عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے جاپانی نژاد سربراہ یوکیا امانو نے کراچی میں ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کراچی کے کے2 اور کے3 ایٹمی بجلی گھروں کا دورہ کیا ہے اور وہاں جو حفاظتی نظام دیکھا اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ انہوں نے دْنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کیا ہے اور اْن کے ادارے کے ممبران کی تعداد 169 ہے۔ اْن میں وہ پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹروں کو سب سے محفوظ ترین سمجھتے ہیں۔ یوکیا امانو کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے جوہری ادارے (پی اےای سی) اور آئی اے ای اے کے 1957ء میں قیام میں آنے کے وقت سے تعاون رہا ہے اور یوں پاکستان کا شمار آئی اے ای اے کے بانی ممالک میں ہوتا ہے۔ یوکیا امانو 2009ء سے اِس معتبر ادارے کے سربراہ ہیں انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پاکستان نے آئی اے ای اے کا ساتھ دیا، پاکستان کی عالمی جوہری معاملات کی تربیت میں موثر شمولیت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی ایجنسی سے مستفیض ہوتا ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان نے آئی اے ای اے کے لئے پیش بہا خدمات انجام دی ہیں جو اعلیٰ تربیت یافتہ پاکستانی ماہرین کے حوالے سے ہیں۔ پاکستان عالمی جوہری توانائی کے ہر رہنما اصول پر کاربند ہے، جس کو عالمی ادارہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ 2012ء میں بھی پاکستان آئے تھے، اس وقت سے اب تک پاکستان بہت پیش رفت کر چکا ہے، انسانیت کی خدمت کے حوالے سے پاکستان جوہری توانائی کمیشن نے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں وہ کینسر کے حوالے سے ہیں۔
پاکستان بھر میں 18 کینسر کے علاج کے اسپتال کام کررہے ہیں جوکہ پاکستان کے بڑے شہروں تک محدودہیں، امید ہے کہ پاکستان اْن اسپتالوں کو دیہاتوں تک بھی لے جائے گا کیونکہ کینسر ایک موذی مرض ہے جو ساری دْنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور عورتوں میں سینے اور دیگر قسم کے کینسر پیدا ہوتے ہیں، اس کے علاوہ گلے اور دیگر کینسرز بھی ہیں۔ ہمارے خیال میں انہوں نے پاکستان کی انسانی خدمت کے حوالے سے جو تعریف کی ہے وہ پاکستان کے لئے ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ان اسپتالوں میں 80 فیصد لوگوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ یہ ایک موذی اور مہنگا مرض ہے تاہم پاکستان کے مختلف شہروں جن میں کراچی میں ایمک اور کرن، حیدرآباد میں نمرہ، نواب شاہ میں نورین، لاڑکانہ میں لینا، ملتان میں مینار، بہاولپور میں بینو، فیصل آباد میں پینم، لاہور میں انمول اور سینم، گوجرانوالہ میں جینم، اسلام آباد میں نوری، کوئٹہ میں سینار، ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈینار، بنوں میں بینور، پشاور میں ارنم، ایبٹ آباد میں اینور اور سوات میں سینور کے نام سے کینسر کی جدید مشینوں اور ادویات کے ساتھ یہ اسپتال کام کررہے ہیں۔ گلگت میں جلد ہی ایک اسپتال قائم کردیا جائے گا۔ صحت کے علاوہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (پی اےای سی) نے زراعت میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ادارے نے 89 کے قریب نئی فصلیں تیار کی ہیں۔ ان میں کپاس، گیہوں، پھل فروٹ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آم عالمی جوہری ادارے میں تعینات پاکستانی نمائندے کے ذریعے مل جاتے ہیں جس کا وہ اور اْن کا خاندان منتظر رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے حیدرآباد کے نزدیک زرعی تحقیقاتی ادارے کا دورہ کیا ہے۔ اس نے جو چند سالوں میں ترقی کی ہے اس کو سراہے بغیر نہیں وہ رہ سکتے۔
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (پی اےای سی) مارچ 1956ء میں وجود میں آیا اس لئے پاکستان کے جوہری سائنسدانوں کی ایک کھیپ عالمی ادارہ جوہری ادارہ برائے ایٹمی انرجی میں خدمات انجام دیتی رہی ہے، وہاں دنیا بھر کے سائنسدانوں سے سیکھتی اور اْن کو سکھاتی بھی رہی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ادارے اور عالمی ادارے کے درمیان تعاون مثالی رہا۔ جہاں تک بجلی کی ضرورت کا معاملہ ہے وہ پاکستان کی سخت ترین ضروریات میں شامل ہے۔ پاکستان کو بجلی کی کمیابی کا سامنا ہے، اس کو گھروں کے استعمال کے ساتھ تجارتی مقاصد کے لئے کارخانوں میں بجلی کی سخت ضرورت ہے اور یہ ضرورت روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں پانچ جوہری بجلی گھر کام کررہے ہیں جن میں کینپ جسے کے1 بھی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ چشمہ 1، چشمہ 2، چشمہ 3 اور چشمہ 4 جو پاکستان کو 1350 میگاواٹ بجلی فراہم کرتے ہیں۔ کے2 اور کے3 کے بننے کے بعد 2020ء میں 1100 میگاواٹ کا اضافہ ہوجائے گا اور کے3 کے 2021ء میں مکمل ہونے کے بعد مزید گیارہ سو میگاواٹ کا اضافہ ہوجائے گا۔ امید ہے کہ اس سے کراچی کو 500 میگاواٹ بجلی دستیاب ہوجائے گی۔ خود عالمی ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں بجلی گھر جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور ان میں دنیا میں اب تک پیش آنے والے حادثات کی وجوہات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ دنیا میں اس وقت 30 سے زائد ممالک ایٹمی بجلی گھر بن رہے ہیں جن میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سوڈان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ یہ زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں۔ امانو صاحب کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ ترین قرار دینا بڑی بات ہے جس کی حفاظت کا نظام خود انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پاکستان دنیا میں جوہری پروگرام کو انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ایک لیڈر کے درجے پر فائز ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی بجلی ماحول دوست ہے کیونکہ اس سے ماحول میں خرابی پیدا نہیں ہوتی، اْن کا کہنا تھا کہ صحت کے معاملے میں یہاں کے ڈاکٹروں، ماہرین اور سائنسدانوں کا علم اور جذبہ قابل ستائش ہے اور جس تیزی سے ان معاملات میں ریسرچ اور ٹیکنالوجی کو پاکستان کے معالج پروان چڑھا رہے ہیں وہ ان کے جذبے، انہماک و یکسوئی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان شعاعی علاج کے معاملے میں بھی کافی ترقی کر چکا ہے اور جوہری ادویات کے معاملے میں اْس کی خدمات قابل قدر ہیں جو ملکی اور انسانیت کی خدمت کی ایک مثال ہیں۔
پْرامن مقاصد کے لئے جوہری صلاحیت کے حوالے سے پاکستان کے ایک عالمی ادارے کے سربراہ کی طرف سے تعریف جہاں ہمیں اچھی لگی وہاں پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کی صلاحیت اور خدمت کے جذبے کی لگن کے اعتراف پر خوشی ہوئی۔ سب سے زیادہ یہ بات اطمینان کا باعث تھی کہ عالمی ایٹمی ادارہ برائے توانائی نے سند دے دی کہ پاکستانی ایٹمی ری ایکٹرز دنیا بھر میں محفوظ ترین ہیں۔