بد قسمتی سے اس کی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے اور عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے
ڈاکٹر آصف چنٹر
ان دنوں پاکستان میں ڈینگی کا مرض ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے جس سے پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ ودیگر صوبے بالخصوص بڑے شہر لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کراچی اس کی لپیٹ میں ہیں اور اس مرض میں روزبروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
بدقسمتی سے اس کی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے اور عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے۔ دراصل ڈینگی ایک انفیکشن ہے جو ایک خاص وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے جس کی ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت ذرا لمبی ہوتی ہیں۔ کسی متاثرہ شخص کو کاٹنے سے یہ وائرس اس مچھر میں آجاتا ہے اور اس کے بعد اگر یہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹ لے تو یہ وائرس اس میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ڈینگی بخار عموماً ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جن کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ چار مختلف اقسام کے وائرس انسانوں میں ڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ایک قسم کے وائرس کا حملہ صرف ایک بار ہی ہوسکتا ہے۔ دوسری مرتبہ ڈینگی بخار دوسری قسم کے وائرس سے ہوسکتا ہے اور یوں زندگی میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چار مرتبہ یہ عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ڈینگی بخار کا دوسرا نام بریک بون فیور بھی ہے۔ اسے یہ نام اس لئے دیا جاتا ہے کہ اس بخار کے دوران ہڈیوں اور پٹھوں میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ بیماری گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں، تاہم بروقت علاج سے اس مرض سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور 99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم لوگوں میں یہ مہلک شکل اختیار کرتا ہے۔ دیگر مچھروں کے برعکس ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے۔ گندے تالابوں اور جوہڑوں کی بجائے یہ مچھر گھریلو واٹر کولر، ٹینکوں کے قرب و جوار، صاف پانی سے بھرے برتنوں، پودوں کے گملوں، غسل خانوں اور بارش کے صاف پانی میں تقریباً سارا سال ہی پلتا رہتا ہے تاہم برسات کے موسم میں تیزی سے افزائش نسل کرتا ہے۔ عموماً یہ مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ مچھر دن کے کسی بھی حصے میں کاٹ سکتے ہیں۔ وائرس زدہ مچھر کے صرف ایک ہی بار کاٹنے سے یہ بیماری انسان میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص (شخص سے شخص تک) کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے، اس لئے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کے بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ وائرس کو لے جانے والے مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ ان علامات میں تیز بخار، سردی لگنا، جسم میں شدید درد اور کمزوری، بیماری کے دوران ٹانگوں اور جوڑوں میں شدید درد، سر درد اور بالخصوص آنکھوں کے پیچھے شدید درد، منہ کا ذائقہ کڑوا ہونا، ڈینگی بخار کی یہ علامات دو تا چار دن رہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ مریض کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور نارمل محسوس کرنے لگتا ہے مگر بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن رہتی ہے جس کے بعد بخار دوبارہ تیزی سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم پر باریک دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ چہرہ محفوظ رہتا ہے البتہ ہتھیلیاں اور مسوڑھے سوج کر سرخ ہوجاتے ہیں۔ ڈینگی بخار کی شدید شکل جو بہت خطرناک اور جان لیوا ہوسکتی ہے اسے ڈینگی ہیمریجک فیور کہتے ہیں۔ اس کی نمایاں علامات میں آنکھوں کے پیچھے شدید درد، پیٹ درد اور جسم کے مختلف حصوں دانتوں، مسوڑھوں، ناک، پیشاب، پاخانے اور مقعد سے خون یا خون سے ملتی رطوبات کا رسنا شامل ہیں۔ خون میں پلیٹلیٹ ذرات کی مقدار خطرناک حد تک کم ہوسکتی ہے۔ خون کے اس غیرضرودی بہاؤ کی وجہ سے خون کے دباؤ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس حالت کو ڈینگی شاک سنڈروم کہا جاتا ہے جوکہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈینگی بخار کی تشخیص دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ مریض کی علامات سے اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے۔ ابتدا میں اس کا انحصار علامات پر ہوتا ہے جیسے بخار، جلد پر سرخ دھبے بننا، جسم میں درد اور آنکھوں کے پیچھے درد وغیرہ۔ خون کے ٹیسٹ میں پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی ہوجاتی ہے۔ دوسری قسم کے ٹیسٹ میں ڈینگی کے خلاف خون میں اینٹی باڈیز کی شناخت کرنا ہے۔ سب سے زیادہ کیا جانے والا ٹیسٹ ڈینگی آئی جی ایم، آئی جی جی کہلاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اگر ابتدائی علامات میں کروا لیا جائے تو نگیٹیو بھی ہوسکتا ہے کیونکہ عام طور پر اس اینٹی باڈی کو جسم میں بننے اور شناخت کرنے میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔ اس بیماری کے علاج کے لئے مریض کو مددگار تھراپی دی جاتی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے۔ پیراسٹامول کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر مریض زیادہ کھا پی نہ رہا ہو تو ڈرپ لگانی چاہئے۔ اگر پلیٹلیٹس بہت کم ہوجائیں جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صورت میں پلیٹلیٹس کی ڈرپ لگانا ضروری ہوجاتا ہے۔ مریض کو مسلسل زیرنگرانی رکھ کر اس کے خون کے دباؤ، درجہ حرارت اور خون کے نظام کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو دوا لگی مچھر دانی میں رکھنا چاہئے۔ مختلف بڑے اسپتالوں میں اس مرض کی تشخیصی سہولیات، علاج اور ڈاکٹر سے مل کر مشورہ کی سہولت موجود ہے، عوام الناس جس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ پرہیز علاج سے یقیناً بہتر ہوتا ہے اور ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے بچاؤ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس کے مخصوص مچھر کو پھلنے پھولنے سے روک دیں۔ ایسی جگہوں پر اسپرے کیا جائے جہاں یہ مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کھڑے پانی کو نکالنے کا انتظام کیا جائے۔ مچھر دانی کا استعمال کیا جائے، گھروں میں گملوں کا پانی روزانہ تبدیل کیا جائے۔ ڈینگی کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔ اگر ہم اپنے اردگرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں تو اس سے نہ صرف ہم ڈینگی بخار بلکہ بہت سی دیگر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ڈینگی بخار کی تشخیص ہوجائے تو گھبرانے کی بجائے مناسب اور بروقت علاج احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔ اس طرح ہم باآسانی اس مرض کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ جہاں جہاں پانی کھڑا ہے وہاں اسپرے کریں اور عوام کا کام ہے کہ ایسی جگہوں کی نشاندہی کریں اور گھروں میں صاف پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور این جی اوز کو چاہئے کہ عوام کو اس مرض کے متعلق مکمل آگاہی فراہم کریں۔ 1979-80ء میں پہلی دفعہ اس بیماری کا پتہ چلا تھا۔ جب بیک وقت تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور امریکا میں یہ وبا پھیلی تھی۔ پاکستان میں 1994ء میں پہلی مرتبہ اس سے متاثرہ افراد دیکھے گئے۔ ڈینگی وائرس کا سبب بننے والا مادہ مچھر ایڈیز ایجپٹی لاطینی امریکا سے مصر میں منتقل ہوا۔ 1950ء میں ڈینگی وائرس کی پہلی بار ایشیائی ممالک میں تشخیص کی گئی۔ یہ وائرس سب سے پہلے فلپائن اور تھائی لینڈ میں پایا گیا، جس کے بعد ڈینگی وائرس تیزی سے بھارت، پاکستان، افریقہ، مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی پیسفک کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔ ڈینگی وائرس 1970ء سے قبل صرف 9 ممالک میں پایا جاتا تھا۔ 1995ء کے بعد اس وائرس کی شدت میں تیزی آگئی، عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا میں ہر سال دو کروڑ افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔ دُنیا بھر میں مچھروں کی تین ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، ان میں سے 70 فیصد مچھر ڈینگی وائرس پھیلانے کا سبب بننے والے ایڈیز ایجپٹی ہیں۔ ان خطرناک مچھروں کی تین اقسام ہوتی ہیں، ایڈیز ایجپٹی ، اینو فلیز اور کیولیکس ہے۔ ڈینگی وائرس کا سبب بننے والا مخصوص مادہ مچھر صاف پانی، پانی اسٹور کرنے والے ٹینک، گملوں، نکاسی آب، بارش کے پانی، جھیل اور ساکن پانی میں انڈے دیتی ہے۔ یہ مچھر 22 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں انڈے نہیں دیتی جس کی وجہ سے ان مچھروں کی افزائش کا عمل رک جاتا ہے تاہم ان مچھروں کے دیئے جانے والے انڈے محفوظ رہتے ہیں اور اپنی نسل کی افزائش کے لئے بہترین موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ جولائی سے دسمبر تک ان مچھروں کے انڈوں سے تیزی سے افزائش ہوتی ہے تاہم سرد موسم میں ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے۔ ڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر کو اپنے انڈے دینے کے لئے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مادہ مچھر پروٹین کی تلاش میں انڈے کے مقام سے 25 سے 30 کلومیٹر دور پالتو جانوروں، بھینسوں کے باڑوں میں جانوروں کو کاٹ کر اپنی غذا اور پروٹین حاصل کرتی ہے تاہم جانور نہ ملنے کی صورت میں مادہ مچھر انسانوں کو کاٹتی ہے تو اپنی ڈنگ سے 8 سے 10 سیکنڈ کے لئے اس جگہ کو سن کر دیتی ہے اور اس دوران جراثیم مچھر سے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈینگی بخار کا شک ہونے پر ہمیں سب سے پہلے کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہر بخار زدہ فرد کو دوڑتے ہوئے ڈاکٹر یا اسپتال کا رخ کرنا چاہئے؟ اس کا جسم پر اثر فلو کی طرح ہوتا ہے، ڈینگی بخار کا درجہ حرارت عام طور پر 104 – 105 فارن ہائیٹ ہوتا ہے، اس بات کا پتہ چلانا ضروری ہے کہ آیا متاثرہ شخص کہیں ڈینگی بخار میں مبتلا تو نہیں، اس موقع پر باقاعدہ تصدیق کے لئے خون کا ٹیسٹ کرانا ضروری ہے۔ دو سے تین دن میں بخار اترنے کے بعد بھی مریض اکثر سمجھتے ہیں کہ وہ صحت یاب ہوگئے ہیں لیکن اس دوران اچانک بلڈ پریشر کم ہو کر مریض کو ایک نئی مصیبت سے دوچار کرسکتا ہے۔ اسی اثنا میں وائرس خون کے پلیٹلیٹس پر حملہ آور ہو کر انہیں نقصان پہنچاتا ہے، اس کیفیت کو ”ہیمرریجک فیور“ کہا جاتا ہے۔ پلیٹلیٹس مل کر خون کو بہنے سے روکتے ہیں۔ بدن میں پلیٹلیٹس کی کمی بعض اوقات زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈینگی اور کرونا دونوں مہلک امراض ہیں، حکومتی سرپرستی، موثر حکمت عملی اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ احتیاط و حفاظتی تدابیر ان سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔