اور ناقص صفائی بھی گردے کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں گردوں کے متبادل علاج جیسے ڈائیلاسز اور کڈنی ٹرانسپلانٹیشن تک رسائی محدود ہے۔ تربیت یافتہ گردوں کے معالج، نیفرولوجسٹ، ٹرانسپلانٹ سرجن و دیگر سہولیات کی کمی ہے اور گردے کی بیماری کے علاج کے پروگراموں کے لئے فنڈنگ کی کمی ہے۔ نتیجتاً گردوں کے مرض میں مبتلا بہت سے مریضوں کو وہ نگہداشت نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں گردے کی بیماری کے بوجھ سے نمٹنے کے لئے روک تھام اور علاج کے پروگراموں میں زیادہ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ عوام اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں میں بیداری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے، صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی کو بہتر بنانے اور گردوں کی تبدیلی کے علاج کی خدمات کی دستیابی کو بڑھانے کی کوششیں شامل ہیں۔
ایشیا میں گردوں کے عام امراض: گردے کی بیماریاں ایشیا میں اہم تشویشناک معاملہ ہے۔ جہاں مختلف عوامل جیسے جینیات، طرز زندگی اور ماحولیاتی حالات گردوں کی خرابی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
دائمی گردے کی بیماری (CKD): گردوں کا دائمی مرض ایک طویل مدتی حالت ہے جو اس وقت نمودار ہوتی ہے جب گردوں کا خاطرخواہ نظام خراب ہوچکا ہوتا ہے اور یہ خون کو ٹھیک طرح سے فلٹر نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ حالت ایشیا میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور گردے کو نقصان پہنچانے والے دیگر عوامل کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔
گلومیرلونفرائٹس (Glomerulo Nephritis): گلومیرلونفرائٹس گردے کی بیماریوں کا ایک مجموعہ ہے جو گردوں کے گلوومیرولی کو نقصان پہنچاتا ہے، جوکہ گردوں میں خون کی باریک نالیاں ہیں جو خون سے فضلہ اور اضافی سیال کو فلٹر کرتی ہیں۔ یہ حالت ایشیا میں عام ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں ہیپاٹائٹس بی انفیکشن کی زیادہ شرح ہے۔
نفرونک سنڈروم (Nephrotic Syndrome): نفروٹک سنڈروم ایک ایسی حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب گردے پیشاب میں بہت زیادہ پروٹین کا اخراج کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سوجن اور دیگر علامات ہوتی ہیں۔
پولی سسٹک کڈنی ڈیزیز (PKD): PKD ایک موروثی حالت ہے جس کی وجہ سے گردے میں پانی کی تھیلیاں بنتی ہیں۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ گردے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
IgA Nephropathy: یہ گردے کی وہ بیماری ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب گردوں کا اپنا مدافعتی نظام غلطی سے اپنے ہی جسم پر حملہ کرتا ہے جس سے گردوں میں سوزش ہوتی ہے اور گردے شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ حالت ایشیا میں دُنیا کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ عام ہے اور یہ اکثر نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔
ہندوستان میں گردے کی دائمی بیماری کا تخمینہ 800 فی 10 لاکھ افراد میں ہے، جب کہ آخری مرحلے کے گردوں کی بیماری (ESRD) کے واقعات 150-200 فی 10 لاکھ ہیں۔ ذیابیطس نیفروپیتھی ہندوستان میں سب سے عام وجہ ہے۔ مطلب یہ کہ گردے کی بیماریاں ایشیا میں صحت کے لئے ایک اہم تشویشناک صورتِ حال ہیں اور خطے میں ان حالات کے بارے میں بیداری، روک تھام اور علاج کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل