Tuesday, July 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستانی معیشت اور آئی ایم ایف کا شکنجہ

حکومت نے مالی سال 2021-22ء کے لئے 8 ہزار 487 ارب روپے کا بجٹ چھ ماہ قبل ہی پیش کیا تھا، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تک ہوگیا تھا، جو موجودہ مالی سال میں 7 فیصد سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ وفاقی بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان اٹھا، اشیائے خوردونوش پر اس کا براہ راست اثر پڑا، کوکنگ آئل، گھی، چاول، دالیں، گوشت، سبزیاں، چائے پتی، خشک دودھ کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ ہوا، حکومت نے تین منٹ دورانیہ کی موبائل فونز کال، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پیغامات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا، ٹیکس کی شرح میں اضافہ سے بجلی، گیس، پانی کے بلز بھی عام صارف کے لئے بڑھ گئے۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ 964 ارب روپے رکھا جس میں 200 ارب روپے کی کٹوتی بھی کردی، 8487 ارب روپے کے بجٹ میں ٹیکس وصولی کی موجودہ شرح کو دیکھیں تو 4497 ارب روپے بنتا ہے، یعنی یہی شرح رہی تو 3900 ارب روپے کا فرق آئے گا، یعنی کمی ہوگی جسے پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے در پر وفد کے ساتھ وزیرخزانہ کو حاضری بھرنا پڑی، 22 نومبر 2021ء کو آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پایا، جس میں سبسڈی ختم، ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور اسٹیٹ بینک کو خودمختار بنانے کے وعدے کئے گئے، اسی لئے دسمبر کے آخری ہفتہ میں 350 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کیا گیا، جس کی اپوزیشن نے شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ منی بجٹ کے پاس ہونے کے بعد اسٹیٹ بینک کا گورنر براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا جائے یعنی جو احکامات وہاں سے دیئے جائیں گے ان پر عمل درآمد ہوگا۔ جس کی مشیر خزانہ اور حکومتی ترجمانوں بشمول خودساختہ ترجمان شیخ رشید نے تردید کی، لیکن یکم جنوری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے اوگرا کی سفارشات وزیراعظم نے مسترد کردی مگر پھر آئی ایم ایف کی وجہ سے اضافہ کی رپورٹ منظور ہوگئی تو یہ بات طے ہوگئی کہ ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ سے معاشی اختیارات آئی ایم ایف کو منتقل ہوگئے ہیں جبکہ ابھی بل پاس نہیں ہوسکا ہے، حالیہ منی بجٹ پر مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صرف 2 ارب کا بوجھ عام آدمی پر پڑے گا لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مشیر خزانہ جھوٹ بول رہے ہیں، کیونکہ بچوں کے خشک دودھ، پیمپرز، پیکڈ دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی سب پر 17 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ماچس پر بھی لاگو ہوگا، اس طرح ڈیری پروڈکٹ، پولٹری میں استعمال ہونے والی مشینری پر جنرل سیلز ٹیکس 7 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا جائے گا تو چکن میٹ اور مقامی ڈیری پروڈکٹس کی قیمتیں مزید آسمان کو چھوئیں گی، اس طرح موبائل فونز کے علاوہ موبائل کالز پر بھی ٹیکس میں اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ حکومت جس طرح آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کررہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملکی سلامتی کے ادارے پارلیمنٹ کے بجائے عالمی ساہوکاروں کو جوابدہ ہورہے ہیں، آئی ایم ایف نے اپریل 2021ء میں اپنا پروگرام پاکستان کے لئے معطل کردیا تھا، اسی لئے سعودی عرب سے زیادہ شرح سود پر قرضہ اور ادھار پیٹرولیم مصنوعات کا معاہدہ ہوا تھا۔ فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ملک بوستان کے مطابق انہوں نے آئی ایم ایف حکام سے پاکستان کے لئے منظور شدہ قرضوں کے حوالے سے معلومات لیں تو بتایا گیا کہ پاکستانی بابوؤں کی پوری ٹیم یہ کہتی ہے کہ آپ ہمیں قرض دیں ہم پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس کے نرخ اور دیگر اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ کرکے سرمایہ حاصل کریں گے اور آئی ایم ایف کی قسط ادا کرتے رہیں گے۔ افسوس ہے کہ عمران خان نیازی نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو دھوکا دیا ہے، عوام حکومت کے ساتھ اپوزیشن سے بھی مایوس ہوچکے ہیں، بیک ڈور سے سیاسی مفادات حاصل کرنے والی بڑی اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی تکلیف کا احساس ہوتا تو زبانی دعوے کے بجائے نتیجہ خیز احتجاج کرتیں اور عوام کو سڑکوں پر لے آتیں، لیکن پی پی اور ن لیگ کا ہدف بھی یہ ہے کہ حکومت عوام کے کس بل نکالتی رہے اور وہ تماشہ دیکھتی رہیں۔ اس حوالے سے حکومت کے ساتھ یہ دونوں جماعتیں بھی قصوروار ہیں، کیونکہ آٹا، چینی، دواؤں اور پھر پیٹرول کے اسکینڈل میں بھی خاموش رہیں، حالیہ گیس کے بحران پر بھی نمائشی احتجاج ہوا، وزیر توانائی حماد اظہر کی نااہلی عیاں ہوچکی مگر اپوزیشن ان کا نام تک نہیں لیتی، اسی لئے حماد اظہر گیس بحران کی ذمہ داری سندھ ہائی کورٹ پر ڈال رہے ہیں، اب عقل مند سے کوئی پوچھے کہ کیا خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان میں جاری بحران کی ذمہ دار بھی سندھ ہائی کورٹ ہے، اسی طرح یوریا کی کمی بھی ایک بڑا بحران ہے، جس سے وزیراعظم، وفاقی وزیر خوراک و زراعت اور فوڈز سیکورٹی کے وزیر سید فخر امام کی نااہلی ثابت ہورہی ہے، گندم پاکستان کی سب سے بڑی فصل ہے، اس کی بوائی میں تاخیر اور وقت پر کھاد کا نہ ملنا پیداوار کو متاثر کرے گا، نتیجتاً آئندہ فصل اہداف حاصل نہیں کرسکے گی، خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لئے گندم درآمد کی جائے گی، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑے گا، ڈالر کی کمی سے روپے کی قدر مزید گھٹتی رہے گی، قرض میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ حالیہ گیس بحران اور یوریا کی نایابی ایسے اسکینڈلز ہیں جس پر اپوزیشن کا حرکت میں نہ آنا مایوس کن ہے، ساتھ ہی اداروں کا نوٹس نہ لینا بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ حکومت اتنی لاڈلی ہے کہ صنعت، زراعت اور ملکی سلامتی ہر چیز داؤ پر لگا رہی ہے، پھر بھی ہر طرف سکوت ہے، خاموشی ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ حماد اظہر اور سید فخر امام کو حراست میں لے کر تفتیش کی جائے کہ کیوں ان بحرانوں کو بڑھنے دیا، ان کے ذاتی مفادات کیا تھے یا پھر وہ ان اہم وزارتوں کے لئے موزوں نہیں ہیں، انہیں مسائل کا ادراک اور آنے والی مشکلات کا اندازہ نہیں تھا، وزیراعظم کیوں ان سے باز پُرس کرنے میں کوتاہی کررہے ہیں، کیا وہ سیاسی بلیک میلنگ کا شکار ہیں یا انہیں بھی اس بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں، اس کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو پھر یہ مسلم دُنیا کی واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کے ساتھ ایک سنگین کھلواڑ ہے کہ وہ شخص ملک کے معاملات دیکھ رہا ہے جو اس کا اہل ہی نہیں ہے۔ اب تک ساڑھے تین سالوں میں یہ حکومت 16 ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے اور ساتھ ہی سبسڈیز بھی ختم کرچکی ہے، ٹیکس کی شرح بڑھائی جارہی ہے اور ایک بھی میگا پروجیکٹ پیش نہیں ہوا، اس کے باوجود قرضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اگر ملک چلانے، تنخواہیں دینے کے لئے سرمایہ نہیں ہے تو صدر مملکت، وزیراعظم، وزراء، ارکان اسمبلی، سرکاری افسران اور اشرافیہ کی مراعات کیوں ختم نہیں کی جارہی ہیں، پیٹرول، بجلی، گیس، گاڑیاں، ملازمین، رہائش، سفر، علاج کی مفت سہولیات ختم کرنا ہوں گی، ورنہ قرض لے کر اشرافیہ کے اللے تللے پورے ہوتے رہیں گے اور ٹیکس کا بوجھ عام صارف پر پڑتا رہے گا، حکومت ہوش کے ناخن لے ورنہ نچلے اور متوسط طبقے کی برداشت ختم ہوئی تو صورتِ حال اتنی بگڑے گی کہ کوئی ادارہ بھی سنبھال نہیں سکے گا۔

مطلقہ خبریں