Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان میں گھریلو خواتین کے مسائل

محمد زمان

پاکستان میں گھریلو خواتین بے شمار مسائل و مشکلات کا شکار ہیں جن میں شدید مہنگائی سے نمٹتے ہوئے گھر کا بجٹ چلانا، گھریلو جسمانی و ذہنی تشدد سہنا، جائیداد سے وارثتی حصہ نہ ملنا، کم آمدنی اور وسائل کی کمی کے ہوتے ہوئے ناقص خوارک کے ساتھ بچوں کو پیدا کرنا اور پالنا، کسی ناگہانی آفت، بیماری سے نمٹنا اور دیگر عائلی ذمہ داریوں کو پورا کرنا شامل ہیں2021 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خواتین کی تعداد 109 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں خواتین کی تعداد 29 ملین سے بڑھ کر 109 ملین تک پہنچ گئی ہے تاہم اس آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد نے جہاں بلاشبہ افرادی قوت میں اضافہ کیا ہے وہیں خواتین کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں پر میرا موضوع سخن پاکستان کی گھریلو خواتین ہیں جو صبح سے لے کر شام تک اور رات سے لے کر صبح تک اپنے گھر، شوہر، بچوں اور گھر میں موجود بوڑھے بزرگوں اور خاندان کی دیکھ بھال اور پرورش میں مشغول رہتی ہیں۔ اگر گھر کا سربراہ گھر سے باہر روزگار تلاش کرنے، انتھک محنت کے بعد اپنے بیوی بچوں کے لئے پیسہ کما کر لانے کی ذمہ داری نبھا رہا ہے تو بلاشبہ اتنی ہی انتھک محنت گھر میں بیٹھی وہ گھریلو خواتین بھی کررہی ہیں جن کے بارے میں عموماً بات نہیں کی جاتی اور نا ہی گھریلو خواتین کے مسائل کو اُجاگر کر کے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ جس طرح گھر سے باہر کام کرنے والے مرد و زن شدید قسم کے چیلنجر سے گزرتے ہیں اسی طرح گھر میں بیٹھی یہ تمام خواتین بھی بہت سی آزمائشوں سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جو آئے روز کسی نا کسی ”نازک دور“ سے گزر رہا ہوتا ہے، اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اچھی طرح سے پاکستان کے اندرونی و بیرونی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل سے باخبر ہیں لیکن اس کشمکش کے بیچ عوام جس بدحالی دوچار ہوتی ہے وہ ایک درد دل رکھنے والے انسان کے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے۔ پاکستان میں گھریلو خواتین بے شمار مسائل و مشکلات کا شکار ہیں جن میں شدید مہنگائی سے نمٹتے ہوئے گھر کا بجٹ چلانا، گھریلو جسمانی و ذہنی تشدد سہنا، جائیداد سے وارثتی حصہ نہ ملنا، کم آمدنی اور وسائل کی کمی کے ہوتے ہوئے ناقص خوارک کے ساتھ بچوں کو پیدا کرنا اور پالنا، کسی ناگہانی آفت، بیماری سے نمٹنا اور دیگر عائلی ذمہ داریوں کو پورا کرنا شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جو اجتماعی خاندانی نظام کے تحت زندگی گزار رہی ہیں وہ زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرتی ہیں۔ کیونکہ ایسے گھر جہاں ایک سے زیادہ خاندان مل کے رہتے ہوں وہاں خرچ اخراجات کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس شدید طوفانی منہگائی کے دور میں ایک خاندان کے اخراجات اٹھانا انتہائی مشکل ہے کجا کہ دس سے پندرہ افراد پر مشتمل کنبے کو سنبھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گھر میں رہنے والی بیشتر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، ان کی اکثریت کم پڑھی لکھی یعنی مڈل/ میٹرک پاس ہوتی ہے یا زیادہ سے زیادہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے لہٰذا ان کے لئے کوئی معقول نوکری کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیوشن پڑھانا، سلائی کڑھائی کرنا، اجرت پہ کھانا بنانا، دوسرے گھروں میں کام کاج کرنا وغیرہ ان کی مجبوری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی بھی مکمل ذمہ داری ان کے سر پر ہوتی ہے۔ ان تمام بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ انہیں اپنے خاندانی رسم و رواج، رشتے دار، ہمسایوں اور پڑوسیوں سے تعلقات بھی نبھانے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، فوج، تعلیم اور دیگر شعبوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سنبھالنے والی خواتین کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور سراہا جاتا ہے اور یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کے ساتھ اپنے پیشے سے انصاف کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ بیک وقت ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے ان خواتین کو مردوں سے دگنی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے بحثیت مجموعی/ بحثیت قوم کبھی یہ سوچا کہ ہمیں اس مقام تک پہنچانے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں ان گھریلو خواتین کی کتنی بے لوث خدمات شامل ہیں۔ یہ گھر کے تمام کام جیسے کہ پورے کنبے کے لئے کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، استری کرنا، صفائی ستھرائی کرنا، باورچی خانے کی دیکھ بھال کرنا، بچوں اور شوہر کی صحت کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کے بدلے میں انہیں صرف ”ہاؤس وائف“ اور ”گھر کے کام بھلا کوئی کام ہیں“ اور ”گھر پہ رہ کے تم کرتی ہی کیا ہو“ جیسے فرسودہ اور بے قدری کرنے والے جملے سننے پڑتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پورے پاکستان کی گھریلو خواتین محض ایک دن کے لئے اپنے تمام کام کرنا روک دیں تو باہر کا سارا نظام بھی ٹھپ ہوجائے گا۔ پیشہ ور مرد حضرات، اسکول، کالج اور یونیورسٹی جانے والے طلباء و طالبات کوئی بھی وقت پہ اپنے کاموں پر نہیں پہنچ پائے گا جس سے ایک ہی دن میں چلتی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا گھریلو خواتین کے دیگر مسائل کو جاننے اور ان کا حل نکالنے کے ساتھ ساتھ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔ ان کی بے لوث خدمات اور قربانیوں کو نظرانداز کر کے ان کی ناقدری نہیں ہونی چاہئے۔ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنے گھروں میں بیٹھی ان خواتین کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہئے جو بلامعاوضہ پاکستان کو چلانے کے لئے ایک بھاری افرادی قوت تیار کر کے دیتی ہیں۔ نیز حکومتی سطح پر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے قابلِ قدر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ گھریلو تشدد، قتل، جسمانی مارپیٹ اور ذہنی اذیت دیئے جانے والے واقعات کی روک تھام کے علاوہ مطلقہ اور بیوہ خواتین کی نگرانی اور نگہداشت کے لئے الگ سے ادارے قائم کئے جانے چاہئیں۔ خاندانی رسم و رواج اور جہالت پہ مبنی فرسودہ رسومات کے نتیجے میں ہونے والے ظلم جیسے ستی کیا جانا، کم عمری میں جبراً شادی، ذاتی دشمنی کی بنا پر تیزاب پھینکنے جیسے سنگین جرائم پر حکومت کو سخت سے سخت سزا اور شدید بھاری جرمانے مقرر کرنے چاہئیں۔ پاکستان کہنے کو تو ایک اسلامی ریاست ہے لیکن یہاں ظلم کا جو بازار گرم ہے اس کے سدباب لئے اور روک تھام کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات اور سیرت محمدیﷺ کو گھر گھر رائج کیا جائے تاکہ تمام طبقات کو برابر حقوق ملیں جس کے وہ مستحق ہیں۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل