Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نیوکلیئر اسٹرٹیجی کے خم 

عابد لطیف سندھو

آج دنیا میں شکتی کے دائرے بہت وسیع نہیں رہے۔ گلوبلائزیشن، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی جیسی قوتیں ہمارے گرد ہر چیز کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ تھامس ایل فریڈمین کے مطابق یہ تمام قوتیں ایک ہی وقت میں رفتار پکڑ رہی ہیں۔ یہ دلچسپ دور ہے جس میں عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیلیاں انوکھی نہیں۔ دنیا توقع کرتی ہے کہ عام باتوں سے ہٹ کر کچھ ہو، کیونکہ گلوبلائزیشن، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی کی قوتیں بیک وقت تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔
امریکہ اپنی نیوکلیئر اسٹرٹیجی (این پی آر) ازسرنو لکھ رہا ہے، جو 2010ء کے این پی آر سے یکسر مختلف ہے، جس میں نیوکلیئر پروگرام کی مکمل تخفیف کی نہیں، محدود کرنے کی بات کی گئی ہے۔ نئی امریکی این پی آر اس کہاوت کا اظہار ہوگی، ’’دوستوں کو قریب جبکہ دشمنوں کو قریب تر رکھو‘‘۔ نئی نیوکلیئر اسٹرٹیجی کا ڈرافٹ صدر ٹرمپ کو بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے تحت نیوکلیئر ہتھیار پہلے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی تاہم غیرنیوکلیئر اسٹرٹیجک حملوں کا بھی خیال رکھا جائے گا، جیسے امریکی سرزمین، اتحادیوں، پارٹنرز، سول آبادی، انفرااسٹرکچر، اتحادی نیوکلیئر فورسز اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول، نیشنل گرڈ اور انٹرنیٹ کے ذریعے سائبر حملے وغیرہ۔ اس ڈرافٹ میں چھوٹے نیوکلیئر ہتھیاروں کی بات کی گئی ہے۔ پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ موجودہ امریکی نیوکلیئر ہتھیار بہت بڑے اور اس قدر مہلک ہیں کہ استعمال نہیں ہوسکتے، جس کے باعث ہمیشہ سے استعمال میں رکاوٹ رہے ہیں۔ اس لئے دنیا کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ امریکا نیوکلیئر طاقت استعمال کرسکتا ہے جو کم طاقت والے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں پر مبنی ہوگی۔
کوئی بھی نیوکلیئر ہتھیار جس کی طاقت 20 کے ٹی سے کم ہو، وہ ہلکی توانائی کا ہتھیار ہوگا۔ 2010ء کے این پی آر میں ٹیکٹیکل ہتھیاروں کو امریکی دفاعی اسلحے سے نکال دیا گیا تھا۔ نیا ڈرافٹ نئے حقائق پیش نظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، جن کے مطابق روس، چین، ایران اور شمالی کوریا کی وجہ سے اسٹرٹیجک صورتِ حال مایوس کن ہے۔ نیوکلیئر اسٹرٹیجی کی بنیاد انوکھے تقاضے ہیں۔ برنارڈ بروڈی نے ایک موقع پر نیوکلیئر سیاست کی تعریف پیش کی، مگر تب یہ ہتھیار خام حالت میں تھا۔ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب ’’نیوکلیئر ویپن اینڈ فارن پالیسی‘‘ میں نیوکلیئر ابہام پر بحث تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ پہلے نیوکلیئر دور اور جوہری سیاست پر تھا۔ سرد جنگ اور دوسرا نیوکلیئر دور جوہری اسٹرٹیجی سے متعلق تھا۔ تیسرا نیوکلیئر دور سرد جنگ کے بعد کا ہے، یہ بھی نیوکلیئر سیاست پر مبنی ہے۔ صرف ٹرمپ ہی نیوکلیئر پالیسی میں تبدیلی نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ عالمی کیفیت بن چکی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ اقوام جنگیں مول لینے کی خواہاں ہوں، مگر وہ نہیں چاہیں گے کہ نیوکلیئر ہتھیار انہیں دشوار ترین صورتِ حال میں لے جائیں۔
امریکا دنیا کی پہلی نیوکلیئر طاقت ہے اور ہر کسی کے لئے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر امریکا اپنی نیوکلیئر اسٹرٹیجی کی ازسرنو تعریف کر رہا ہے، کچھ اختیار پاکستان کو بھی ملنا چاہئے۔ بھارت پہلے سے ہی اس راہ پر گامزن ہے۔ بھارتی آرمی چیف کی پاکستانی نیوکلیئر پروگرام سے متعلق گیڈر بھبکی اور سرحد پار کرنے دھمکیاں بھارت کی نئی نیوکلیئر اسٹرٹیجی کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ بھارتی نیوکلیئر آڑ میں پاکستان کے ساتھ جنگ کی منصوبہ بندی میں ممکن ہے۔ بھارتی آرمی چیف جو گل فشانی فرما رہے ہیں، بھارتی حکومت کی تائید اس میں یقیناً شامل ہے۔ پاکستان کے بارے میں بدلتی نیوکلیئر حکمت عملی کے پس منظر کا جائزہ حقائق کو مدنظر رکھ کر لینا ضروری ہے۔
پاکستان کی نیوکلیئر اسٹرٹیجی میں ابتدائی طور پر غیرواضح تھی، تاہم اب اس کی خدوخال دانستہ چوائس کے طور پر واضح ہو رہے ہیں۔ اس کا ایک پہلو جغرافیائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں نیوکلیئر کا پہلے استعمال ہے۔ ایک پہلو نیوکلیئر ٹیسٹ کی اس وقت تک معطلی ہے جب تک بھارت ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے۔
نیوکلیئر اسٹرٹیجی کو نمایاں اصول جامع تسدید ہے جوکہ کم از کم ٹھوس تسدید کا تبدیل شدہ حصہ ہے۔ آج امریکا یہی کچھ چھوٹے نیوکلیئر یا ٹیکٹیکل ہتھیاروں سے حاصل کرنے کا جائزہ لے رہا ہے۔ پاکستان کئی سال سے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان نے جامع تسدید کی جانب قدم بڑھایا، اسے حاصل کرنے کے لئے ایک طرف 2750 کلومیٹر رینج کا حامل ’’شاہین III‘‘ ہے، دوسری طرف 60 کلومیٹر رینج کا ’’نصر‘‘ میزائل ہے۔ ’’شاہین III‘‘ انڈیمان اور نیوبار جزائر میں بھارت کے نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے، دوسری مرتبہ حملہ کرنے کی بھارتی صلاحیت کا توڑ بھی ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیار وں کی سیکورٹی انتہائی موثر ہے، جس میں وہ کہیں بھی نصب نہیں۔ دوسری مرتبہ وار کرنے کی استعداد سمندر میں ہے اور اس میں بڑے پیمانے کی جوابی کارروائی کے برعکس ضرورت کے مطابق جواب دینے کا عنصر نمایاں ہے۔
زمینی کروز میزائل ’’بابر‘‘ جس کی رینج 700 سے 750 کلومیٹر ہے اور 350 کلومیٹر رینج کا حامل ’’رعد (آر اےاےدی)‘‘ ایئر بیسڈ کروز میزائل بھارت کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس سے نمٹنے کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ بیلسٹک میزائل ڈیفنس بھارت کو جارحیت کی جانب مائل کرسکتا ہے۔ پہلے استعمال کی آپشن کو انتہائی سطح کی آپریشنل صلاحیت، معتبر اور ٹھوس انٹیلی جنس، موثر الیکٹرونک ذرائع سے بروئے کار لایا جائے گا۔
عدم توازن کا روایتی تصور غلط فہمی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان کی فوجی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی کے اسٹرٹیجک آپشن آج آپریشنل حقائق بن چکے ہیں۔ پاکستان تسدید کو ساکن نہیں بلکہ فعال نظریہ خیال کرتا ہے، جس کی بنیاد کاؤنٹر ویلیو اور کاؤنٹر اہداف دونوں ہیں۔ نکوبار جزائر سے قریبی جنگی میدانوں تک اسٹرٹیجک اسپیکٹرم ہر لحاظ سے جامع حد تک پھیلا ہوا ہے۔
بھارتی آرمی چیف جنرل راوت کو پاکستان کا نیوکلیئر بلف ٹیسٹ کرنے سے قبل نیوکلیئر اسٹرٹیجک یا نیوکلیئر پالیٹکس سے سبق حاصل کرنا چاہئے، کیونکہ جنگ کی شدت کنٹرول کرنا اور اس کا خاتمہ دو ایسے نظریئے ہیں جن کی پہلی مرتبہ نیوکلیئر بٹن دبانے کے فوری بعد موت ہوجاتی ہے۔
وہ سینے پر بندوقیں سجانے والے فلمی فوجیوں جیسی کامیڈی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ امریکا کی نئی این پی آر دستاویز کی وجہ سے جو ہلچل پیدا ہوگی، وہ نیوکلیئر طاقتوں کو اپنی اپنی نیوکلیئر اسٹرٹیجی کے ازسرنو جائزے پر مجبور کردے گی۔ اس سے نیوکلیئر میزائل پر سواری کرنے والے ڈاکٹر اسٹرینج لوو جیسے فلمی کردار کی گنجائش ہوگی، جوکہ آئندہ بننے والی کسی مضحکہ خیز کامیڈی فلم کے ہیرو ہوں گے۔ امریکی فلمی ادارہ گزشتہ 100 سال کے دوران بننے والے 100 مزاحیہ ترین فلموں میں ایک نئے نام کا اضافہ کرے گا۔
آج نیوکلیئر اسٹرٹیجی کے ازسرنو جائزے کے دور میں پاکستان کی امریکا کے ساتھ سفارتی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ بھارت کی سافٹ پاور فیکٹریاں پاکستان سے متعلق جو عینکیں تیار کررہی ہیں، ان کا ہر زاویہ پاکستان کی منفی تصویر کشی کرتا ہے۔ اعتراض کرنے کے بجائے پاکستان کو زاویہ تبدیل کرنا چاہئے، یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دوستوں کو اعتماد میں لے، ان کی ڈائیلاگ اور بحث و مباحثہ کرے۔ امریکا ایک دوست ہے، صرف بھارتی عینک کے زیراثر اس کی آنکھ پھسل رہی ہے، ہمیں ہی دھند صاف کر کے سب کچھ روشن کرنا ہے۔(بشکریہ: ڈیلی ٹائمز/ جہان پاکستان)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل