رانا نسیم
انسانی زندگی کے سفر میں ایک ایسا موڑ بھی آتا ہے، جب وہ خود کو اتنا مضبوط یا طاقتور محسوس نہیں کرتا جیسا وہ کبھی ہوا کرتا تھا، چند ایسے کام بھی اس کے لئے مشکل ہوجاتے ہیں، جن کی تکمیل کبھی اس کے لئے ایک عمومی معاملہ ہوا کرتی تھی۔
جی ہاں! یہ وہ حالت ہے، جب انسانی جسم ضعف کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کے 40 سال گزارنے کے بعد کسی بھی انسان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہتی، 40 برسوں کے بعد انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں، اس کے علاوہ نیند میں کمی اور جسم پر مختلف بیماریوں کا حملہ ہونا شروع ہوجاتا ہے، تاہم اس حالت میں جو چیز سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے وہ آپ کی غذا ہے، کیونکہ ضعف کی طرف مائل جسم کا میٹابولزم نظام سست ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کے بعد خود کو صحت مند رکھنے کے لئے آپ کو غذائی ضروریات کی تکمیل میں احتیاط برتنا لازمی ہے۔ نوجوانی کے دور میں آپ جو مسالے دار اور بھاری غذائیں کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور یہ غذائیں شاید آپ کو اس وقت زیادہ پریشان بھی نہ کرتی ہوں، لیکن ان عادات کو اگر 40 سال کی عمر کے بعد بھی برقرار رکھا جائے تو آپ کے لئے طبی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا ماہرین طب کے مطابق خود کو صحت مند کھنے کے لئے چند ایسی غذائیں ہیں جنہیں آپ کو 40 سال کی عمر کے بعد ترک کر دینا چاہئے اور یہاں ہم ایسی ہی چند غذاؤں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جن سے آگاہی کے ذریعے قارئین کو چندہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
مصنوعی مٹھاس:
یہ جانیں بنا کے جدید ریسرچ نے چینی کو سفید زہر قرار دے دیا ہے، ہماری اکثریتی آبادی کے دانتوں میں زیادہ تر میٹھا ہی لگا رہتا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں کچھ آگاہی آئی تو انہوں نے چینی کے طبی نقصانات سے بچنے کے لئے مصنوعی مٹھاس کا رخ کرلیا لیکن درحقیقت یہ مٹھاس بھی 40 سال سے زائد عمر کے افراد کے لئے اچھی نہیں بلکہ نقصان کا باعث ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق مصنوعی مٹھاس کا استعمال انسانی جسم میں صرف مٹھاس کی خواہش کو بڑھاوا دیتا ہے، جس سے ذیابیطس سمیت صحت کے دیگر مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تاہم اگر آپ کو میٹھا بہت پسند ہے اور آپ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تو پھر قدرتی میٹھا استعمال کریں۔ جیسے تازہ پھلوں کا رس، شہد وغیرہ، جو ناصرف آپ کی میٹھا کھانے پینے کی خواہش کو پورا کریں گے بلکہ ان کے استعمال سے آپ کی مجموعی صحت پر مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
سوڈے والی بوتلیں:
اگرچہ سوڈا کا استعمال کسی بھی عمر میں اچھا نہیں لیکن 40 برس کے بعد آپ کا جسم زہریلے مادوں کا اخراج بند کر دیتا ہے یا اس کام کے لئے اسے بہت زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے اور اس مشقت میں کوئی نہ کوئی دوسرا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب مختلف بوتلوں میں جو کیمیکلز پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک 4-نامی کیمیکل ہے، جو کینسر کے بڑھاوے سے منسلک ہے۔ دوسرا بچوں کی خواہش رکھنے والے 40 برس کے شادی شدہ جوڑے کو تو اس ضمن میں مزید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ 2 سال قبل ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق سوڈے کا بے جا استعمال شرح پیدائش کو متاثر کرتا ہے۔
کھانے والے رنگ:
رنگ دکھنے میں ہو یا کھانے میں، عصر حاضر میں اس کی مانگ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، تاہم ہم یہاں کھانے والے رنگوں کی بات کررہے ہیں، یعنی کھانوں کو مختلف رنگت دینا، جیسے اسنیکس، چاول، کینڈی، آئس کریم وغیرہ۔ اگرچہ فوڈ اتھارٹیز ان رنگوں کو قبولیت کی سند بھی دے دیتی ہے لیکن پھر بھی یہ آپ کی صحت کے لئے اچھے نہیں، ان رنگوں کے استعمال سے کینسر کے اسباب پیدا ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، لہٰذا ان مصنوعی رنگوں کے بجائے کھانوں میں ہلدی، چقندر جیسی قدرتی اشیاء کا استعمال کریں، جو ناصرف پکوان کو رنگین بنا دیں گے بلکہ کھانے کی غذائیت بھی بڑھا دیں گے۔
پھلوں کا رس:
عمومی طور پر ہمارے ہاں پھلوں کے رس کو صحت مند قرار دیا جاتا ہے، تاہم یہ پورا سچ نہیں، خصوصاً اس وقت جب یہ مارکیٹ میں مختلف ناموں سے ملنے والی بوتلوں سے حاصل کیا جائے، ایک تو ان بوتلوں میں سو فیصد پھل کا رس نہیں ہوتا بلکہ اس میں دیگر اجزا بھی شامل کئے جاتے ہیں دوسرا پھل کا جوس پینے اور پھل کھانے میں بڑا فرق ہے۔ جیسے ایک عام محاورہ ہے کہ روزانہ ایک سیب کھانا ڈاکٹر کو آپ سے دور رکھ سکتا ہے لیکن کیا کبھی آپ نے یہ بھی سنا یا پڑھا کہ روزانہ ایک گلاس سیب کا رس پینے سے آپ ڈاکٹر سے دور رہ سکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آپ پھل کھاتے ہیں تو آپ جوس کے ساتھ ساتھ فائبر بھی لیتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ کا جسم ضرورت کے مطابق اور ایک کنٹرول شرح کے ساتھ اس پھل کو ہضم کرے گا اور آپ کے شوگر لیول کو بڑھنے نہیں دے گا، تاہم اگر آپ جوس پیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ چینی کھانے جا رہے ہیں، جس میں کوئی فائبر نہیں ہے، نتیجتاً توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر آپ اسے جسمانی مشقت کے ساتھ استعمال نہیں کرتے ہیں، تو یہ چربی میں بدل جاتا ہے، جو بالآخر نقصان کا باعث ہے۔
پیکٹوں میں بند تیار شدہ گوشت
عصرحاضر میں انسانی سہل پسندی اور وقت کی کمی نے ہمیں تیار شدہ اشیاء کا اسیر بنا دیا ہے، اب گھر میں تازہ گوشت لا کر اس کو بنانے پر محنت کرنے کے بجائے بازار سے پیکٹوں میں بند تیار شدہ گوشت لایا جاتا ہے اور جیسے ہی ضرورت پڑے فوراً فریج سے نکال کر اسے چند لمحوں میں کھانے کے لئے تیار کر لیا جاتا ہے، تاہم آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے میڈیکل سائنس اس روش کو درست قرار نہیں دیتی، کیونکہ زیادہ تر پیکنگ میں دستیاب تیارشدہ گوشت میں سوڈیم، نائٹریٹ، ترمیم شدہ کارن اسٹارچ اور کیریجینن جیسے اجزا کی زیادہ مقدار ہوتی ہے اور یہ سب پیٹ کی چربی کو بڑھانے اور صحت کے کچھ دیگر سنگین مسائل پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا اگر آپ گوشت کے شوقین ہیں تو بازار سے تازہ گوشت لائیں اور اسے خود پکا کر کھائیں۔
بغیر برتن آگ پر تیار کیا جانے والا گوشت
اگرچہ گرل یا سیخ کے ذریعے گوشت تیار کرنا یعنی باربی کیو کرنا دوستوں یا خاندان کی کسی تقریب میں نہایت بھلا محسوس ہوتا ہے لیکن اگر آپ 40 برس کی عمر سے اوپر جا رہے ہیں تو یہ گوشت آپ کی صحت کے لئے اچھا نہیں کیونکہ جب آپ گوشت براہ راست آگ پر تیار کرتے ہیں تو گوشت میں موجود (ایچ سی اے ایس) اور (پی اے ایچ ایس) جیسے پروٹینز چند ایسے اجزا کو بڑھاوا دے سکتے ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ ہے، ماہرین کے مطابق اس عمل سے آپ کے جسم میں کینسر کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، لہٰذا اگر آپ کو باربی کیو نہایت پسند ہے تو آپ کو اسے براہ راست آگ پر تیار کرنے کے بجائے کسی ڈھکن والے برتن میں ڈال کر تیار کرنا چاہئے، جس سے نہ صرف آپ کو غذائیت ملے گی بلکہ باربی کیو والی خوشبو سے بھی آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
سفید پاستہ اور بریڈ
آج کل پاستہ اور بریڈ شاید عمومی خوراک کا وہ جزو لازم بن چکے ہیں، جنہیں غذا سے نکالنا بہت دشوار محسوس ہوتا ہے، تاہم اگر آپ یہ جان لیں کہ پاستہ اور بریڈ کس چیز سے اور کس طرح تیار ہوتے ہیں تو شاید یہ آپ کے لئے چھوڑنا آسان ہوجائے۔ پاستہ اور بریڈ میدے سے بنتا ہے، جو ایک خاص عمل کے بعد گندم سے حاصل ہوتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے میدے میں سے تمام فائبر اور دیگر غذائی اجزا چھین لئے جاتے ہیں اور یہ ہائی گلیسیمک بن جاتا ہے، جو بلڈ پریشر کو تیزی سے بڑھاتا یا گراتا ہے۔ جب آپ پاستہ یا بریڈ زیادہ کھاتے ہیں تو آپ کو ذیابیطس ہوسکتی ہے اور آپ موٹاپے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ آپ کا جسم کاربوہائیڈریٹ پر تیزی سے عمل نہیں کرسکتا۔
چکنائی سے غیرضروری پرہیز
کئی بار جب لوگوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے تو وہ چکنائی یعنی فیٹس سے بہت دور بھاگتے ہیں حالانکہ فیٹس سے پاک خوراک وہ پھندا ہے، جس میں موٹے افراد سب سے زیادہ پھنستے ہیں، موٹاپے کا شکار افراد چکنائی سے پاک غذاؤں کا انتخاب کرتے ہیں، جن میں ان کی مدد طبی اعتبار سے کھانے پینے کی پروڈکٹس بنانے والی مختلف کمپنیاں کرتی ہیں، اگرچہ اس خوراک میں چکنائی نہیں ہوتی لیکن اس میں چینی، نمک اور دیگر اجزا تو ہوتے ہیں اور بعض اوقات چکنائی کی عدم موجودگی میں ان اجزا کی کثرت صحت کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اسی طرح 90 کی دہائی میں چکنائی سے پاک دودھ کی غذاؤں کا بڑا شوروغلغلا اٹھا تھا، جس کے بعد دودھ سے بننے والی غذاؤں میں مصنوعی شوگر و دیگر اجزا کا استعمال بڑھا حالانکہ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ چکنائی کے بغیر مصنوعی شوگر سمیت دیگر اجزا انسانی جسم کے لئے زہر ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا چکنائی سے پاک اشیاء سے غیرضروری حد تک پرہیز مت کریں۔
ذائقہ دار دہی
اس سے انکار نہیں کہ ذائقہ دار دہی عام دہی سے کہیں زیادہ تسلی بخش ہے تاہم دیگر ذائقہ دار کھانوں کی طرح یہ بھی اضافی چینی اور دیگر ذائقہ دار اجزا سے بھری ہوتی ہے جسے آپ کے جسم کو آزمانا اور ہضم نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کے جسم کا اندرونی نظام بلاوجہ کی مشقت کا شکار ہو کر تباہی کا شکار ہوسکتا ہے۔
ڈبوں میں محفوظ پھل
یہاں ایک اور ایسی پریشانی کھڑی ہے، جس سے آپ کو نجات حاصل کرنا ہے اور وہ ہے ڈبوں میں بند مختلف پھل، جنہیں کاٹ کر ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے اور انہیں زیادہ دیر تک خراب ہونے سے بچانے کیلئے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے، آج عمومی طور پر لوگ آہستہ آہستہ راغب ہورہے ہیں، حالانکہ یہ کوئی اچھی روش نہیں کیونکہ تازہ کے بجائے ڈبوں میں بند پھلوں کے کھانے سے جلد ہی آپ کا پیٹ باہر نکلنا شروع ہوجائے گا۔
فاسٹ فوڈ
چالیس کی دہائی کو پہنچتے ہوئے فاسٹ فوڈ کا بے جا استعمال نہایت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، ماہرین کے مطابق فاسٹ فوڈ ذیابیطس کی ٹائپ ٹو کے خطرات کو جنم دیتا ہے، ایک مطالعہ کے دوران محققین نے 3 ہزار ایسے افراد پر تحقیق کی جو ہفتے میں کم از کم دو بار ضرور فاسٹ فوڈ کھاتے تھے اور اس استعمال کی وجہ سے ان میں انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کا خطرہ دو گنا بڑھ گیا۔
سبزیوں کا تیل
ایک جسم کے بہترین اندرونی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے توازن نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لئے آپ کے جسم کو مخصوص مقدار میں تیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 21 ویں صدی میں ہم جس بڑے عدم توازن کا مقابلہ کر رہے ہیں ان میں سے ایک اومیگا 6 اور اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہے، یہ دونوں فیٹی ایسڈ اہم ہیں، لیکن ان میں توازن نہایت ضروری ہے۔ سبزیوں کے تیل جیسے سویا بین، مکئی اور روئی کے بیجوں کے تیل میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں ہوتا ہے، لہٰذا کبھی کبھار توازن پیدا کرنے کے لئے تیل سے پرہیز کریں، جس سے آپ کا دل صحت مند رہے گا اور آپ خود کو بہت بہتر محسوس کریں گے۔
بوتل والی ٹھنڈی کافی
سب سے پہلے یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر لوگ بوتل والی ٹھنڈی کافی کی طرف اتنا کیوں راغب ہورہے ہیں؟ کیا ملک شیک اس سے کہیں زیادہ بہتر نہیں؟ ایک طرف تو آپ کولڈ ڈرنکس سے خود کو دور رکھنے کی اپنے تئیں بہترین کوشش کرتے ہیں کہ یہ نقصان کا باعث ہیں لیکن دوسری طرف آپ بوتل والی کافی کی طرف میلان بھی بڑھا رہے ہیں حالانکہ بازار سے ملنے والی بوتلوں میں تو شاید چند خصوصیات بھی ہوتی ہیں، جیسے وہ میٹابولزم کو بڑھاوا دیتی ہیں، لیکن بوتل والی کافی کا تو نقصان زیادہ بڑا ہے کیونکہ اس میں شوگر زیادہ مقدار میں ہوتی ہے، جس سے آپ ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ ہارمونز میں خلل کی وجہ سے آپ کی جلد پر مہاسے بننے لگتے ہیں کیونکہ زیادہ تر کولڈ کافیز قدرتی کافی کے بیج سے تیار نہیں ہوتیں۔
کھانے والا سوڈا
چالیس برس کی عمر کو پہنچتے ہوئے آپ کو کھانے والے سوڈے سے پرہیز شروع کر دینا چاہئے لیکن اس کے ساتھ اگر آپ شوگر سے پاک یا صفر کیلوریز والی غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں تو یہ بھی آپ کے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں، لہٰذا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ سوڈے میں مصنوعی مٹھاس آپ کے لئے نقصانات دہ ہے کیونکہ اس کے استعمال سے آپ کے اندر مٹھاس کی خواہش بڑھ جاتی ہے، جوکہ درست امر نہیں ہے۔ کھانے والے سوڈے میں شامل مٹھاس عام چینی سے 200 سے 600 گنا زیادہ میٹھی ہوتی ہے، یوں کھانے والے سوڈا کے زیادہ استعمال سے آپ کا لبلبہ متاثر ہوتا ہے اور وہ غلط وقت پر انسولین کے اخراج کے لئے متحرک ہو جاتا ہے۔
فارمی مچھلی
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مچھلی کو آپ کی خوراک کا حصہ بنانا ضروری ہے لیکن دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مچھلیوں کی کم ہوتی تعداد کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مچھلی کی افزائش اور اس سے بننے والی مصنوعات میں اضافہ ناگزیر ہے اور اس مسئلہ کو مچھلی کی فارمنگ کے ذریعے حل کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے، جو ایک اعتبار سے درست معلوم ہوتا ہے لیکن یہ مچھلی انسانی صحت کے لئے اتنی فائدہ مند نہیں جتنی سمندروں اور دریاؤں میں قدرتی طور پر جنم لینے والی مچھلی ہے۔ فارمی مچھلیاں ایک طرح کی قید میں پیدا ہوتی اور پلتی ہیں، جو انسان کی تیار شدہ خوراک پر انحصار کرتی ہیں اور یہ خوراک اومیگا 6 فیٹی ایسڈ سے بھرپور ہوتی ہے اور جب ایک 40 سالہ فرد فارمی مچھلی کھاتا ہے تو اس میں اومیگا فیٹی ایسڈ کا عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے اور نتیجتاً صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں، لہٰذا فارمی کے بجائے ہمیشہ نامیاتی مچھلی کو ترجیح دیں۔
مصنوعی پروٹینز
انسانی خوراک میں دن بہ دن گھٹتی غذائیت کو پورا کرنے کے لئے آج مارکیٹ میں مختلف اقسام کے نیوٹریشن پاؤڈر دستیاب ہیں، جن میں مصنوعی پروٹینز بھی شامل ہیں لیکن 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو ان پر انحصار کرنے کے بجائے قدرتی پروٹینز کی طرف جانا چاہئے کیونکہ مصنوعی پروٹینز میں شوگر سمیت دیگر اضافی اجزا پائے جاتے ہیں، جو کبھی بھی ڈھلتی عمر کے فرد کے لئے مناسب نہیں ہوسکتے۔
آلو کی چپس
جب آپ 40 کی دہائی تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر آپ کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ آپ آلو کی چپس اور برگر وغیرہ سے پرہیز کریں کیوں؟ کیونکہ چپس کا کیا مطلب ہے یعنی آپ آلو کو ٹکڑوں میں بانٹ کر تیل میں فرائی کرتے ہیں تو آلو اپنی قدرتی افادیت کھو دیتا ہے، پھر چپس آلو کو چھیل کر بنائی جاتی ہے جبکہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ فائبر اور دیگر غذائی اجزا درحقیقت آلو کے چھلکے میں ہی تو پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آلو کی چپس کے ساتھ برگر کھانے کا رواج بھی آج عام ہورہا ہے اور برگر اپنے تئیں ایک طبی مصیبت ہے تاہم اگر آپ آلو کی چپس کے دلدادہ ہیں تو آپ انہیں گھر پر خود تیار کریں، پہلے بات تو یہ کہ آلو کا چھلکا مت اتاریں، اسے صرف صاف کریں دوسرا تیل میں فرائی کرنے کے بجائے اسے اوون میں اسٹیم پر بنائیں تو یہ آلو کی چپس آپ کو نقصان کے بجائے فائدہ دے گی۔
بڑے جانور کا گوشت (بیف)
بیف سے پرہیز خصوصاً مردوں کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے لیکن بڑھتی عمر آپ کی مشکلات کم نہیں بلکہ زیادہ کرتی ہے تو آپ کو یہ قربانی بھی دینا ہی پڑے گی، لہٰذا جب آپ 40 کے ہوجائیں تو یہ سرخ گوشت بار بار آپ کے کھانے میں دکھائی نہیں دینا چاہئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسئلہ بڑے گوشت میں نہیں بلکہ بڑھتی عمر میں ہے۔
قوت بخش مشروبات
قدرتی طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ کمزوری کا احساس بڑھ جاتا ہے، اگرچہ آپ زیادہ دیر تک نیند لے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ تھکے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ قوت بخش مشروبات (انرجی ڈرنکس) کے بارے میں جو تاثر دیا جاتا ہے، اس سے مرعوب ہو کر بعض افراد ان میں اپنی کمزوری کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو سراسر غلط ہے، ان مشروبات سے شاید آپ کو وقتی طور پر کچھ طاقت محسوس ہو لیکن ایک خاص وقفے کے بعد آپ کی حالت پہلے جیسی ہوجائے گی بلکہ ان مشروبات کا مسلسل استعمال آپ کی صحت کو بگاڑ کر رکھ دے گا کیونکہ ان مشروبات میں چینی اور کیفین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔