نعیم اللہ خان
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک روز بادشاہ نے بڑا عجیب حکم دے دیا، فرمان جاری کیا گیا کہ ملک بھر سے بے وقوفوں کو اکٹھا کیا جائے حکم کی تعمیل کی گئی، سب بے وقوفوں کو جمع کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ ان میں جو سب میں بڑا بے وقوف ہوگا اسے انعام دیا جائے گا، انعام کے لالچ میں سینکڑوں بیوقوف دربار میں اکٹھے ہوگئے، بادشاہ نے ان میں بیوقوفی کے مختلف مقابلے کروائے، فائنل راؤنڈ میں ایک شخص جیتا، اسے بے وقوفوں کا چمپئن قرار دیا گیا، بادشاہ نے اسے قیمتی ہیرے جواہِرات کا شاہی ہار پہنایا اور اسے انعام و اکرام سے نوازا، سب سے بڑا بیوقوف شخص یہ اِعزازوانعام پاکر خوشی خوشی گھر کو لوٹ گیا، کچھ عرصے بعد بادشاہ شدید بیمار ہوکر صاحب فراش ہوگیا، اس کی بیماری کا سن کر سب سے بڑا بے وقوف اسے ملنے کیلئے شاہی محل پہنچ گیا، بادشاہ ”بیڈ ریسٹ“ پر تھا لیکن اس شخص کو بادشاہ سے ملاقات کی خصوصی اجازت دی گئی، بیوقوف شخص نے بادشاہ سے پوچھا کیا حال ہے؟ بادشاہ بولا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جو ایسے سفر پر جارہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، بیوقوف نے حیرت سے پوچھا کیا آپ وہاں سے واپس نہیں آئیں گے؟ وہیں رہیں گے؟ بادشاہ نے بے بسی سے کہا ہاں! ایسا ہی ہے، بے وقوف نے سوال کیا پھر آپ نے وہاں بہت بڑا محل، باغات، خدمت کیلئے شاہی کنیزیں، غلام اور عیش و عِشرت کا بہت سارا سامان روانہ کردیا ہوگا! بادشاہ چیخیں مار کر رونے لگا، بیوقوف سے بادشاہ کی یہ حالت دیکھی نہ گئی، حیرت زدہ ہو کر سوال کیا کہ بادشاہ سلامت! یہ اچانک آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا میں نے وہاں ایسا کچھ نہیں بھیجا، بے وقوف شخص کہنے لگا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ بہت عقل مند اور سمجھدار ہیں آپ نے کچھ نہ کچھ ضرور بھیجا ہوگا؟ بادشاہ آہیں بھرنے لگا اور ساتھ کہہ رہا تھا نہیں، نہیں، میں نے واقعی وہاں پر کچھ انتظام نہیں کیا، بیوقوف نے جانے کی تیاری کی اور اپنے شاہی محل سے رخصت ہونے سے قبل اس نے اپنا شاہی ہار گلے سے اتار کر بادشاہ کے گلے میں ڈال دیا اور بادشاہ سے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس ہار کے مجھ سے زیادہ آپ حقدار ہیں لیجئے آپ کا ہار آپ کو مبارک ہو۔
اس وقت ہماری مجموعی صورتِ حال بھی کچھ اس طرح کی ہوچکی ہے، ہم اپنی اصل منزل سے بے بہرہ ہوچکے ہیں اور عقلمندی اور دانائی کے ڈونگرے بجا رہے ہیں، بادشاہ بے وقوف کے جانے کے بعد کافی دیر تک سوچتا رہا اسے اپنے تخت کی عیش و عشرت بہت یاد آئی، کبھی وہ عشرت کدہ میں بیٹھ کر بڑے بڑے حکم صادر فرماتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ گویا بدل گیا تھا، اسے اس موقع پر اصلی اور نقلی ہیرے کی پہچان کرنے والے نابینا کا واقعہ بہت یاد آیا جب اس نے کانچ کے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کہ کیا تھا کہ کوئی کانچ اور اصلی ہیروں میں فرق کرنے والا ہے وہ میدان میں آئے جو یہ مرحلہ کامیابی سے عبور کرے گا وہ اسے منہ مانگا انعام دے گا اور جو کوئی ناکام ہوگا اس کا سر تن سے جدا کردے گا، انعام کی لالچ میں درجن بھر جوہری سر قلم کروا بیٹھے کیونکہ کانچ کے نقلی ہیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا، منادی سن کر خراماں خراماں ایک اندھا شاہی محل میں داخل ہوا، سلام کے بعد عرض کی کہ میں وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کرسکتا ہوں، بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنے کی شرط بھی بتائی، اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ہوگیا جس کے بعد ہیروں کی تھیلی اسے دی گئی اور اس نے ہیروں کی تھیلی اٹھائی اور شاہی محل سے نکل گیا، ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا، اس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ہاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے، شاہی ماہرین جوہر کو طلب کیا گیا سب نے خوب جانچ پڑتال کی اور اس بات کی تصدیق کردی کہ اندھا مقابلہ جیت گیا ہے، بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک کام جو آنکھوں والے نہیں کرسکے، وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا؟ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟ اندھا بولا یہ تو بہت آسان کام ہے میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہوئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے، بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نوازا، نابینا شخص کی رخصتی کے ساتھ ہی بادشاہ کا غصہ، انا اور دماغ کی گرمی بھی رخصت ہوگئی اور اسے یہ بات سمجھ آگئی کہ برداشت، نرم مزاجی، حلیمی، متانت اور محبت ہی انسایت کی معراج ہے جو گرم حالات کو برداشت کر گیا وہ ہیرا جو نہ کرسکا وہ کانچ۔ بادشاہ جان گیا کہ اسے بھی ساری عمر اصلی اور نقلی منزل کی پہچان نہیں ہوسکی، ایک بزرگ نے اصلی اور نقلی کی بات بڑے اچھے انداز میں سمجھائی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اصلی اور نقلی میں صرف برداشت کا فرق ہے، پوچھا گیا کہ بزرگو! انسان آخر کب تک برداشت کرے؟ کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟ کب تک اپنے غصے کو پیتا رہے؟ آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہی یا نہیں؟ بزرگ مسکرائے اور بولے، بیٹا اس وقت تک برداشت کیا جائے جب تک ہیرا نہ بن جا، پوچھا گیا پھر آخر کیا ہوگا؟ اس کے بعد بزرگ نے کہا کہ ہیرا بننے کے بعد کوئی دبا نہیں سکے گا، کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرے گی، یہاں سے انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو انسان بننے اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)