پاکستان کی معاشی تباہی اچانک نہیں ہوئی، 2016ء کے بعد بتدریج پستی کا سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت انتہا پر ہے، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں، سیاسی بے یقینی نے مزید حشر کردیا ہے، درآمدی بلز بڑھتا جارہا ہے مگر ادائیگی کے لئے ڈالر ناپید ہے، پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر بھی چند دنوں کے رہ گئے ہیں، اگرچہ اسحاق ڈار اور ڈاکٹر مصدق ملک آئندہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کے ممکنہ بحران سے انکاری ہیں مگر اسحاق ڈار کی باتوں میں صداقت کم، جھوٹے دعوے زیادہ ہوتے ہیں۔ جب مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ تھے تو اسحاق ڈار ڈالر کی بڑھتی قیمت کو مصنوعی قرار دے رہے تھے، موجودہ حکومت معاشی بحران پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہے، شہباز شریف پُراعتماد تھے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے مزید بھیک لے آئیں گے مگر سعودی عرب نے قرضہ اور امداد کو آئی ایم ایف کے معاہدے سے مشروط کردیا جس سے حکومت کی ساری خوش فہمی دور ہوگئی، مزید اُمیدیں جنیوا امدادی کانفرنس سے لگا لی گئیں کہ سیلاب زدگان کے نام پر تقریباً 10 ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ کے اعلان نے حکومت کو مزید پُراعتماد کردیا کہ اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے لیکن یہ امدادی رقم کو بتدریج آنا ہے بالآخر حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اس میں امریکی وفد کی مدد بھی شامل ہوئی، آئی ایم ایف کے 9 ویں پیکیج کے باعث ہی پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کیا گیا، گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے جنوری 2022ء میں عمل درآمد روک دیا کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور ٹیکس کی شرح میں اضافے سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں کو شدید عوامی ردعمل کا خدشہ تھا اسی لئے پرویز خٹک نے حکومتی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان ہماری وجہ سے وزیراعظم ہیں، اس وقت عمران خان کو فوری پشاور جا کر ناراض اراکین کو منانا پڑا اور پرویز خٹک کے مطالبے پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 2023ء کے بجٹ تک فکسڈ کرنا پڑا، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کا جو وعدہ آئی ایم ایف سے کیا گیا تھا اُس سے روگردانی کی گئی، نتیجتاً شہباز حکومت پر دباؤ آیا۔ موجودہ حکومت نے بھی معاہدے سے پہلوتہی کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی اور بادل نخواستہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ گھمبیر صورتِ حال میں آئی ایم ایف کچھ ڈالر پاکستان کے دامن میں ڈال دے گا تو کیا یہ آخری امداد ہوگی یا چند ماہ بعد ہمارے وزیرخزانہ اپنی ٹیم کے ساتھ آئی ایم ایف کے در پر کشکول لئے کھڑے ہوں گے، پاکستان کو درآمدات اور برآمدات میں جو خطرناک فرق ہے، جب تک اس کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے اور اشرافیہ کے اللے تللے ختم نہیں ہوں گے مالی خسارہ بڑھتا رہے گا اور اس کا سارا بوجھ عام پاکستانی کے کاندھوں پر آتا رہے گا اور وہ مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا جو پیٹرول 20 سے 30 ہزار کمانے والے عام پاکستانی کو 250 روپے لیٹر دستیاب ہے وہ حکمرانوں اور افسرشاہی کو مفت میں مل رہا ہے اور وہ 3500 CC، 5000 CC کی گاڑیوں میں پروٹوکول کے ساتھ فراٹے بھر رہے ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اشرافیہ ملک سے باہر اپنے اثاثے بنانے میں مصروف ہے، انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک کے ایجنٹ ملک کا خزانہ دیکھتے رہے ہیں، یہاں تک کہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر اپنا مال بنا کر چلتے بنے، اس سے قبل شوکت عزیز آئے تھے جو ملکی خزانہ تو کیا بھرتے اپنی معیشت ٹھیک کرکے چلے گئے، کتنی حیران کن بات ہے کہ 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک میں معاشی ماہرین نہیں ہیں اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ایجنٹ پالیسی بنا رہے ہیں، پاکستان کی اشرافیہ کے رہن سہن سے لگتا ہے کہ ملک معاشی بحران میں مبتلا ہے، بھاری تنخواہیں، مراعات مفت کے غیرملکی سفر اور وہاں سیون اسٹار ہوٹلوں میں قیام سے نیچے تو آتے ہی نہیں ہیں اور یہ ساری ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے مگر بے حس حکمرانوں کا شاہی انداز ختم ہونے کو نہیں آرہا، موجودہ معاشی بحران میں وزیراعظم، صدر، وزراء، اسمبلیوں کے ارکان، اعلیٰ اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں اور مراعات پر نظرثانی کی ضرورت ہے بلکہ اس میں خاطرخواہ کمی کرنا ہوگی، سرکاری اداروں کے ڈائریکٹرز پر جس بے دردی سے وسائل لٹائے جارہے ہیں اور ان کی مراعات کو برقرار رکھنے کے لئے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے سامنے بھیک مانگی جاتی ہے، ابھی تو گیس و بجلی کے نرخ بھی پیٹرولیم مصنوعات کی مناسبت سے بڑھائی جائیں گی اور اسی طرح اجناس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگا جو عوام کے لئے مزید عذاب کا باعث بنے گا لیکن حکمرانوں کو عوام کی مشکلات کا احساس نہیں ہے، صرف ڈائیلاگ بازی کی جارہی ہے کہ ہم ریاست پر اپنی سیاست کو قربان کررہے ہیں، شہباز حکومت گزشتہ 10 ماہ میں معیشت کی سمت کا تعین نہیں کرسکی ہے، ایک ہمارا پڑوسی مل ہے جو دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، اسی طرح ہمارے اطراف کے ملکوں میں جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان اور سنگاپور ہیں جنہوں نے 1960ء میں صنعتی پالیسی اور 80 کی دہائی میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر تیزی سے معاشی اہداف حاصل کئے۔ سنگاپور صرف 55 لاکھ کی آبادی کا ملک ہے لیکن اس کی ترقی مثالی ہے، ان ملکوں نے 60 سے 90 دہائی تک 7 فیصد شرح نمو برقرار رکھا، جس کے ثمرات وہ سمیٹ رہے ہیں، ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسے چھوٹے ممالک تو عالمی مالیاتی مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں، ان ملکوں نے اپنی صنعتی ضروریات اور ہوم اپلائنسیز کی درآمد میں اپنا زرمبادلہ لٹایا نہیں بلکہ سام سانگ کی پروڈکٹس جہاں تیار ہوتی ہے وہ ایک شہر جیسا وسیع رقبہ رکھتا ہے، یہ ممالک ایشین ٹائیگرز بن چکے ہیں جبکہ ہم 2013ء سے اس کا خواب ہی دیکھ رہے ہیں، بدقسمتی سے ہماری توجہ صرف رئیل اسٹیٹ پر رہی اور اب بھی اُسی پر ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کا قیمتی زرمبادلہ زمینوں پر لگایا جارہا ہے، جس سرمائے کو جدید صنعت لگانے پر استعمال کرنا چاہئے تھا اُسے کنکریٹ کے جنگل کی تعمیر میں جھونکا جارہا ہے، ہمارے صنعتکاروں کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کرنا چاہئے، بدقسمتی سے وہ بھی اس شعبے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں اور اپنے منافع کو بیرون ملک میں اثاثے بنانے میں لگاتے رہے ہیں، کوئی بھی صنعتکار ایسا نہیں ہے جس کے اثاثے دبئی میں نہ ہوں اور اس سے بڑھ کر اشرافیہ کی ملک دشمنی ہے، ان کی بڑی تعداد لندن، دبئی اور دیگر ملکوں میں اثاثے بناتی رہی ہے، میاں نوازشریف کس ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں، اسی طرح دیگر سیاسی قیادت کی بھی یہی پالیسی ہے کہ پاکستان کے وسائل کو لوٹو اور بیرون ملک پلازے کھڑے کرو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک کے مفادات کسی کو عزیز نہیں بس اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا سب کا ہدف ہے، پیٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافہ آخری بار نہیں ہے بلکہ شنید یہ ہے کہ 330 روپے فی لیٹر تک قیمت بڑھ سکتی ہے، اس کے بعد جو مہنگائی کی شدید لہر آئے گی وہ غریبوں سے جینے کا حق بھی چھین لے گی، اس وقت 25 فیصد مہنگائی شرح ہے جو 35 فیصد تک ہوجائے گی، حکمرانوں کو معاشی ماہرین کی ٹیم بنانا ہوگی، صرف مقامی معیشت دانوں سے کام لینا ہوگا، ان سے تجاویز مانگنا چاہئے تاکہ معیشت کو ایسے رُخ پر ڈالا جاسکے جس کے ثمرات آئندہ سالوں میں مل سکیں، اگر قرضہ اور امداد کا حصول ہی ہدف رہے گا تو ملکی معیشت کبھی بھی ٹھیک نہ ہوسکے گی، موجودہ حکومت میں یہ صلاحیت نظر نہیں آرہی ہے کہ وہ قوم کو اس معاشی دلدل سے نکال سکیں، بالآخر نئے عوامی مینڈیٹ کی طرف جانا ہوگا۔