اشتیاق خان
بچپن سے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی کہانیاں سنتے آرہے ہیں، جب بڑے ہوئے تو وہ کہانیاں ذرا تفصیل میں سننے کو ملیں اور پھر جب یونیورسٹی پہنچے تو انٹرنیشنل کمیونیکیشن میں دو بڑی طاقتوں یعنی ہاتھیوں کی جنگ کے بارے میں پڑھا اور جب پڑھانے لگے تو مزید کہانیاں عیاں ہوئیں کہ ہاتھیوں کی جنگ میں چیونٹیاں مسلی جارہی ہیں مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی کہانیوں کے ساتھ بارہا سنا کہ تیسری جنگ عظیم کا خطرہ ہے مگر یہ جنگ پانی پر ہوگی جس کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پانی پر جنگ ہوگی کیونکہ کرۂ ارض پر 71 فیصد پانی اور 29 فیصد خشکی ہے تو جنگ پانی پر ہوگی اور پھر یہ بھی سنا کہ چین پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے پوری تہذیب کا نام و نشان مٹانے میں لگا ہے، جس کی وجہ پانی کا ذخیرہ ہے اور اس مقصد کے لئے ڈیم بنایا جارہا ہے، اسی طرح بھارت بھی پانی کے حصول کے لئے بہت سے منصوبے تیار کرنے میں لگا ہوا ہے جبکہ یہاں پر ہم علاقائی تعصب کا شکار ہو کر ایک کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر سیاست میں مصروف ہیں اور ملک جس طرح اور بحرانوں کا شکار ہے اسی طرح آج وطن عزیز آبی قلت، توانائی کے شدید بحران اور زبردست معاشی بدحالی کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوئے یہ ایک طویل ترین کولڈ وار کا نتیجہ ہے۔
موجودہ دور میں نفسیاتی اور تکنیکی جنگ، کلاشنکوف اور ایٹمی جنگ سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1948ء سے ہمسایہ ملک بھارت، پاکستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی سازش کررہا ہے۔ یہ اس سازش کا نتیجہ ہے کہ 1950ء میں یہاں فی کس پانی کی مقدار 5600 کیوبک میٹر تھی، اب صرف 1020 کیوبک میٹر ہے۔ اس مقدار پر پانی اس قدر کم ہوجاتا ہے کہ انسانی صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ مقدار 500 کیوبک میٹرک تک پہنچ جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ آئے دن جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اور پانی کی قلت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور فی کس مقدار میں کمی ہورہی ہے اس خوفناک بحران کی سب سے بڑی وجہ بھارتی آبی جارحیت ہے جس کا آغاز تقسیم ہند سے شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے اقتدار بچانے اور جنگ سے بچنے کی خاطر یہ انتہائی اہم اور قومی بقا کا مسئلہ آئندہ حکومتوں پر چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا جس سے بھارت ایک طویل المدتی پروگرام کے تحت پاکستان کے آبی وسائل اپنی حدود میں کنٹرول کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے 91 ڈیمز اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس تعمیر کررہا ہے جن میں 62 ڈیمز مکمل ہوچکے ہیں اور درجنوں پروجیکٹس کے لئے ابتدائی کام بھی شروع ہے۔
خفیہ ہاتھوں نے پاکستان کو دنیا کے نقشہ سے ختم کرنے کے لئے قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی سرگرمیاں شروع کردی تھیں اور پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرکے جنگی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق بھارت دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر ایک ڈیم بھی تعمیر نہیں کرسکتا۔ بھارت نے پن بجلی گھر بنانے کی آڑ میں پاکستان کے دریاؤں پر ڈیموں کا جال بچھا دیا۔ پاکستان کے پالیسی میکر اور واٹر سیکٹر ماہرین کی لاپروائی اور غفلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ متنازع بگلیہار ڈیم پر پاکستان کا اعتراض ڈیم کی تعمیر پر بنتا تھا۔ اب متنازع کشن گنگا منصوبہ کا فیصلہ آنے تک بھارت اسے آپریشنل کردے گا جبکہ پاکستان نے فقط اس کے ڈیزائن پر اعتراض کیا۔ دریائے ستلج اور راوی میں پانی نہ آنے کے باعث پانی کے گراؤنڈ لیول کا ری چارجنگ پراسس ختم ہوگیا۔ جب دریا بہتے تھے تو گردونواح میں پانی دس بارہ فٹ نیچے مل جاتا تھا۔ اب اکثر علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے، جس کے باعث ٹیوب ویلوں کے ذریعے نظام آب پاشی اور واٹر پمپوں کے ذریعے پینے کے پانی کا نظام بھی خطرے کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں 1.2 ارب افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانی اب کمیاب ہے اور دنیا کے 43 ممالک کے 70 کروڑ افراد پانی کی قلت (واٹر اسیکرسٹی) یعنی 1000 کیوبک میٹر فی کس سالانہ سے کم پانی کی دستیابی کا شکار ہیں۔ مپلیکروفت نامی بین الاقوامی ادارے کے واٹر سیکورٹی ریسک انڈکس 2010ء کے مطابق (واٹر آف سپلائز سکیور لیسٹ ) کے حامل دنیا کے پہلے 10 ممالک میں صومالیہ پہلے اور شام دسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان اس انڈکس میں ساتویں نمبر ہے۔ اقوام متحدہ نے اس امر کی پیشن گوئی کی ہے کہ 2025ء تک 1.8 ارب افراد ایسے ممالک یا خطوں میں آباد ہوں گے جہاں پانی کی سنگین
قلت (سیکرسٹی واٹر ابسیلوٹ) ہوگی جبکہ دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی کمی کے دباؤ (کنڈیشن اسٹریس انڈر ) کے شکنجے میں جکڑی ہوگی۔ اس صورتِ حال میں ماہرین نے پانی کو ’’نیلے سونے‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور اس امر کی پیشن گوئی کی ہے کہ مستقبل قریب میں کاروبار اور جنگوں کی بنیادی وجہ پانی ہوگا۔
پانی کے دانشمندانہ استعمال، اس سے متعلقہ بہتر پالیسیوں، قوانین اور اقدامات کے عمل کو تقویت دینے کی غرض سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ماہرین کے مطابق ایک شخص کی یومیہ پینے کے لئے پانی کی ضرورت 2 سے 4 لیٹر ہے لیکن ایک فرد کی روزانہ کی خوراک کی پیداوار کے لئے 2000 سے 5000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے اور 500 گرام پلاسٹک کی تیاری کے لئے 91 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا میں پانی کا 70 فیصد زراعت، 22 فیصد صنعت اور 8 فیصد گھریلو استعمال میں آرہا ہے اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق دنیا میں قابل استعمال تازہ پانی کی کل مقدار 2 لاکھ مربع کلومیٹرز ہے۔ جو تازہ پانی کے وسائل کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ جس کا 54 فیصد انسانی استعمال میں آرہا ہے۔ دنیا میں زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے 70 فیصد پانی سے ایف اے او کے مطابق 27 کروڑ 70 لاکھ ہیکڑ رقبے کو سیراب کیا جارہا ہے جو دنیا میں زیرکاشت کا رقبہ 20 فیصد ہے اور دنیا میں خوراک کی پیداوار کا 40 فیصد شراکت دار ہے جبکہ بقایا 80 فیصد زیرکاشت رقبہ بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل ان کلائمنٹ چینج نے پیشن گوئی کی ہے کہ بارانی کاشت کی پیداوار میں 2020ء تک 50 فیصد کمی ہوسکتی ہے جس کی بنیادی وجہ موسم اور بارشوں کے نظام میں تبدیلی یا کمی ہے اور اس سے دنیا میں غربت اور بھوک کے شکار افراد کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ اس کے علاوہ زراعت کو ایک چیلنج سیم و تھور کا بھی ہے کیونکہ آبپاشی کے فرسودہ نظام اور غیرموزوں طریقوں سے ایک طرف پانی کا ضیاع ہورہا ہے تو دوسری جانب زمین اپنی پیداواری صلاحیتیں کھو رہی ہے۔
ورلڈ واٹر اسیسمنٹ پروگرام کے مطابق دنیا کا 10 فیصد زیرآبپاش رقبہ سیم وتھور کا شکار ہوچکا ہے، اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی آبادی 2020ء تک 20 کروڑ 80 لاکھ ہوچکی ہے اور اس میں 1.95 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے (پاکستان کی آبادی میں ہر سال 35 لاکھ 30 ہزار (3.35 ملین) افراد کا خالص اضافہ ہورہا ہے) 2030ء تک اس میں 36.67 فیصد اضافہ متوقع ہے اور یہ بڑھ کر 24 کروڑ ہوجائے گی اور ان 7 کروڑ اضافی افراد کی خوراک، پینے کے پانی اور روزمرہ زندگی کے افعال کے لئے ہمیں اضافی پانی کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان کے نہری نظام میں ہر سال تقریباً 65 ملین ایکڑ فٹ پانی یعنی 62 فیصد نہری پانی فصلوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سسٹم میں ضائع ہوجاتا ہے اور سونے پہ سہاگہ فصلوں کو پانی دینے کے فرسودہ طریقے اور ایسی فصلوں کی کاشت جو زیادہ پانی کی مقدار کی متقاضی ہوں، رہی سہی کسر پوری کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا میں ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق مقدار کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ (پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں انڈیا، چین، امریکا، جاپان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، میکسیکو اور روس شامل ہیں) پاکستان کا واٹر پرنٹ جنوب ایشیا کے چھ ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں) میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے پشاور کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو پشاور میں پانی کا مسئلہ ایک گھمبیر صورت اختیار کرچکا ہے، اس وقت پشاور میں واٹر اینڈ مینی ٹیشن سروسز کے زیرانتظام 563 ٹیوب ویل جن میں فعال 553 اور 10 ٖغیرفعال ہیں جبکہ 20 ٹیوب ویلوں پر پانی صاف کرنے والے آلے (چلورینالو ) کی تنصیب بھی کرلی ہے۔ صوبائی حکومت کو پانی کے حوالے سے مناسب اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس طرح اور شعبہ جات میں کام کیا جارہا ہے اسی طرح پانی پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ پانی پر سیاست کرنا موت کے مترادف ہے۔