خواتین کو تعلیم دے کر اور بااختیار بنا کر ہی ملک صحیح معنوں میں ترقی کرسکتا ہے
جاوید حفیظ
خواتین ملکی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہیں۔ خواتین کو تعلیم دے کر اور بااختیار بنا کر ہی ملک صحیح معنوں میں ترقی کرسکتا ہے۔ پڑھی لکھی ماں، خواہ وہ جاب نہ بھی کرے، اپنے بچوں کی تعلیم و ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں متعدد بزنس خواتین کی وجہ سے ترقی کر رہے ہیں۔ گارمنٹس انڈسٹری، جو وہاں بہت فعال ہے، کی ترقی خواتین کی محنت کی مرہونِ منت ہے۔ ایران میں مختلف شعبوں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ خواتین کے بااختیار ہونے سے ان دونوں ملکوں نے آبادی کو کنٹرول کرلیا ہے۔
پاکستان کو خوش قسمتی سے آغاز سے ہی چند خواتین بطور رول ماڈل مل گئیں اور ان میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح سرفہرست تھیں۔ ہماری زمینی حقیقت یہ تھی کہ لڑکیوں کی تعلیم کو کم ہی اہمیت دی جاتی تھی۔ دیہی علاقوں میں انہیں اکثر جائیداد سے حصہ نہیں ملتا تھا۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو کہا گیا کہ ہمارا مذہب خاتون کو حکمرانی کا حق نہیں دیتا حالانکہ یہ دلیل خاصی کمزور تھی۔ بالعموم ہمارا معاشرہ مرد کی بالادستی کا قائل رہا ہے۔ لیکن کئی ایک جرأت مند خواتین نے کامیابی کے ساتھ فرسودہ سماجی روایات کو توڑ کر اپنا مقام بنایا ہے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالا ہے۔
آج آپ کسی بینک یا ٹیلی کام کمپنی کے آفس میں جائیں آپ کو متعدد خواتین کام کرتی نظر آئیں گی۔ میڈیا نے خواتین کو کام کرنے اور باعزت روزگار کے متعدد مواقع فراہم کئے ہیں۔ فلم، ڈرامہ، اینکرنگ اور کالم نگاری میں ہمیں متعدد خواتین نظر آتی ہیں۔ سفارت کاری میں ہماری خواتین آگے آگے ہیں۔ متعدد خواتین آج سفیر کے عہدے پر فائز ہیں۔ چند سال پہلے محترمہ تہمینہ جنجوعہ ہماری فارن سیکریٹری تھیں۔ ان سے پہلے محترمہ نرگس سیٹھی وزیراعظم کی پرنسپل سیکریٹری تھیں جو سول سروس میں اعلیٰ ترین عہدہ شمار ہوتا ہے۔
عہد حاضر کی طرف آئیں تو ہمیں متعدد خواتین اعلیٰ عہدوں پر متمکن نظر آتی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک پچھلے سال سپریم کورٹ آف پاکستان کی جج بنیں۔ وہ پاکستان میں پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئیں۔ قانون ہر دسترس اور اپنے فیصلوں کی وجہ سے جج حضرات اور وکلا برادری میں عزت اور تکریم پا چکی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر خان پہلی پاکستانی خاتون ہیں جو تھری اسٹار جنرل بنیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا تھا کہ فوج یا پولیس میں خواتین کا کیا کام۔ آج ان دونوں شعبوں میں متعدد خواتین نظر آتی ہیں۔ اسی حوالے سے مجھے فلائنگ کیڈٹ مریم مختار یاد آ رہی ہیں جو دورانِ ٹریننگ ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے شہید ہوئیں۔ جنرل نگار جوہر کا تعلق صوابی کے ایک گاؤں سے ہے۔ ہمارا پختون معاشرہ روایات کا پاسدار رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے پر بھی کم و بیش یہ وصف صادق آتا ہے۔ ان حالات میں ایک خاتون کا جنرل بننا آسان کام نہیں لگتا لیکن ایسا ہو چکا ہے۔ جنرل نگار جوہر شاندار کیریئر کے بعد پچھلے سال ریٹائر ہوئیں۔ اب واقعی پاکستان کی صنفِ نازک کو صنفِ آہن کہا جا سکتا ہے۔
محترمہ پروین شاکر کو وفات پائے کئی سال ہو چکے ہیں لیکن ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔ ان کی شاعری نسوانی احساسات کا خوبصورت عکس ہے جو نوجوانوں میں آج بھی مقبول ہے۔ اسپورٹس کی دُنیا میں ثنا میر کا نام جانا پہچانا ہے۔ وہ کرکٹ کی نہ صرف اچھی کھلاڑی رہی ہیں بلکہ قائدانہ صلاحیتوں کی بھی مالک ہیں۔ بہت اچھی آل راؤنڈر تھیں۔ بیٹنگ کے علاوہ اسپن باؤلنگ کی بھی ماہر تھیں۔ 137 انٹرنیشنل میچوں میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی کی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر اپنی قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے قابلِ احترام ٹھہری ہیں۔ اربوں روپے کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کامیابی سے چلایا اور کسی کو اپنی ایمانداری پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ کرشمہ علی معروف فٹ بالر ہیں جن کا تعلق چترال سے ہے۔ ویمن فٹ بال ٹیم میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ چترال میں کرشمہ علی نے خواتین کا اسپورٹس کلب بنایا ہے، وہ بزنس ویمن کے طور پر بھی شہرت پا رہی ہیں۔ یہاں ننھی منی ارفع کریم رندھاوا کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے کم عمری میں ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ لاہور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹاور اس بچی کے نام سے منسوب ہے۔
اور اب ذکر ہو جائے دو معروف خواتین کا جو سبز ہلالی پرچم دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر لہرانے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ نائلہ کیانی نانگا پربت سر کرنے والی پہلی پاکستان خاتون ہیں۔ اس چوٹی کو سر کرنا آسان کام نہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس مہم پر جانے والوں میں سے 21 فیصد افراد واپس نہیں آتے اس لئے اسے قاتل چوٹی یعنی Killer Peak بھی کہا جاتا ہے۔ نائلہ کیانی پیشے کے اعتبار سے بینکر ہے اور دو بچوں کی ماں ہے لیکن مہم جوئی کا سودا اس کے سر میں سمایا رہتا ہے۔ رہتی دبئی میں ہے لیکن پاکستان سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے نائلہ نے نانگا پربت پر پاکستانی پرچم لہرایا ہے۔ اس کی دوسری ساتھی ثمینہ بیگ تقریباً ایک گھنٹے بعد چوٹی پر پہنچی۔ نائلہ کیانی دنیا کی سات بلند ترین چوٹیاں سر کر چکی ہے، جن میں ماؤنٹ ایورسٹ بھی شامل ہے۔
ثمینہ بیگ عمر میں نائلہ کیانی سے سینئر ہے۔ ثمینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ 2013ء میں سر کیا تھا۔ 2014ء تک اس نے سات چوٹیاں سر کر لی تھیں۔ وہ شمالی علاقہ یعنی گلگت بلتستان کی رہنے والی ہے۔ جب اس نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تو اس کی عمر صرف 21 سال تھی۔ شاشیکن سر ایک چوٹی ہے جہاں ثمینہ بیگ سے پہلے کوئی خاتون کوہ پیما نہیں گئی تھی۔ یہ چوٹی اس پاکستانی خاتون نے 2010ء میں سر کی تھی اور اس کا نام تب سے Samina Peak ہے۔ ثمینہ بیگ پرائڈ آف پرفارمنس یعنی انعام برائے حسن کارکردگی حاصل کر چکی ہیں۔ ان دونوں خواتین نے پاکستان کا نام روشن کیا، ہمیں چاہئے کہ ان دونوں خواتین کے تازہ ترین کارنامے یعنی نانگا پربت سر کرنے کی دنیا بھر میں تشہیر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح کوہ پیمائی کے لئے پاکستان آئیں۔
اور اب ذکر ہوجائے ایک اور دخترِ پاکستان کا، جس نے مختلف قسم کی شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس لڑکی کا تعلق سندھ کے پسماندہ ضلع تھرپارکر سے ہے جو بیشتر صحرا ہے۔ سی ایس ایس کا امتحان عموماً مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ امیدوار تیاری کے لئے اکیڈمی جوائن کرتے ہیں۔ تحریری امتحان اور انٹرویو کی تیاری کرتے ہیں لیکن کرن کھتری نے کوئی اکیڈمی جوائن نہیں کی، ساری تیاری آن لائن کی۔ اچھی پوزیشن حاصل کی اور جلد ہی انکم ٹیکس سروس کا حصہ بن جائے گی۔ کرن کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ چند سال پہلے اس نے لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ پاکستانی خواتین کی یہ شاندار کامیابیاں ہمارے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔