ڈاکٹر رشید احمد خاں
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں روس کا دورہ کیا۔ انہیں اس دورے کی دعوت روس کی زمینی افواج کے سربراہ کرنل جنرل اوگ سیلیوکوف نے دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو میں جنرل باجوہ کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ جنرل سیلیوکوف نے پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ روس کی مسلح افواج پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کو وسعت دینا چاہتی ہیں۔
پاکستان اور روس تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ گزشتہ تقریباً پندرہ ماہ کے عرصہ میں جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیا کے خطوں میں جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، انہوں نے اس عمل کو مزید تیز کردیا ہے، خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی جس حکمت عملی کا اطلاق کیا ہے اور اس حکمت عملی کے تحت صدر ٹرمپ نے جس طرح پاکستان کو نشانہ بنایا ہے، اس کی وجہ سے پاکستان نہ صرف چین بلکہ روس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی اس کوشش میں خاصی حد تک کامیاب بھی ہے۔ ان میں معاشی اور تجارت کے علاوہ دفاعی شعبے میں تعلقات بھی شامل ہیں۔ جنرل باجوہ کا حالیہ دورہ روس اس کا ثبوت ہے۔ جنرل باجوہ سے قبل پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ، وزارت دفاع کے متعدد اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک بڑے وفد کے ہمراہ روس کا دورہ کرچکے ہیں۔ انہیں یہ دعوت ان کے روسی ہم منصب سیکریٹری آف دی سیکورٹی کونسل آف رشین فیڈریشن نے دی تھی لیکن ماسکو میں وفود کی سطح پر جو باقاعدہ بات چیت ہوئی اس کی قیادت رشین فیڈریشن کی زمینی افواج کے سربراہ کر رہے تھے۔ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے دونوں ملکوں کی سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان ایک عرصہ سے رابطہ جاری ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان جنرل جنجوعہ کی قیادت میں وزارتی سطح پر باقاعدہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ جنرل جنجوعہ کی قیادت میں جس پاکستانی وفد نے ماسکو کا دورہ کیا اور روسی حکام سے بات چیت کی، ان میں نیشنل سیکورٹی ڈویژن سے سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، میجر جنرلز اور وزارت دفاع، وزارت داخلہ، دفاعی پیداوار، اسٹرٹیجک پلان ڈویژن، ’’سپارکو‘‘ اور خفیہ اداروں کے نمائندے شامل تھے۔ روس کی طرف سے جس وفد نے پاکستانی وفد کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کئے ان میں روس کی سیکورٹی کونسل کے نمائندے، خلائی ماہرین، ملٹری ٹیکنیکل کوآپریشن کے نمائندے شامل تھے۔ روسی وفد کی قیادت روس کی زمینی افواج کے سربراہ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کررہے تھے۔ جن امور پر بات چیت ہوئی ان میں علاقائی تعاون کے علاوہ زمینی اور فضائی روابط اور خلا، دفاع، سیکورٹی، معیشت، تجارت، سائبر سیکورٹی اور خفیہ معلومات کے تبادلے کو فروغ دینا شامل ہے۔ دونوں طرف سے وفود میں شامل افراد کی بیک گراؤنڈ اور زیربحث امور سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ پاکستان اور روس کی توجہ صرف دفاعی شعبے میں باہمی تعلقات کو وسعت دینے پر مرکوز ہے بلکہ اس کے برعکس روس کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اپریل کے وسط میں پاکستان میں روس کے قائم مقام سفیر ولادی بریزیوک نے پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپوٹرز ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے روسی کمپنیوں کی طرف سے پاکستان خصوصاً ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اسی طرح جہاں ایک طرف روس پاکستان کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر معیشت، تجارت اور دفاع کے شعبوں میں تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہاں روس کی طرف سے (چین کو ساتھ ملا کر) یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی اور مغربی ایشیا کے خطوں میں تصادم کو روکنے اور امن و استحکام کے قیام میں پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل کیا جائے۔ اس وقت روس اور چین کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور مصالحت کے عمل کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ اس ملک میں گزشتہ 17 برسوں سے جاری جنگ ختم ہو۔ اسی مقصد کے لئے دونوں ممالک افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے انعقاد کی کوشش کررہے ہیں۔ روسی اور چین، دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے افغان طالبان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرے۔ اسی طرح روس اور چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر پریشان ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے کہیں کسی بڑے تصادم کا باعث نہ بن جائے۔ اس لئے ان دونوں ملکوں کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ اگر افغانستان میں جنگ جاری رہی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے تو بیرونی طاقتوں خصوصاً امریکہ کو جنوبی ایشیا میں اپنے اثرورسوخ کو پھیلانے کا موقع ملے گا۔ افغانستان میں اپنے فوجی دستے موجود رکھنے پر اصرار سے بھی اس خطے میں امریکی عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ روس اور چین کے لئے یہ صورتِ حال اس لئے قابل قبول نہیں کہ تاریخی اور جغرافیائی نقطۂ نگاہ سے دونوں ملک جنوبی اور مغربی ایشیا کے خطوں میں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ روس مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے معاملات میں اس وقت جس طرح ملوث ہے اس کے پیش نظر بھی روس کے لئے افغانستان میں امن اور پاک بھارت کشیدگی میں کمی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ افغانستان میں جنگ جاری رہے اور پاک بھارت تصادم کے اندیشے سے روس مشرق وسطیٰ میں ایک دفعہ پھر اہم فریق بننے اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی جو کوششیں کر رہا ہے، انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے اسی طرح چین بھی پاکستان کے ساتھ اکنامک کوریڈور کی کامیابی کے لئے خطے میں امن کو ضروری سمجھتا ہے۔
چنانچہ روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ایک کثیر جہتی عمل ہے۔ اس میں دوطرفہ بنیادوں پر تجارت، سرمایہ کاری، معیشت، دفاع اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون بھی شامل ہے اور علاقائی سطح پر قیام امن، استحکام اور تعاون کے لئے مشترکہ کوششیں بھی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی باگ ڈور ہے، انہیں روس کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مغربی ایشیا کے بارے میں روسی سوچ اور حکمت عملی کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا اور اس کے مطابق اپنی پالیسی میں ضروری ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان سرد جنگ کے اثرات سے نکلنا چاہتا ہے اور یہ کہ پاکستان خطے میں تعاون کے فریم ورک پر کام کرتا رہے گا۔ ویسے بھی اگر امریکہ اور اس کے حواری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود اس کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پاکستان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ان ممالک کے ساتھ اپنا تعاون اور تعلقات بڑھائے جو اسی خطے میں واقع ہیں۔