خانہ جنگی، سیاسی بحران اور کرونا وائرس
اقوام عالم کے حوالے سے سال گزشتہ کا جائزہ پیش کرتی ایک تحریر
قادر خان یوسف زئی : 2021ء کرونا وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین اور حفاظتی انتظامات کے حوالے سے عالمی اہمیت کا حامل رہا ہے، بالخصوص ویکسین کی فراہمی میں عدم مساوات اور غیرمنصفانہ تقسیم عالمی طبقاتی کشمکش کا سبب بنی۔ لاکھوں انسانوں کی اموات، صحت و ماحول پر اقوام متحدہ کی ترجیحات نے ایسی خامیوں کی نشاندہی کی جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک وسائل کی فروانی و جدیدیت کی وجہ سے غریب اور ترقی پذیر ممالک پر ہر شعبے میں آگے رہے، لیکن جب کرونا نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو جدید ساز و سامان و وسائل سے مالامال دولت مند ممالک انتہائی لاچار و بے بس نظر آئے، ان ممالک میں معیشت اور انسانی سرگرمیوں کی بحالی کا سلسلہ ہنوز چیلنج ہے۔ 2021ء دسمبر کے وسط تک کرونا کیسوں کی تعداد 272,514,477 ہوچکی تھی جبکہ کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5,346,333 رہی جبکہ 244,907,646 مریض صحت یاب ہوئے۔
امریکا
سال 2021ء میں سیاسی تناظر میں سب سے زیادہ ہلچل امریکی انتخابات سے ہوئی۔ ٹرمپ کی شکست کے بعد صدر جوبائیڈن کو جمہوری طور پر کمزور امریکا ملا، امریکی جمہوریت کو کیپٹل ہل حملے سمیت جمہوری اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ٹرمپ حامیوں کی ہنگامہ آرائی اور عدم برداشت کے رویوں کے ساتھ آخری دَم تک شکست تسلیم نہ کئے جانا دُنیا بھر میں جمہوریت پسند ممالک کے لئے باعث شرمندگی بنا۔ امریکا کرونا وبا کی وجہ سے پوری دُنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ مملکت ہے جہاں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہونے کے باوجود انتخابی عمل ہوا۔ جوبائیڈن سے توقعات وابستہ کی جارہی تھی کہ صدر ٹرمپ کی بیشتر پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے۔ جوبائیڈن نے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی، افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرلیا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے لئے مذاکرات کا عندیہ دیا تاہم چین، روس اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں۔
افغانستان
امریکا، افغانستان کی دو دہائی پر محیط جنگ 31 اگست 2021ء کو باقاعدہ ختم ہوئی اور افغان طالبان نے آخری غیرملکی فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہو کے جانے کے بعد پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرکے عبوری انتظامیہ کا اعلان کردیا۔ افغانستان میں سیاسی بحالی کے لئے افغان طالبان، غنی انتظامیہ و امریکا کی جانب سے پاکستان کا کردار کلیدی رہا۔ تاہم دوحہ معاہدے کے برخلاف افغان مالیاتی اثاثوں کو منجمد کردیا گیا، افغان طالبان حکومت کو عالمی برادری نے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے افغانستان میں اس وقت انسانی بحران جنم لے چکا اور ڈھائی کروڑ افراد کو قحط اور اقوام متحدہ کے مطابق ایک ملین بچوں کو بھوک سے ہلاکت کا سامنا ہے۔ یورپ، امریکا اور عرب ممالک نے غیرسرکاری طور پر امدادی تنظیموں کے ذریعے امدادی پروگراموں کا اعلان تو کیا لیکن افغان عوام کو اعلان کی نہیں عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
ایران
عظیم مشرق وسطیٰ میں ایران مختلف ممالک میں جاری جنگوں و خانہ جنگیوں میں الجھا رہا۔ سیاسی طور پر قدامت پسند پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی کئی عوامی تحاریک ایرانی ریاست کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ امریکا کی متواتر پابندیوں اور ایرانی مفادات سمیت جوہری معاہدے تنازع نے ایران کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا ہوا ہے، ایران نے جوہری تنصیبات کے معائنے کیلئے مشروط اجازت دیدی۔ امریکا نے ایران کے ساتھ اوباما معاہدے کو بحال کرنے کیلئے شرائط رکھیں جس کے سبب دونوں ممالک کے درمیان مثبت پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی۔ ایران میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں جج ابراہیم رئیسی نے بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی۔ خیال رہے کہ ابراہیم رئیسی پر امریکا نے متعدد پابندیاں عائد کررکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ یورپ اور امریکا کو بدستور تشویش ہے اور اسرائیل نے تو ایران پر حملے کیلئے اپنی فوج کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا، تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات ممکن نہیں۔
اسرائیل : 2021ء اسرائیل کے لئے سیاسی طور پر بحران کا سال رہا۔ اسرائیل کی پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دی اور اس طرح بنیامن نتن یایو کے 12 سالہ اقتدار کا اب خاتمہ ہوا۔ دائیں بازو کے قوم پرست نفتالی بینیٹ نے نئے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور حکومت کی تبدیلی کی قیادت کی۔ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ سفارت خانے قائم کئے اور اسرائیلی وزیراعظم نے دورہ بھی کیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو کہا کہ اگر وہ 1967ء والی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو سعودی عرب سمیت 57 مسلم ممالک اسے تسلیم کر سکتے ہیں، تاہم دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ عمل درآمد نہیں کرا سکا۔
بھارت
مودی سرکار 2021ء میں بھی ہندوتوا نظریے کے تحت انتہاپسندانہ اقدامات کرتی رہی، مقبوضہ کشمیر، جموں اور لداخ کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنے کی کوشش کے بعد پاکستان، چین، نیپال اور بنگلہ دیش سمیت ایران کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات مزید خراب ہوئے، بھارت کرونا وائرس کی وجہ سے رواں برس بھی 34,718,669 کیسوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ بھارت میں دسمبر کے وسط تک 476,478 افراد مجموعی طور پر ہلاک ہوئے۔ مودی سرکار کی جانب سے سیاسی ناپختگی کے مظاہرے جاری رہے جس کے باعث خطے میں جنگ کا ماحول برقرار رہا۔ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف پروپیگنڈا نیٹ ورک، بھارتی عزائم کو بے نقاب کرتا نظر آیا۔ کرونا کی وبا میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر و انتہاپسندی سے بھارتی حکومت کے خلاف عوامی نفرت میں ہوا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو سی بی سی فہرست میں ڈالنے کی تجویز دی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے باوجود بھارت کو سی پی سی کی مذہبی آزادی کے لئے ”خاص تشویش والے ملک“ کی فہرست سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
برطانیہ 2021ء یکم جنوری کو یورپی یونین سے باضابطہ علیحدگی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد برطانیہ کے لئے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ عالمی وقت کے مطابق رات 11 بجے برطانیہ نے یورپی یونین کے قوانین کی پاسداری کرنی بند کردی اور ان کی جگہ، سفر، تجارت، امیگریشن اور سیکیورٹی تعاون کے نئے ضوابط نافذالعمل ہوگئے۔ خیال رہے کہ برطانیہ کی عوام نے 2016ء میں بریگزٹ ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور 31 جنوری 2020ء کو برطانیہ 27 رکنی سیاسی و اقتصادی بلاک سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ یورپی یونین نے بریگزٹ ڈیل کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے برطانیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔ برسلز کے مطابق شمالی آئرلینڈ سے متعلق تجارتی انتظامات میں لندن کی طرف سے یک طرفہ تبدیلی بریگزٹ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ کرونا وبا کا بدترین شکار رہا۔ دسمبر کے وسط تک 11,010,286 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، جبکہ وائرس کی زد میں 146,791 افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے 26 کوپ اہم کانفرنس کا انعقاد گلاسکو میں ہوا۔
ترکی
ترکی کے صدر طیب اردگان کے عالمی منظرنامے میں بڑھتے کردار کی وجہ سے، امریکا اور یورپ کے ساتھ تعلقات بدستور کشیدہ رہے، ترکی نے 2017ء میں روس سے ایس-400 میزائل سسٹم خریدا تھا جس کے نتیجے میں پابندیاں بدستور عائد ہیں۔ امریکا روسی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ ترکی پر شام کے سات سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں تیزی سے اپنے اسلحہ کی صنعت کو ترقی دینے کی کوششیں ترک حکومت کے سیاسی ہتھیاروں میں ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ قطر اور ترکی نے اپنے مرکزی بینکوں کے درمیان کرنسی کے تبادلے کے معاہدے میں توسیع کی۔ یورپی یونین کی پارلیمان نے ترکی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کرتا تو یونین میں شمولیت سے متعلق مذاکرات معطل کر دینے چاہئے۔ استنبول لکی جیل میں قید عثمان کوالا کے معاملے پر دس مغربی ممالک کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات ایک نئے بحران کا شکار ہوئے۔ ترکی نے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کاراباخ کے تنازع پر آذربائیجان کی حمایت کی، لیکن اس سے روس کے ساتھ تعلقات پر فرق نہیں پڑا۔
پاکستان
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف بدستور رکھا گیا۔ سیکورٹی خدشات لاحق رہے، بالخصوص بھارت اور افغانستان کی جانب سے دراندازیاں ہوئیں۔ تاہم تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان نے 2021ء میں کئی چیلنجز کو کامیابی سے حل کیا۔ سیکورٹی فورسز کا کردار انتہائی مثبت و حوصلہ مند رہا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوششیں رواں برس بھی جاری رہیں، حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی صرف بیانات و جلسوں کی حد تک محدود رہی۔ پاکستان کو افغانستان میں قیامِ امن کے لئے اپنی سفارتی و سیاسی کردار کی وجہ سے اہمیت حاصل ہوئی اور عالمی طاقتوں نے پاکستانی کوششوں کو سراہا، جبکہ ریاست کی جانب سے جنوبی ایشیائی پالیسی میں تبدیلی اور انتہاپسندی کے خلاف نمایاں اقدامات قابل تعریف قرار دیئے جا چکے ہیں۔ سعودی عرب، چین، امریکا اور ایران کے ساتھ تعلقات کے اثرات پر خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ اندرون خانہ داخلی مسائل بڑے چیلنجز رہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے میں پاکستان کو اپنی جغرافیائی حدود و اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے عالمی قوتوں کے دباؤ کا سامنا رہا۔ پاکستان نے افغانستان کے مسئلے کے لئے ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا۔
جرمنی
جرمنی میں سیاست کا نیا دور شروع ہوا اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اولاف شولس کو نئے چانسلر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ انتخابات سے اینگلا مرکل کے بطور چانسلر آخری دور کا اختتام ہوگیا، اینگلا مرکل کی طرف سے 16 برس بعد اقتدار سے ہٹنے پر جرمن سیاست میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی میں بائیں بازو کی قیادت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جرمنی تارکین وطن کے لئے ایک مثالی ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تو دوسری جانب مسلم تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے خلاف اسلاموفوبیا بھی جرمنی کا مسئلہ بنا رہتا ہے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی این ایچ سی آر نے دُنیا بھر کے مہاجرین کے تحفظ میں بہتری لانے کے لئے کلیدی اقدامات کی تجویز پیش کی تھی۔
چین
دُنیا کے معاشی منظرنامے میں ابھرنے والی قوت کو ہی سپرپاور سمجھا جاتا ہے۔ چین اس وقت دُنیا بھر میں ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ چین ایک نئے عالمی بلاک کی تشکیل کا موجب بنا جو امریکی مفادات کے شکار ہونے والے ممالک کی شکل میں وجود میں آ چکا ہے۔ امریکا و چین کے درمیان معاشی تنازع و اختلافات نے شدت اختیار کی، چین نے اپنی افواج کے تکنیکی شعبے، برآمدات، قومی سلامتی اور اقتصادی پالیسیوں پر مختلف اقسام کے دباؤ کا مقابلہ ایک عالمی قوت کے طور پر کیا۔ چین کی معاشی قوت کو کمزور کرنے کے لئے امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ہانگ کانگ و تائیوان اور کوریا کو ہدف بنایا گیا، جس پر چین نے اپنے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ چین نے ہانگ کانگ و تائیوان کے لئے اصلاحات کیں جسے امریکا نے مسترد کیا۔
عراق
مسلسل کئی برسوں سے جنگ زدہ ممالک عراق، شام اور یمن میں امن کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی ہے اور خانجی جنگی کے شکار ملک کسی سیاسی حل کے لئے موثر حکمت عملی کو اپنامنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ عراق سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلان امریکا کی جانب سے کیا گیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد تاحال ممکن نہیں بنایا جاسکا۔ عراق نے امریکا کو 31 دسمبر کی ڈیڈلائن دی تھی لیکن باقاعدہ ابھی تک امریکا کا حتمی اعلان سامنے نہیں آیا۔ عراق میں سیاسی ڈھانچہ غیرملکی جنگجوؤں و افواج کی مداخلت کی وجہ سے کمزور ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عراق میں مجوزہ انتخابات کی تاریخ ایک برس آگے بڑھا کر 6 جون 2021ء کردی گئی تھی، تاہم انتخابات میں شفافیت اور دھاندلی کے الزامات نے سیاسی عدم استحکام کو برقرار رکھا۔ 10 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نشستوں سے محرومی کے بعد فورسز اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم ہوئے۔ ایران انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے والی جماعتوں کا حامی ہے۔
شام
شام میں بشارالاسد صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہوئے، جسے حزب اختلاف نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انتخابی عمل کو غیرشفاف اور متنازع قرار دیا۔ امریکا اور بڑی یورپی طاقتوں نے بھی صدارتی انتخابات کو منظم انداز میں دھاندلی زدہ قرار دیا۔ فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکا کے وزرائے خارجہ نے بھی کہا کہ شامی رجیم کی نگرانی میں ہونے والے صدارتی انتخابات آزاد یا منصفانہ نہیں ہوئے کیونکہ اسد رجیم نے الیکشن میں دھاندلی کی۔ انہوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم ان تمام شامی باشندوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور دیگر افراد کی حمایت کرتے ہیں جنہوں نے انتخابی عمل کو غیرقانونی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسد حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے شام میں اقوام متحدہ کی نگرانی اور اپوزیشن کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے انتخابات کرائے جائیں۔
فرانس : 2021ء میں بھی فرانس اسلاموفوبیا کا شکار رہا۔ پیرس کے شمال میں قریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر 50 ہزار افراد پر مشتمل شہر بووئے میں مسجد بند کرنے کا عمل کیا گیا۔ خیال رہے کہ وزارتِ داخلہ کے مطابق حالیہ مہینوں میں فرانس کی کل 2623 مساجد میں سے 99 مساجد اور مسلمانوں کے نماز ہالز کی تحقیقات کی گئیں کیونکہ ان پر ”علیحدگی پسند“ نظریہ پھیلانے کا شبہ تھا۔ مجموعی طور پر 21 مساجد کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا۔
لبنان : 2021ء میں بھی غیرملکی قرضوں و اقتصادی بحران کی وجہ سے لبنان سیاسی بحران میں الجھا رہا۔ سابق وزیراعظم سعدالحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی لبنان میں سیاسی حالات نارمل نہ ہوسکے۔ ملک میں مسلسل مالیاتی بحران کے باعث قریباً 69 ارب ڈالر نقصان کا خدشہ ہے۔ لبنان کے نائب وزیراعظم سعدی الشامی نے اعدادوشمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعدادوشمار درست ہیں تاہم ان میں کچھ چیزیں اندازاً بیان ہوئی ہیں، ان کے بدلنے سے معمولی کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔ لبنان کے موجودہ معاشی حالات کو 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد بدترین مالی بحران کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
2021ء کا سال عالمی بنیادوں پر طبقاتی کشمکش اور مفاداتی ترجیحات کی زد میں رہا۔ خانہ جنگیوں سے متاثرہ ممالک یا پھر عالمی قوتوں کے فروعی مفادات نے نئے بلاک بنائے۔ کرونا کی شدت میں کمی و اضافے کے ساتھ دُنیا کے تمام ممالک کو مہنگائی سمیت تنوع اقسام کے مسائل درپیش ہے۔ معیشت کی بحالی اور بے روزگاروں کو ملازمتیں دوبارہ ملنے کے لئے 2022ء کا برس اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ نیا سال بحالی کا ہے۔ عالمی قوتوں نے اگر کسی نئے جنگی محاذ کو نہیں کھولا تو 2022ء کو انسانیت کی بحالی کا سال قرار دیا جاسکتا ہے۔