Friday, June 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کربلا کی باہمت خواتین

حضرت زینبؓ کے خطبات نے انسانیت اور توحید کے دشمنوں کے چہرے بے نقاب کردیئے

سیدہ معصومہ شیرازی

مرقد رسولؐ پر ایک جانگداز اداسی طاری ہے۔ خوشبو دار مٹی پر اپنا رخسار ٹکائے حسینؓ نانا سے راز و نیاز فرما رہے ہیں۔ آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور لبوں پر انسانی اقدار کی موت کا نوحہ ہے۔ نانا آپ کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں…. مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا…. نواسۂ رسولؐ بے قراری سے خاک تربت سے ہتھیلیاں مس کرتے ہوئے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرما رہے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ظالموں کے مقابل ہجرت فرماتے ہوئے تلاوت کی تھی: ترجمہ
’’یا خدا ظالم قوم سے نجات عطا فرما‘‘
اب حسینؓ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوچکی ہے…. اردگرد کھڑے لوگ بھی بے اختیار ہچکیاں لے لے کر رو رہے ہیں۔ گویا مدینہ سے الوداعی سفر کا آغاز ہونے والا ہے۔ یہی وہ کڑا وقت ہے جو کندھوں پر سواری کرنے والے، لعاب دہن کی مٹھاس کا ذائقہ چکھنے والے کے لئے بے حد گراں اور کڑا ہے۔
حسینؓ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم اٹھائے دین محمدیؐ کی آفاقی تعلیمات کو دوبارہ زندگی دے کر فرمان رسولؐ کو سچ ثابت کررہے ہیں کہ ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ انسانیت کے گلے سے طاغوت کی جابرانہ بیعت کا طوق اتارنے والے اور آدمیت کو آزاد اور توحید پرست موسموں کا مسافر بنانے والے مسیحا حسینؓ اکیلے نہیں ہیں۔ ساتھ خاندانِ عصمت کی باپردہ پاک بیبیاں بھی ہیں۔ گویا حق و آگہی کے اس سفر میں مولا حسینؓ نے خواتین کو بھی شانہ بشانہ انقلابی کردار ادا کرنے کا شرف عطا کیا حالانکہ اشراف مدینہ نے دبے لفظوں میں خواتین کی ہمراہی پر سوال بھی اٹھا جبکہ حضرت امام حسینؓ جانتے تھے کہ کل نانا نے حضرت خدیجہؓ کے ایثار اور قربانی سے اسلام کی بنیادیں مضبوط کیں۔ مباہلہ کے میدان میں جناب زہراؓ کو حق کی نمائندگی عطا اور آج حسینؓ انقلاب آفرین خواتین کورزم حق و باطل میں مکمل اور بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع عطا فرما رہے ہیں۔
عصر عاشور تک خیر و شر کی اس آفاقی اور حقیقی معرکہ آرائی میں حق پرست مردوں نے علم آزادی کو اپنے پاک لہو سے سربلند کیا مگر یہاں پر ہی ان توحید پرست عاشقوں کے جذبہ عشق کو بڑھانے والی وہ عظیم کردار خواتین تھیں جو اپنے جگر پاروں کو راہ حق میں پیش کرتے ہوئے ایک عظیم جذبے سے ان کے حوصلوں کو چٹان بنا رہی تھیں۔ یہاں صرف خاندانِ نبوت کی انقلاب پسند خواتین کے بلند جذبے نہیں بلکہ بادیہ نشیں عورتوں کے وہ عظیم کردار بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں جو اپنے وارثوں اور محافظوں کو رزمیہ رجز سنا کر حق کا ساتھ دینے کے لئے راہِ حق میں پیش کررہی تھیں۔ یہاں ہمیں دھبِ کلبی کی زوجہ زہیر بن قین کی والدہ اور بیوی اور دیگر باہمت خواتین کے بہادرانہ کلمات ملتے ہیں جو فوجِ اشقیا سے مخاطب ہو کر دہرا رہی تھیں۔
مٹھی بھر عاشقانِ توحید ظلم کے آتش فشاں میں پورے ثبات اور یقین کے ساتھ اترے اور عصر عاشور تک حق و باطل کا ایک آفاقی میزان ترتیب دے دیا۔ اب شامِ غریباں کی المناک تنہائی میں حق پرستوں کے لہولہان لاشے اور جلے ہوئے خیموں کی گرم راکھ تھی جو دل ہولائے دے رہی تھی۔ اگر صرف مردانِ حق اس کارزار میں لہو کے پرچم اٹھائے شمع توحید پر اپنے وجود وار کر سرخرو ہو جاتے تو اہل ظلم انہیں مٹی کے سپرد کرکے اس عظیم معرکے کو چھپانے کی کوشش کرتے مگر یہاں پر خواتین کی موجودگی ان کے انقلاب آفرین مرثیوں کی صدائیں اور نواسی رسول کے فکر انگیز خطبے ایک اور عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ خواتین اور بچوں کا یہ قافلہ دراصل شہیدانِ راہِ حق کے پاک لہو کا حساب مانگ رہا تھا۔ یہیں پر ہمیں نواسہ رسولؐ کی اس عظیم مصلحت کا ادراک ہوتا ہے جہاں آپ نے خواتین پرسہ داروں کو شریک سفر فرمایا۔
خاک و خون سے غسل کرتی ہوئی سوگوار ہواؤں نے ان ماتمی اور احتجاجی صداؤں سے حق کی خوشبو کشید کی۔
کوفہ کے بازاروں میں نواسی رسولؐ کے لہجہ علی میں دیئے ہوئے خطبے سوئی ہوئی مردہ انسانیت پر تازیانہ بن کر برس رہے تھے۔ چاروں طرف گریہ و بکا کا شور تھا…. ابن زیاد کا محل زلزلے کی زد میں تھا…. ظالموں کے دل انجانے خوف سے لرز رہے تھے۔ گویا لہو کا یہ سمندر اب باطل کو خس و خاشاک بنانے پر تل گیا تھا…. یہ ایک خاتون کی ظالم اور فاسق مردوں کے درمیان ایسی طاقتور تحریک تھی جس نے چند مہینوں میں یزید اور اس کے ظالم نمائندوں کو فنا کی قبروں میں سلا دیا۔ گویا ذوالفقار حیدری کی کاٹ اب زینبؓ کی زبان میں سما چکی تھی۔ یہ قافلہ گویا جہانِ انسانیت کی معروج بن چکا تھا۔ ان مٹھی بھر حق پرست خواتین نے اپنے جذبوں اور لفظوں سے باطل کو سرنگوں کردیا اور تاریخ کے ماتھے پر لہو کی سرخرو داستان کا جھومر سجا دیا اور بتا دیا کہ اقدار کی جنگ میں افرادی قوت کام آتی ہے اور نہ لاؤلشکر۔ انسانیت اور اقدار کی جنگ میں لشکر ہار جاتے ہیں اور ایک ماں کا شیرخوار بچہ جیت جاتا ہے۔
شامِ غریباں کی سوگوار فضا سے حق کا پرچم اٹھائے ورد لاالہ الااللہ کرتی ہوئی مجاہدات نے زمانوں کو تسخیر کیا۔ باطل کے مقابل اپنے طاقتور کردار کی عظمت کو منوایا۔ کوفہ سے شام تک مقتل سے منبر کا سفر شروع ہوا…. منبر اظہار کی ملکہ خطیب سلونی کی تصویر نے قدم بہ قدم منزل بہ منزل اپنے انقلابی خطبات سے ضمیروں کو قیامت تک کے لئے بیداری کا جام پلایا۔ ہر پڑاؤ، ہر قریے اور منزل پر شہزادی کے فی البدیہ انقلابی اشعار و مرثیے اور حق مزاج خطبے حشر برپا کرتے رہے۔ بے حس و غافل انسانوں کو جگانے والی وہ آواز جس نے تاریخ کی راہداریوں کو حق کی بلند آہنگ صداؤں سے سجا دیا۔ (اے خدا میری اس قربانی کو قبول فرما) کی صداؤں نے کربلا کے سخت دل مجمع کو ندامت کے سمندر میں ڈبو دیا۔ عابدہ، زاہدہ، بلیغہ، فقیہہ اور عقیلہ شہزادی نے امامت کے منصب کی نیابت فرمائی۔ لشکر حق کی نڈھال خواتین کی سرپرستی فرمائی اور پیامِ حق کا علم سربلند کیا۔ آپ کی صدائے انقلاب حجاز و یثرب تک پھیل گئی۔ بلاد اسلامیہ کے سفیروں کے سامنے عظیم الشان خطبے نے پوری ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ شام کی ظالم فضاؤں میں احتجاج کی عظیم تحریک نے سر اٹھایا۔ شام کے بازاروں میں شہزادی کا یہ جملہ کہ ’’کیا جواب دو گے بروز قیامت جب رسول خدا تم سے پوچھیں گے کہ تم نے ان کی اولاد کے ساتھ کیا کیا؟ تم ظالموں کے ہمنوا بن گئے ہو اور عنقریب بے خبری میں یہ ظلم تمہارے سروں تک آنے والا ہے۔‘‘
اس میدان میں حضرت اُمِ کلثوم بنت علیؓ کے عظیم خبات فاطمہ کبریٰ حسین کے عظیم مجاہدانہ کلمات انقلاب پرستوں کا پورا نصاب ہیں۔ قادسیہ اور موصل میں حضرت زینبؓ نے اپنی عظیم گویائی سے شامی فوج کو خوفزدہ کردیا۔ لوگوں نے فوج پر پتھر برسائے اور اپنے قریوں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ کئی جگہوں پر بی بی کے اس عظیم مجاہدے کی بدولت لوگوں نے خاندانِ اہلبیت کو آزاد کروانے کے لئے اپنی جانیں وار دیں۔
گویا کربلا کے لہو لہو عشق زار سے انقلاب پرست خواتین کا وہ عظیم سفر شروع ہوا جس سے ظالموں کی حکومت کے سارے ستونوں کو لرزا کر رکھ دیا۔ پورے ملک میں بغاوت اور غم و غصے کی فضا برپا ہوگئی اور کچھ ہی عرصے میں اس ظالم حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ کاش اسلام اور شریعت کے راستوں پر خواتین اپنے منصب کو پہچان کر اپنی طاقتور آواز کو توحید کی عظمت اور عزت کے لئے وقف کردیں تو دنیا ایک بار پھر سارے طاغوت پسند عناصر کے چیختے لہجوں کو فنا کی قبروں میں دفن کردے گی۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل