Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان الیکشن کرانے میں کامیاب

انیس سو اٹھاسیء کی طرح 2018ء میں بھی پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان میں الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتی تھی مگر وہ ناکام ہوئیں اور پاکستان انتخابات کرانے میں کامیاب ہوگیا، اگرچہ کوئٹہ میں الیکشن کے دن بھی راکٹ سے حملہ کیا گیا، جس میں تین سیکورٹی اہلکار اور ایک شہری شہید ہوگئے جبکہ 13 زخمی ہوئے مگر کچھ گھنٹوں بعد پولنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو پاکستانی قوم کے عزم و ہمت کا مظہر ہے۔ پاکستان دشمن عناصر یہ کیوں چاہتے تھے کہ پاکستان میں الیکشن نہ ہوں اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ دشمن ملک کو عدم استحکام اور بے یقینی کیفیت میں رکھنے کا خواہشمند تھا مگر الیکشن کے بعد یہ بے یقینی کی کیفیت ختم ہوگئی۔ ان انتخابات میں بڑے بڑے لیڈر ہار گئے سوائے عمران خان کے جو تین صوبوں میں پانچ سیٹوں پر لڑ رہے تھے وہ پانچوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے جبکہ ہارنے والوں میں چوہدری نثار علی خان، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر طارق فضل چوہدری، رانا ثنا اللہ، عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق، رانا افضل، جنرل (ر) قادر بلوچ، امیر مقام، اسفندیار ولی، فردوس عاشق اعوان، مصطفی کمال، رضا ہارون، ذوالفقار مرزا، ناہید خان، جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق اور دیگر کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔ عمران خان کراچی سے بھی جیتے اور 14 نشستیں بھی اُن کو مل گئیں، اس طرح کراچی کی 21 نشستوں میں سے عمران خان کو اتنی نشستیں ملنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کا شہر اب ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا شہر بن گیا ہے، بلاول بھٹو صاحب لیاری سے ناکام ہوگئے، لیاری بھی اب بھٹو کے قبضے سے نکل گیا۔ لاہور کی 14 نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) کو 10 اور پی ٹی آئی کو 4 نشستیں ملیں، یوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکز لاہور میں بھی پی ٹی آئی در آئی ہے، اس کے علاوہ عمران خان کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی اور پنجاب اسمبلی میں بھی اُس کی کامیابی قابل رشک ہے اور یقین ہے کہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو 74 نشستوں کے ملنے کے بعد پی پی پی سندھ میں بلاشرکت غیر حکومت بنا سکے گی۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نے 11 نشستیں حاصل کرکے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے اور وہاں مخلوط حکومت بن جائے گی اور وزیراعلیٰ عوامی پارٹی کا ہی ہوگا تاہم پنجاب میں اگرچہ پی ٹی آئی حکومت بنائے گی مگر وہاں مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرے گی اور حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا، اسی طرح سندھ اسمبلی میں کراچی سے پی ٹی آئی نے 21 اور متحدہ نے 10 نشستیں حاصل کرلی ہیں، یوں یہاں بھی پی پی کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کو بھی سخت اپوزیشن کا سامنا رہے گا۔ پی ٹی آئی کو مرکز میں 120 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کو 69، پی پی پی 43، متحدہ مجلس عمل 13، آزاد امیدوار 13، ایم کیو ایم 6 اس طرح عمران خان کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا، عمران خان نے یورپی ملکوں کی طرح اپنی جیت پر قوم سے خطاب کیا، جس کو عالمی میڈیا نے بروقت اور لائیو دکھایا۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیا پاکستان بن گیا، انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اُن کی حکومت کی اولین ترجیحات میں چین سے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا، افغانستان میں امن تو پاکستان میں امن ہوگا، انہوں نے کہا کہ وہ ایران سے تعلقات کو فروغ دیں گے، سعودی عرب سے بھی اپنے تعلقات کو بڑھائیں گے۔ پاک بھارت تجارت میں اضافہ اور مسئلہ کشمیر حل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم اُن کے لیڈر ہیں، وہ نئے پاکستان کا خواب پورا کریں گے، قانون کی بالادستی قائم کی جائے گی اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، خرچہ کم، پیسہ عوام کی ترقی اور فلاح پر خرچ ہوگا۔ ٹیکس کلچر کو اچھا، اینٹی کرپشن اور ایف بی آئی اور نیب کو مضبوط کریں گے، ٹیکس کے پیسوں پر عیاشی کی روایت کو توڑ دیں گے، وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں انہوں نے انتخابات کو شفاف قرار دیا وہاں نواز شریف نے کہا کہ الیکشن چوری کرلئے گئے، اگرچہ عمران خان نے کہا کہ مخالفین جو حلقے بھی کہیں گے اُن پر دوبارہ گنتی کرا دیں گے۔ متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن نے اس الیکشن کے خلاف پی این اے کی طرح تحریک چلانے کا اعلان کیا، میرے خیال میں ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ اس سطح کی شخصیت نہیں ہیں کہ عوام کو قابل قبول ہوں، اگرچہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں کچھ بے چینی کے آثار اس لئے نظر آرہے ہیں کہ انتخابات کے نتائج بہت دیر سے آئے، کچھ حلقوں میں پولنگ اسٹیشن میں رزلٹ کا فارم نتیجہ نہیں دیا۔ کچھ حلقوں میں سے یہ شکایات آئی ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا، پھر الیکشن کمیشن کا کمپیوٹر نظام بیٹھ گیا، اس پر یہ خیال ہے کہ کہیں یہ سائبر حملہ نہ ہوا ہو، اس کا امکان موجود تھا اور ہم نے برملا اس کا اظہار کیا تھا، کچھ حلقے اس کا الزام پنجاب کی سابقہ حکومت پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے کمپیوٹر نظام فراہم کیا تھا اس لئے اُن کے کارندوں نے اسے معذور کردیا۔ بہرحال ان وجوہات کی بنا پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے، اس کے علاوہ عمران خان کی موجودہ بیگم صاحبہ نے اپنے بیان میں عوام کو مبارکباد دی کہ آپ کو ایسا لیڈر ملا ہے کہ وہ عوام کا خیال اور حفاظت کرے گا، اُن کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کا کہنا تھا کہ 22 سال کی جدوجہد اور عزم کے بعد میرے بیٹوں کے والد پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کیوں سیاست میں آئے تھے، یہ ایک دلچسپ یاد دہانی ہے کہ اس پر سوال ہوگا کہ کس وجہ سے سیاست میں آئے تھے، اگر وہ خود اس کی وضاحت کر دیتیں تو اچھا تھا، ورنہ اس بیان کے مختلف توجیہات پیش کی جائیں گی، ایک بات ضرور اہم ہے کہ پاکستان اس وقت کرپشن سے لتھڑا ہوا ہے اس کو عمران خان کس طرح صاف کرتے ہیں وہ دیکھنے کی بات ہوگی، اگر وہ کرپشن پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔ اگرچہ عمران خان کی جدوجہد کی تاریخ سے بتاتی تھی کہ وہ جس بات کی ٹھان لیتے ہیں کر دکھاتے ہیں، اگر ایسا انہوں نے کرلیا تو واقعی ایک بڑا معرکہ سر کرنے کے مترادف ہوگا جس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ پورے ملک کے بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اُن کو حکومت کی تشکیل کے لئے اتحادی درکار نہیں ہوں گا کیونکہ خواتین کی 29 مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی 5 نشستیں ملنے پر اُن کی عددی قوت 168 ہوجائے گی، اس کے بعد انہیں 4 ارکان کی ضرورت پڑے گی اور وہ آزاد امیدواروں کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں یعنی وہ کسی کی بلیک میلنگ یا دباؤ سے بچ جائیں گے تاہم پھر بھی اُن کی عددی قوت اتنی نہیں ہوگی کہ اُن کی حکومت کو مضبوط قرار دیا جائے، حکمرانی اور اپوزیشن میں بڑا فرق ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قدر صلاحیتوں کے مالک ہیں اور کس قدر قوت فیصلہ اُن میں موجود ہے کہ وہ بڑی بڑی طاقتور شخصیات کو زیر کرلیں اور غیرملکی دباؤ کو برداشت کرلیں کیونکہ وہ امریکا کی حمایت کے بغیر چین اور روس کے ساتھ مل کر عالمی سیاست میں پاکستان کی جگہ بنا لینا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اُن کے پاس ایک اچھی ٹیم موجود ہے، معیشت اور خارجہ امور پر کس قدر کامیابی حاصل کریں گے یہ وقت بتائے گا اور یہ کہ اُن کی صلاحیتوں کا اظہار بھی ہوگا تاہم یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہوگئے ہیں اور عالمی قوتیں ان کو ملتوی کرانے میں ناکام ہوگئیں۔

مطلقہ خبریں